http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2010/07/100707_kashmir_army_media.shtml
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری عوامی احتجاج کو دبانے اور کرفیو کے باوجود ہنگاموں کو روکنے میں پولیس اور نیم فوجی ملیشیاء سی آر پی ایف کی ناکامی کے بعد بدھ کی صبح سرینگر اور دوسرے حساس قصبوں میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور میڈیا اہلکاروں کے کرفیو پاس کالعدم قرار دے کر ان کی نقل و حرکت پر پابند عائد کر دی گئی۔
منگل کے روز سرکاری فورسز کی کارروائی میں ایک خاتون سمیت مزید پانچ نوجوانوں کی موت کے بعد وادی میں زبردست کشیدگی پھیل گیا جس کے بعد حکام نے کرفیو نافذ کردیا۔
تاہم جگہ جگہ لوگوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کرکے سڑکوں پر مظاہرے کیے۔ بعد ازاں رات کو دیر گئے حکومت نے فوج سے مدد طلب کرلی۔
سرینگر میں فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان کرنل وِنیت سود نے بی بی سی کو بتایا کہ سرینگر کے بشیتر علاقوں میں ہلاکتوں کے بعد حالات بے قابو ہوگئے تھے، اس لئے حکومت نے ہم سے تعاون کے لئے کہا ہے۔ ہم نے شہر کی بستیوں میں فوج کو تعینات نہیں کیا ہے، بلکہ گشتی دستوں کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔
ادھر دلی میں کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وزیراعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں کابینہ کا اہم اجلاس جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت کی کشمیر کی صورت حال پر نظر ہے اور اسے اس بات پر تشویش ہے کہ کمشیر کے حالیہ واقعات سے سیاسی نتائج کیا رخ اختیار کریں گے۔
بدھ کی صبح سرینگر کے پارم پورہ، ٹینگ پورہ، راولپورہ، اولڈ ائرپورٹ روڑ، اور پرانے شہر کے بعض علاقوں میں فوج نے فلیگ مارچ کیا۔ شمالی قصبہ بارہمولہ میں پہلے ہی فوج طلب کرلی گئی تھی۔
دریں اثنا مقامی اور غیرمقامی میڈیا اداروں سے وابستہ صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کیمرہ مینوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے کرفیو کے دوران جو اجازت نامے (کرفیو پاس) جاری کیے تھے، ڈپٹی کمشنر کے ایک حکمنامہ میں ان اجازت ناموں کو کالعدم قرار دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
میڈیا پر پابندی کے بعد شہر کی سڑکوں پر سناٹا چھاگیا ہے اور شاہراہوں پر صرف فوج اور نیم فوجی دستوں کی ہی نقل و حرکت ہے۔ حکومت نے موبائل فون پر پیغام رسانی (ایس ایم ایس) کی سہولت بھی معطل کردی ہیں۔ وادی میں ایس ایم ایس کے ذریعہ صورتحال کی تشہیر میں کم از کم دس میڈیا ادارے سرگرم تھے۔ تمام مقامی ٹی وی چینلز پر روزانہ خبروں کے ایک گھنٹہ کے بلیٹین کودس منٹ تک محدود کردیا گیا ہے۔
کشمیر میں سکیورٹی فورسز کو احتیاط برتنے کو کہا گیا ہے
کشمیر ایڈیٹرس گِلڈ کے ترجمان اور ہفتہ روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین نےاس پابندی پر حیریت کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں : یہ تو ایمرجیسنی حالات کا ثبوت ہے۔ ایک طرف فوج طلب کی جارہی ہے اور دوسرے طرف میڈیا پر پابندی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حالات مکمل طور پر بے قابو ہیں۔
واضح رہے اُنیس سو نوّے میں جب حکومت ہند کے خلاف عوامی مزاحمت اور مسلح شورش کا آغاز ہوا تو اُسوقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی کرفیو نافذ کیا تھا۔ کئی ہفتوں تک حالات بحال نہیں ہوئے تھے تو فوج طلب کی گئی تھی اور اخبارات کی اشاعت تین ہفتوں تک معطل رہی تھی۔
دریں اثنا میڈیا اداروں پر پابندی کے خلاف صحافیوں اور میڈیا اداروں کی عالمی تنظیم انٹر نیشنل فیڈیریشن آف جرنلسٹس نے کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کو افسوس ناک قرار دی ہے۔
نئی دلّی سے فیڈریشن کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو فون پر بتایا: یہ بہت سنگین صورتحال ہے، ہم اس سلسلے میں ایک رپورٹ تیار کررہے ہیں۔
منگل کو سرینگر کی نواحی بستی ٹینگ پورہ میں دو نوجوانوں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہروں کے دوران نیم فوجی دستوں نے گیارہ صحافیوں کو زدو کوب کیا تھا۔ پچھلے تین سال میں ایسی کاروائیوں کے دوران درجنوں فوٹو جرنلسٹ زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے جون میں شمالی کشمیر کے مژھل سیکڑ میں فوج نے تین مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقامی پولیس نے انکشاف کیا کہ تینوں نادی ہل کے رہنے والے عام شہری تھے اور انہیں فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اس پر پوری وادی میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بارہ جون کو سرینگر میں مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی میں سترہ سالہ طفیل احمد متو ہلاک ہوگئِے تھے۔ تب سے اب تک ایک پچیس سالہ خاتون سمیت اُنیس افراد مظاہرین کے خلاف پولیس یا نیم فوجی دستوں کی فائرنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ بیشتر اموات نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے ان ہلاکتوں کو فورسز کی طرف سے ذاتی دفاع کی کوشش کا نتیجہ قرار دیا ہے اور پتھراؤ کرنے اور احتجاج کرنے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری عوامی احتجاج کو دبانے اور کرفیو کے باوجود ہنگاموں کو روکنے میں پولیس اور نیم فوجی ملیشیاء سی آر پی ایف کی ناکامی کے بعد بدھ کی صبح سرینگر اور دوسرے حساس قصبوں میں فوج طلب کر لی گئی ہے اور میڈیا اہلکاروں کے کرفیو پاس کالعدم قرار دے کر ان کی نقل و حرکت پر پابند عائد کر دی گئی۔
منگل کے روز سرکاری فورسز کی کارروائی میں ایک خاتون سمیت مزید پانچ نوجوانوں کی موت کے بعد وادی میں زبردست کشیدگی پھیل گیا جس کے بعد حکام نے کرفیو نافذ کردیا۔
تاہم جگہ جگہ لوگوں نے کرفیو کی خلاف ورزی کرکے سڑکوں پر مظاہرے کیے۔ بعد ازاں رات کو دیر گئے حکومت نے فوج سے مدد طلب کرلی۔
سرینگر میں فوج کی پندرہویں کور کے ترجمان کرنل وِنیت سود نے بی بی سی کو بتایا کہ سرینگر کے بشیتر علاقوں میں ہلاکتوں کے بعد حالات بے قابو ہوگئے تھے، اس لئے حکومت نے ہم سے تعاون کے لئے کہا ہے۔ ہم نے شہر کی بستیوں میں فوج کو تعینات نہیں کیا ہے، بلکہ گشتی دستوں کی ڈیوٹی لگا دی ہے۔
ادھر دلی میں کشمیر کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے وزیراعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں کابینہ کا اہم اجلاس جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق مرکزی حکومت کی کشمیر کی صورت حال پر نظر ہے اور اسے اس بات پر تشویش ہے کہ کمشیر کے حالیہ واقعات سے سیاسی نتائج کیا رخ اختیار کریں گے۔
بدھ کی صبح سرینگر کے پارم پورہ، ٹینگ پورہ، راولپورہ، اولڈ ائرپورٹ روڑ، اور پرانے شہر کے بعض علاقوں میں فوج نے فلیگ مارچ کیا۔ شمالی قصبہ بارہمولہ میں پہلے ہی فوج طلب کی گئی تھی۔
سرکاری ذرائع
بدھ کی صبح سرینگر کے پارم پورہ، ٹینگ پورہ، راولپورہ، اولڈ ائرپورٹ روڑ، اور پرانے شہر کے بعض علاقوں میں فوج نے فلیگ مارچ کیا۔ شمالی قصبہ بارہمولہ میں پہلے ہی فوج طلب کرلی گئی تھی۔
دریں اثنا مقامی اور غیرمقامی میڈیا اداروں سے وابستہ صحافیوں، فوٹوگرافروں اور کیمرہ مینوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت نے کرفیو کے دوران جو اجازت نامے (کرفیو پاس) جاری کیے تھے، ڈپٹی کمشنر کے ایک حکمنامہ میں ان اجازت ناموں کو کالعدم قرار دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
میڈیا پر پابندی کے بعد شہر کی سڑکوں پر سناٹا چھاگیا ہے اور شاہراہوں پر صرف فوج اور نیم فوجی دستوں کی ہی نقل و حرکت ہے۔ حکومت نے موبائل فون پر پیغام رسانی (ایس ایم ایس) کی سہولت بھی معطل کردی ہیں۔ وادی میں ایس ایم ایس کے ذریعہ صورتحال کی تشہیر میں کم از کم دس میڈیا ادارے سرگرم تھے۔ تمام مقامی ٹی وی چینلز پر روزانہ خبروں کے ایک گھنٹہ کے بلیٹین کودس منٹ تک محدود کردیا گیا ہے۔

کشمیر ایڈیٹرس گِلڈ کے ترجمان اور ہفتہ روزہ چٹان کے مدیر طاہر محی الدین نےاس پابندی پر حیریت کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں : یہ تو ایمرجیسنی حالات کا ثبوت ہے۔ ایک طرف فوج طلب کی جارہی ہے اور دوسرے طرف میڈیا پر پابندی ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ حالات مکمل طور پر بے قابو ہیں۔
واضح رہے اُنیس سو نوّے میں جب حکومت ہند کے خلاف عوامی مزاحمت اور مسلح شورش کا آغاز ہوا تو اُسوقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے بھی کرفیو نافذ کیا تھا۔ کئی ہفتوں تک حالات بحال نہیں ہوئے تھے تو فوج طلب کی گئی تھی اور اخبارات کی اشاعت تین ہفتوں تک معطل رہی تھی۔
دریں اثنا میڈیا اداروں پر پابندی کے خلاف صحافیوں اور میڈیا اداروں کی عالمی تنظیم انٹر نیشنل فیڈیریشن آف جرنلسٹس نے کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن کو افسوس ناک قرار دی ہے۔
نئی دلّی سے فیڈریشن کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو فون پر بتایا: یہ بہت سنگین صورتحال ہے، ہم اس سلسلے میں ایک رپورٹ تیار کررہے ہیں۔
منگل کو سرینگر کی نواحی بستی ٹینگ پورہ میں دو نوجوانوں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہروں کے دوران نیم فوجی دستوں نے گیارہ صحافیوں کو زدو کوب کیا تھا۔ پچھلے تین سال میں ایسی کاروائیوں کے دوران درجنوں فوٹو جرنلسٹ زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے جون میں شمالی کشمیر کے مژھل سیکڑ میں فوج نے تین مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقامی پولیس نے انکشاف کیا کہ تینوں نادی ہل کے رہنے والے عام شہری تھے اور انہیں فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا تھا۔ اس پر پوری وادی میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بارہ جون کو سرینگر میں مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائی میں سترہ سالہ طفیل احمد متو ہلاک ہوگئِے تھے۔ تب سے اب تک ایک پچیس سالہ خاتون سمیت اُنیس افراد مظاہرین کے خلاف پولیس یا نیم فوجی دستوں کی فائرنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ بیشتر اموات نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے ان ہلاکتوں کو فورسز کی طرف سے ذاتی دفاع کی کوشش کا نتیجہ قرار دیا ہے اور پتھراؤ کرنے اور احتجاج کرنے کو خودکشی کے مترادف قرار دیا ہے۔