صابر۔۔۔
اپنے 20 سالہ ڈاکٹری کیریئر میں ، میں نے ایسا شخص نہی دیکھا تھا۔۔ انتہائی صبرناک و عاجز طبیعت ۔۔ بات بھی کرتا تو بس مطلب کی ورنہ خاموش ہی رہتا۔۔ ایک ہلکی سی مُسکُراہٹ چہرے پر سجائے رکھتا۔۔
آج اُسے اپنی آخری دوا۔۔اپنا آخری انجیکشن لینا تھا۔۔ آج اُس کا آخری دن تھا ۔۔۔زندگی کا آخری دن۔۔۔
دو دن قبل جب ہم نے اُسے کہا کہ اب اُس کے پاس دو ہی دن بچے ہیں تو ایک ہلکی سی مُسکُراہٹ کے ساتھ سر ہلا کر جواب دیا ۔۔ جیسے کہہ رہا ہو ۔۔ مُجھے معلُوم ہے بس آپ سے تصدیق لینا باقی تھی۔۔۔ شاید دُنیا سے اُس کا دل بھی بھر چُکا تھا۔۔
وہ پھیپڑوں کے کینسر میں مُبتلا۔۔ ایک سرکاری محکمہ کا مُلازم تھا جس کے علاج کا خرچ محکمہ اُٹھاتا تھا۔۔۔ورنہ تو کب کا فانی دُنیا سے کوُچ کر چُکا ہوتا۔۔۔
آج جب میں نے اُسے ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے چھت کو گُھورتے ایک گہری سوچ میں ڈھوبا دیکھا تو بے اختیار پُوچھ بیٹھا ۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو جمال دین۔۔فکر مت کرو ۔۔تمہیں تکلیف نہی ہوگی۔۔ بس انجیکشن لگنے کے کُچھ ہی دیر میں آرام آجائے گا۔۔
اُس نے اپنی اُسی ہلکی مُسکُراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔۔۔
ڈاکٹر۔۔۔تُمہیں کیا لگتا ہے کہ مُجھے تکلیف کا یا موت کا ڈر ہے۔۔؟؟
میں نے شائستگی سے جواب دیا ۔۔۔نہی وہ میں تو بس۔۔۔
اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔
ڈاکٹر۔۔۔ وہ گلاس کے اُس طرف عورت دیکھ رہے ہو۔؟؟۔۔ وہ میری بیوی ہے۔۔۔اُسے نہی پتہ کہ میں آج کونسا انجیکشن لگوانے آیا ہوں۔۔۔اُسے چھوڑو ۔۔ میرا نا فرمان اکلوتا بیٹا جو آج جیل میں ہے اپنی آوارگیوں کی وجہ سے ۔۔ اُسے بھی نہی پتہ ۔۔۔
اُس کی بات سُن کر مُجھے حیرت کا جھٹکہ لگا۔۔۔
ارے کم از کم اپنی بیوی کو تو بتایا ہوتا۔۔۔
اُس نے ایک گہری سانس لے کر جواب دیا۔۔
مُجھ میں ہمت ہی نہی۔۔ ویسے بھی اُسے بتانے کا فائدہ۔؟؟۔ خُد ہی دیکھ لے گی جو بھی ہوگا۔۔
شاید یہ میرا پہلا پیشنٹ تھا جس کے جنازے میں بھی میں شریک ہوا اوراُس کے گھر بھی گیا تعزیت کے لئے۔۔۔۔ اور وہاں بیٹھے ایک شخص نے جب جمالدین سے مُتعلق بات شُروع کی تو میں غور سے سُننے لگا۔۔۔اُس نے کہا کہ۔۔۔
.
آج مُجھے بہت افسوس ہورہا ہے اپنے رویے پر۔۔۔کتنا صبر ناک شخص تھا وہ۔۔۔
جب اُس کے آوارہ بیٹے نے میری بیٹی کو طلاق دی تو میں نے کس طرح جمالدین کو بھرے مجمےمیں ذلیل کیا تھا۔۔۔مگر جواب میں اُس نے ایک لفظ بھی نہی کہاتھا۔۔۔
میرے اس پیشنٹ نے میری سوچ اور زندگی ہی بدل ڈالی تھی۔۔میں نے اُس سے صبر کرنا سیکھا۔۔۔ صبر و شُکر ہی آدمی کو عظیم بناتی ہے۔۔
میں نے دیکھا کہ کس قدر بدقسمت تھی وہ اولاد جسے جمالدین جیسا صابرباپ تو ملا مگر اُس نے اُس کی قدر نہ کی جس کے بدلے میں قُدرت کا انتقام تو دیکھو کہ باپ کے مرتے وقت اُسے کال کوٹڑی میں بند کردیا۔۔۔
اپنے 20 سالہ ڈاکٹری کیریئر میں ، میں نے ایسا شخص نہی دیکھا تھا۔۔ انتہائی صبرناک و عاجز طبیعت ۔۔ بات بھی کرتا تو بس مطلب کی ورنہ خاموش ہی رہتا۔۔ ایک ہلکی سی مُسکُراہٹ چہرے پر سجائے رکھتا۔۔
آج اُسے اپنی آخری دوا۔۔اپنا آخری انجیکشن لینا تھا۔۔ آج اُس کا آخری دن تھا ۔۔۔زندگی کا آخری دن۔۔۔
دو دن قبل جب ہم نے اُسے کہا کہ اب اُس کے پاس دو ہی دن بچے ہیں تو ایک ہلکی سی مُسکُراہٹ کے ساتھ سر ہلا کر جواب دیا ۔۔ جیسے کہہ رہا ہو ۔۔ مُجھے معلُوم ہے بس آپ سے تصدیق لینا باقی تھی۔۔۔ شاید دُنیا سے اُس کا دل بھی بھر چُکا تھا۔۔
وہ پھیپڑوں کے کینسر میں مُبتلا۔۔ ایک سرکاری محکمہ کا مُلازم تھا جس کے علاج کا خرچ محکمہ اُٹھاتا تھا۔۔۔ورنہ تو کب کا فانی دُنیا سے کوُچ کر چُکا ہوتا۔۔۔
آج جب میں نے اُسے ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے چھت کو گُھورتے ایک گہری سوچ میں ڈھوبا دیکھا تو بے اختیار پُوچھ بیٹھا ۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو جمال دین۔۔فکر مت کرو ۔۔تمہیں تکلیف نہی ہوگی۔۔ بس انجیکشن لگنے کے کُچھ ہی دیر میں آرام آجائے گا۔۔
اُس نے اپنی اُسی ہلکی مُسکُراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔۔۔
ڈاکٹر۔۔۔تُمہیں کیا لگتا ہے کہ مُجھے تکلیف کا یا موت کا ڈر ہے۔۔؟؟
میں نے شائستگی سے جواب دیا ۔۔۔نہی وہ میں تو بس۔۔۔
اُس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ۔۔۔
ڈاکٹر۔۔۔ وہ گلاس کے اُس طرف عورت دیکھ رہے ہو۔؟؟۔۔ وہ میری بیوی ہے۔۔۔اُسے نہی پتہ کہ میں آج کونسا انجیکشن لگوانے آیا ہوں۔۔۔اُسے چھوڑو ۔۔ میرا نا فرمان اکلوتا بیٹا جو آج جیل میں ہے اپنی آوارگیوں کی وجہ سے ۔۔ اُسے بھی نہی پتہ ۔۔۔
اُس کی بات سُن کر مُجھے حیرت کا جھٹکہ لگا۔۔۔
ارے کم از کم اپنی بیوی کو تو بتایا ہوتا۔۔۔
اُس نے ایک گہری سانس لے کر جواب دیا۔۔
مُجھ میں ہمت ہی نہی۔۔ ویسے بھی اُسے بتانے کا فائدہ۔؟؟۔ خُد ہی دیکھ لے گی جو بھی ہوگا۔۔
شاید یہ میرا پہلا پیشنٹ تھا جس کے جنازے میں بھی میں شریک ہوا اوراُس کے گھر بھی گیا تعزیت کے لئے۔۔۔۔ اور وہاں بیٹھے ایک شخص نے جب جمالدین سے مُتعلق بات شُروع کی تو میں غور سے سُننے لگا۔۔۔اُس نے کہا کہ۔۔۔
.
آج مُجھے بہت افسوس ہورہا ہے اپنے رویے پر۔۔۔کتنا صبر ناک شخص تھا وہ۔۔۔
جب اُس کے آوارہ بیٹے نے میری بیٹی کو طلاق دی تو میں نے کس طرح جمالدین کو بھرے مجمےمیں ذلیل کیا تھا۔۔۔مگر جواب میں اُس نے ایک لفظ بھی نہی کہاتھا۔۔۔
میرے اس پیشنٹ نے میری سوچ اور زندگی ہی بدل ڈالی تھی۔۔میں نے اُس سے صبر کرنا سیکھا۔۔۔ صبر و شُکر ہی آدمی کو عظیم بناتی ہے۔۔
میں نے دیکھا کہ کس قدر بدقسمت تھی وہ اولاد جسے جمالدین جیسا صابرباپ تو ملا مگر اُس نے اُس کی قدر نہ کی جس کے بدلے میں قُدرت کا انتقام تو دیکھو کہ باپ کے مرتے وقت اُسے کال کوٹڑی میں بند کردیا۔۔۔