[h=1]قائداعظم: شیعہ یا سنّی؟[/h]
قائداعظم محمد علی جناح کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے 63سال بعد پاکستان میں ان کے حوالے سے یہ بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ وہ شیعہ تھے یا سنّی ۔ شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کی ٹارگٹ کلنگ پر آبدیدہ ہوکر ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین نے ارشاد فرمایا کہ یاد رکھنا چاہیے ،بانی ءپاکستان شیعہ مسلمان تھے۔ان کا کہنا تھا کہ قائد نے باقاعدہ عدالت میں جا کر اپنے آپ کو اثناءعشری شیعہ کے طور پر رجسٹر کرایا تھا۔ان کی میت کو بھی ایک شیعہ غسال نے غسل دیا تھا اور ان کی رہائش گاہ پر ایک شیعہ مولوی صاحب نے نماز جنازہ بھی شیعہ طریقے کے مطابق پڑھائی تھی(جسے چند گنے چنے افراد نے ادا کیا تھا) ۔اس سب کا نتیجہ یہ نکالا گیا کہ قائداعظم شیعہ تھے،اس لئے شیعہ حضرات کا قتل قائداعظم کا قتل ہے، اور(ظاہر ہے) قائداعظم کا قتل پاکستان کا قتل ہے۔ اس میں تو دورائیں نہیں ہو سکتیں کہ مسلک کی بنیاد پر جو لوگوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔اس کے لئے قائداعظم کو شیعہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قرآن کریم تو کسی بھی انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور اس کے مرتکب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی وعید سناتا ہے۔شیعہ اور سنّی تو ملت اسلامیہ کی دو آنکھیں ہیں، ان کو نشانہ بنانا تو کسی بھی مسلمان معاشرے میں دوہرا قتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ خون ناحق پر غم و غصے کا اظہار ہم پر پاکستانی کے طور پر بھی واجب ہے اور انسان ہونے کے ناتے بھی لازم۔جناب الطاف حسین نے اس حوالے سے جو آواز بلندکی ہے، وہ ہم سب کے دل کی آواز ہے۔انہوں نے قومی جذبات کی بہت موثر انداز میں ترجمانی کی ہے، ان سے پہلے کسی سیاسی رہنما کو اس مسئلے کو اس شدت سے اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔اس پر ان کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے اور ان کو داد بھی دی جانی چاہیے۔شیعہ سنی کے نام پر پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے مسالک کا ٹکراﺅ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ معاشرے میں کسی بھی سطح پر ان کے درمیان کوئی تصادم دیکھنے میں نہیں آ رہا۔جو کچھ ہورہا ہے، وہ دہشت گردی ہے اور اس کے ذمہ دار خفیہ ہاتھ ہیں۔ان تک پہنچنا اور ان کو روکنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ شیعہ حضرات کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے انہیں قائداعظم کا رشتہ دار ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستان پر ان کا اتنا ہی حق ہے جتنا جناب الطاف حسین یا مجھ جیسے عاجز کا ہے۔قائداعظم کے مسلک کے حوالے سے کوئی بات کہنا جس قدر مشکل ہے، اسی قدر آسان یہ ہے کہ انہیں وہی کہا جائے جو وہ خود کو کہتے اور جو کہلوانا پسند کرتے تھے۔وہ لفظ ایک ہی ہے ،مسلمان۔ قائد کی کسی ایک تقریر اور کسی ایک اقدام سے ان کا کوئی فرقہ یا مسلک متعین نہیں کیا جا سکتا۔ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے جواباً سوال کیا، رسول اللہ کیا تھے؟اور سوال کرنے والے چھینپ کر رہ گئے۔انہوں نے جب بھی نماز ادا کی،شہر کی جامعہ مسجد میں گئے عید پڑھنے عیدگاہ میں گئے۔نماز ادا کرتے ہوئے ان کی تصاویر موجود ہیں، سینے پر ان کے بندھے ہوئے ہاتھ صاف نظر آ رہے ہیں ۔
READ THE REST OF THIS ARTICLE AT DAILY PAKISTAN BLOGS