Sohraab
Prime Minister (20k+ posts)

سخت گرمی کے روزوں کی انمول نعمت
سچے مومن کی چھ صفات
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے (یعنی حضرت آقا مدنی ۖ کا فرمان ہے)
چھ صفات جس شخص میں ہوں وہ حقیقی مومن ہے:
وضو پورا کرنا … بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا … سخت گرمی میں زیادہ روزے رکھنا…دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا …مصیبت پر صبر کرنا … بحث نہ کرنا اگرچہ تو حق پر ہو ( الدیلمی فی الفردوس)
دوسری روایت میں آپ ۖ کا فرمان ہے:
چھ خصلتیں خیر والی ہیں:
اللہ تعالی کے دشمنوں سے تلوار کے ساتھ جہاد کرنا… گرم دن کا روزہ رکھنا… مصیبت کے وقت اچھا صبر کرنا… بحث نہ کرنا اگرچہ تم حق پر ہو… بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا… سردی کے دن اچھا ( یعنی پورا) وضو کرنا ( البیہقی)
ایک اور روایت میں ان صفات کو ایمان کی حقیقت قرار دیا گیا ہے کہ جس شخص کو یہ چھ صفات نصیب ہو جائیں تو وہ ایمان کی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے ( رواہ المروزی)
ایک عجیب قصہ
یہ واقعہ حدیث شریف کی کئی کتابوں میں کچھ فرق کے ساتھ مذکور ہے خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضور اقدس ۖ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو سمندری جہاد کے سفر پر بھیجا، آپ اپنے رفقا کے ساتھ کشتی پر جا رہے تھے کہ سمندر سے ایک غیبی آواز آئی کیا میں تمہیں وہ فیصلہ نہ سناوں جو اللہ تعالی نے اوپر فرمایا ہے؟ حضرت ابو موسی نے کہاضرور سناوآواز دینے والے نے کہااللہ تعالی نے اپنے اوپر یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ جو شخص خود کو کسی گرم دن اللہ تعالی کے لئے پیاسا رکھے گا ( یعنی روزہ رکھے گا)تو اللہ تعالی نے اپنے اوپر لازم فرمایا ہے کہ اس کو قیامت کے دن ضرور سیراب فرمائیں گے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے بعد گرم دنوں کی تلاش میں رہتے تھے ایسے گرم دن کہ جن میں لوگ مرنے کے قریب ہوں آپ ایسے دنوں میں روزہ رکھتے تھے ( رواہ ابن المبارک وابن ابی شیبہ وعبد الرزاق وفی سندہ کلام)
حضرت آقا مدنی ۖ کا عمل
بخاری اور مسلم کی ایک روایت کا خلاصہ ہے کہ:حضور اقدس ۖ ایک گرم دن میں سفر پر تشریف لے گئے ( رمضان المبارک کا مہینہ اور جہاد کا سفر تھا) گرمی اتنی شدید تھی کہ حضرات صحابہ کرام اپنے ہاتھ اپنے سروں پر رکھتے تھے مگر اس حالت میں بھی حضور اقدس ۖ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ روزہ کی حالت میں تھے اور بھی کئی روایات میں سخت گرمی کے سفر کے دوران آپ ۖ کا روزہ رکھنا ثابت ہے اتنی گرمی کہ بعض اوقات آپ ۖ نے اپنے اوپر پانی بھی ڈالاتاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہو۔
حضرت ابو بکر و عمرکا عمل
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تو مستقل یہ معمول تھا کہ:گرمی کے موسم میں روزے رکھتے تھے اور سردیوں میں رخصت فرماتے۔
یعنی نفل روزوں کے لئے گرمی کے موسم کو منتخب فرما رکھا تھاحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بھی سخت گرمیوں میں روزے رکھنے کا معمول تھاحتی کہ سفر میں جب گرم لو کے تھپیڑے آپ کو ایذا پہنچا رہے ہوتے تھے تو آپ روزہ کی حالت میں ہوتی تھیں…جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی شہادت کے قریب اپنے بیٹے عبد اللہ کو وصیت فرمائی کہ اے پیارے بیٹے ایمان والی صفات کو لازم پکڑناانہوں نے عرض کیااے پیارے ابا جی! وہ کونسی صفات ہیںارشاد فرمایا۔
سخت گرمی میں روزہ رکھنا… دشمنوں کو تلوار سے قتل کرنا ( یعنی اللہ تعالی کے دشمنوں کو)… مصیبت پر صبر کرنا… سرد دنوں میں پورا وضو کرنا… بادلوں والے دن نماز میں جلدی کرنا… شراب نہ پینا( ابن سعد فی الطبقات)۔
مجھے گرمی لوٹا دو
حضرت عامر بن عبد قیس رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر بصرہ سے شام منتقل ہو گئے وہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے بار بار پوچھتے کہ کوئی حاجت، خدمت ہو تو بتائیںمگر حضرت عامر کچھ نہ مانگتے جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصرار بڑھا تو حضرت عامر نے فرمایا: مجھے بصرہ کی گرمی لوٹا دیجئے تاکہ مجھے سخت روزے نصیب ہوں یہاں آپ کے ہاں روزہ بہت آسان گذر جاتا ہے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سخت گرمیوں میں نفل روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات بے ہوشی اور غشی طاری ہو جاتی مگر روزہ نہ توڑتے اور جب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آیا تو فرمایا:اپنے پیچھے ایسی کوئی چیز چھوڑ کر نہیں جا رہا کہ جس کے چھوڑنے کا افسوس ہوسوائے دو چیزوں کے ایک گرمی کے روزہ میں دوپہر کی پیاس اور دوسرا نماز کے لئے چلنا ( بس ان دو چیزوں کے چھوٹنے کا افسوس ہے)ابن ابی شیبہ
اسی طرح کی روایت حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی ہے کہ وہ اپنی وفات کے وقت اس بات پر افسوس فرما رہے تھے کہ اب گرمی کے روزے کی پیاس نصیب نہیں ہو گی۔
آخری بات
یہ موضوع بہت میٹھا اور مفصل ہے ابھی مزید کچھ قصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر رمضان کے مبارک اوقات میں اختصار ہی بہتر ہے آج کل ہم سب کو گرمی کے روزے نصیب ہیںیہ بڑی مہنگی نعمت ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی اس نعمت کی قدر کریںخوشی اور شکر سے روزے رکھیں جو تھوڑی بہت تکلیف آئے وہ خندہ پیشانی سے برداشت کریںشیطان کے اس جال میں کوئی نہ پھنسے کہ یہ روزے میرے بس میں نہیں ہیںکئی مرجی قسم کے مفکر بھی یہی فتوی دیتے ہیں یہ سب ہمیں اس انمول نعمت سے محروم رکھنا چاہتے ہیںاگر گرمی کے روزے ہمارے بس میں نہ ہوتے تو ہمارا رحیم و مہربان رب کبھی ہم پر یہ روزے فرض نہ فرماتا جب اللہ تعالی نے یہ روزے فرض فرمائے ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ روزے ممکن ہیں اللہ تعالی کے پیارے بندے سخت گرمی میں روزے بھی رکھتے ہیں اور مزدوری بھی کرتے ہیں اور ساتھ خوشی اور شکر بھی ادا کرتے ہیں۔
Last edited by a moderator: