Ramzan Ali Qureshi
Banned
ایک دن مشاطہ مجھے غسل کروارہی تھی، اچانک جانے اسے کیا سوجھی اس نے شیمپو کی پوری بوتل میرے جسم پر اُلٹ دی اور خوب جی جان سے میری مالش کرنے لگی *********** اپنی داستان کا آغاز کرنے سے قبل یہ بتادوں کہ میں خود آئی نہیں، لائی گئی ہوں، یعنی کہ مجھے ہندوستان سے اسمگل کرکے پاکستان لایا گیا ہے۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ اسمگلنگ کی لعنت تو پاکستانی معیشت کی کمر توڑنے والی طاقتوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ میں ہندوستان کے گلابی شہر جے پور کی رہنے والی ہوں۔ وہاں ایک معزز گھرانے میں بڑے ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہی تھی۔ سیٹھ سوہن لال کا اکلوتا بیٹا موہن لال میرا دیوانہ تھا۔ اس نے میرے لیے ایک الگ باڑا بنوایا ہوا تھا۔ یہ پختہ در و دیوار پر مشتمل ایک شان دار کشادہ کمرہ تھا جس میں ایرکنڈیشنر بھی لگایا گیا تھا۔ برآمدے میں ناند ہر وقت تازہ چارے سے بھری رہتی۔ دوسری جانب ایک بڑے سے گھڑے میں صحت بخش ٹھنڈا پانی۔ اس کے علاوہ تازہ پھل اور خشک میوے بھی موجود رہتے، جب اور جتنا جی چاہے کھائو، کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ سامنے صحن میں نرم اور دبیز گھاس اُگائی گئی تھی، جس پر میں جب چاہتی لوٹ سکتی تھی اور تبدیلی ذائقہ کے لیے اسے بھی کھا سکتی تھی۔ نوجوان موہن لال میرا بڑا احترام کرتا اور خاص خیال رکھتا۔ آخر کیوں نہ رکھتا، میں اس کی مقدس گئوماتا جو ٹھہری۔ ایک خادمہ مجھے نہلانے دھلانے پر مامور تھی۔ طرح طرح کے کریم، شیمپو، لوینڈر اور پائوڈر میرے غسل خانے میں موجود رہتے۔ ایک ماہر مشاطہ کا تقرر بھی کیا گیا تھا جو مجھے ہر دم دل کش اور دل پذیر بنائے رکھتی۔ ایک دن مشاطہ مجھے غسل کروارہی تھی، اچانک جانے اسے کیا سوجھی اس نے شیمپو کی پوری بوتل میرے جسم پر اُلٹ دی اور خوب جی جان سے میری مالش کرنے لگی۔ ایسا لطف آیا کہ مدہوشی کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اسی عالم بے خودی میں اچانک میرا پیرا پھسلا اور میں دھڑام سے نیچے زمین پر آگری۔ مشاطہ نے گھبرا کر دہائی دی، فوراً دو چار خادم دوڑے ہوئے آئے، انہوں نے مجھے اٹھنے میں مدد دی۔ میں کھڑی تو ہوگئی، لیکن پورا بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا اور میری چیخیں یقینا محلے والوں تک پہنچ رہی ہوں گی۔ موہن لال کو خبر ہوئی تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور فوراً ہی ڈنگر ڈاکٹر کو طلب کرلیا۔ تفتیش کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ میرے پچھلے بائیں پیر کی ہڈی بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ علاج معالجہ شروع ہوا اور مجھے مکمل آرام کا حکم دے دیا گیا۔ اب یہاں سے میری بدنصیبی کا آغاز ہوتا ہے۔ موہن لال کا ایک دوست پاکستان سے اکثر کاروباری سلسلے میں آتا رہتا تھا۔ دیگر اجناس کے ساتھ ساتھ ڈھور ڈنگر کی اسمگلنگ بھی اس کے کاروبار میں شامل تھی۔ وہ جب بھی آتا، دونوں بڑی دیرتک کھسر پھسر کرتے رہتے اور ہر ملاقات کے بعد نوٹوں کی ایک موٹی سی گڈی موہن لال کی جیب میں آجاتی۔ ایک دن کیا ہوا کہ موہن لال نے رسی بھی اپنے دوست کے ہاتھوں میں تھمادی۔ مجھے اس سے یہ توقع ہرگز نہ تھی اور میرے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا۔ ’’بروٹس! تم بھی؟‘‘ یقینا موہن لال کا دل اب مجھ سے اُکتا چکا تھا۔ ٹانگ کے حادثے کے بعد میری طبیعت بھی کچھ گری گری سی رہنے لگی تھی اور میری تمام چمک دمک اور تیزی و طراری رخصت ہوگئی تھی۔ کئی ٹرکوں پر بہت سی گائیں لادی گئیں، جن میں ایک میں بھی تھی، یہ قافلہ مونا بائو، کھوکھراپار کے راستے پاکستان میں داخل ہوا اور پھر مجھے کراچی کی مویشی منڈی میں پہنچا دیا گیا، میں نے لوگوںکو کہتے سنا کہ عیدالاضحی قریب آرہی ہے، آج نہیں کل میرا بھی سودا طے پاجائے گا اور کوئی عقل کا اندھا، گانٹھ کا پورا مجھے خرید کرلے جائے گا۔ جلد ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر میں لوگوںکے معدوں میں سما جائوں گی۔ دل پھیپھڑا، کلیجی، زبان، مغز، دم، اوجھڑی، بٹ، یہ ظالم لوگ کچھ بھی تو نہیں چھوڑتے، سب کچھ کھا جاتے ہیں۔ میرے گوشت سے بیسیوں اقسام کے پکوان تیار کیے جائیں گے، ذائقوں کی اتنی بھرمار ہے کہ کچھ نہ پوچھو۔ آج کل نہاری اور پائے کا بھی بڑا چرچا ہے۔ گوشت خوری پر مجھے ایک شعریاد آرہا ہے۔ یاد کیا، یہ میرا اپنا ہی شعر ہے۔ گوشت کھانے کے لیے پیدا کیا انسان کو گھاس کھانے کے لیے کچھ کم نہ تھے گھوڑے گدھے میں دعا کرتی ہوں کہ اگلے جنم میں مجھے کسی مسلمان کے گھر انسان بنا کر پیدا کیا جائے، تاکہ میں بھی تو جان سکوں کہ میرے انگ انگ میں آخر وہ کون سی لذتیں پوشیدہ ہیں جن کے لوگ باگ دیوانے ہیں۔ اور ہاں… آخر میں ایک راز کی بات آپ کو بتاتی چلوں، مسلسل سفر اور جبری اچھل کود کی وجہ سے میرے پیرکا لنگ مزید بڑھ گیا ہے۔ میرا سودا کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لاعلمی میں مارے جائیں۔ ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
- Featured Thumbs
- http://funnyimages.pk/walls/funny_eid_ul_adha_qurbani-other.jpg
Last edited by a moderator: