Namo Nasab zamin k naslon may but gayee - Adam k bete kitney qabilon may but gayee
Ayeen hen jab say peesh imamat k masslee - Sajdee hamaree kitnee Mehlay may but gayee
Deyn kis tara say qaum ko ikzaam gomrahi - Jab Rah numma hi Qaum k Fiqon may but gayee.
مگر یہ پروگرام انتہائی فضول تھا، اور اس سے بھی زیادہ فضول تھے یہ علماء۔
ان عالم دین میں سے ہر ایک اس بات پر تُلا ہوا تھا کہ ثابت کرے کہ اُس کے نماز پڑھنے کا طریقہ ٹھیک ہے۔ ایک بخاری کا نام لے رہا تھا تو دوسرا کہہ رہا تھا کہ امام ابو حنیفہ امام بخاری سے بھی پہلے آئے تو تیسرا لگا ہوا تھا کہ گھر والوں نے سب سے اچھے طریقے سے نماز پڑھتے دیکھا ہو گا تو ائمہ اہلبیت سے نماز لو۔۔۔۔۔۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایسی فضول بحثوں میں پڑنے کا فائدہ کیا ہے۔ ہم لوگ اصل کو چھوڑ کر جزئیات میں پڑ گئے۔
میں یہ جانتی ہوں کہ اگر اللہ چاہتا تو نماز کے پورے طریقے کو قرآن میں درج کر دیتا تاکہ کوئی فرق ہی نہ رہتا، یا پھر پوری حدیث کو بھی قرآن کی طرح ہر قسم کی رد و بدل سے محفوظ کر دیتا۔ مگر یہ اللہ کی طرف سے ہی نہیں ہوا، بلکہ اللہ کو انسان کو امتحان میں مبتلا کرنا تھا۔
اب اگر اختلافات ہیں تو وہ آج مختلف مسالک یا دوسری اور تیسری صدی کے امام بخاری، امام ابو حنیفہ یا ائمہ اہلبیت کے درمیان نہیں، بلکہ یہ اختلافات بذات خود پہلی جنریشن صحابہ کے درمیان ہیں۔ ایک صحابی ایک طریقے سے پڑھ رہا ہے تو دوسرا صحابی دوسری طرح، تو اس میں اب لڑنے کی بات کیا ہے؟
میں کہتی ہوں جب ہم نماز پرھ رہے ہیں تو اللہ ہماری نیتوں کو بہتر جانتا ہے اور خامیوں کے باوجود ہماری عبادات کو قبول کرتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا کہ سب ایک ہی طریقے سے نماز پڑھیں تو قرآن میں نماز کا مکمل طریقہ بتلا دیتا۔
میں اس نتیجے پر پہنچتی ہوں کہ اللہ ہمارا امتحان لے رہا ہے اور اس لیے قرآن میں نماز کا طریقہ نہیں کیونکہ اللہ چاہتا ہے کہ ہم سیکھیں کہ ساری چیزیں ہمارے مابین کبھی یکساں نہیں ہو سکتیں چنانچہ ہم سیکھیں کہ ہم اُن چیزوں پر آپس میں اتفاق کر لیں جو ہم میں مشترک ہیں۔ یہی وہ پیغام ہے جو اللہ نے عیسائیوں کو بھی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا۔
ہمارے مابین نماز کا حکم مشترک ہے، اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ اس پر کرنا ہے نہ کہ اسکے طریقے کار پر۔ باقی اختلافات کو احترام کے ساتھ برداشت کر لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے اور یہی اللہ چاہتا ہے، یہی ہمارا امتحان ہے، یہ چیز انسان کی فطرت میں ہی نہیں کہ وہ کسی مسئلے کی ایک ایک جُز پر کسی قسم کا اختلاف کیے بغیر مکمل اتفاق کر لے۔ اس لیے اللہ کی تربیت یہ ہے کہ اہم اور مشترک باتوں پر اتفاق کر لو اور اختلافی چیزوں کو احترام کے ساتھ برداشت کرو۔ اب یہ صحیح ہے یا غلط، مگر میرا تو یہی ایمان ہے۔