Poem from Pakistani people to their rulers ... ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا

ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا

یہ ظلم شعار ہے تمہارا ؛ سہنا اسکو فطرت ہماری
ابّ کیا رونا غلامی کا ؛ کیسی شکایت رسوائی
دن کو اندھے رات کو غافل ؛ آہ-و-بکا کس منہ سے کریں
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ چن چن کے امیدیں اپنی گنوایی
اپنی آنکھ سے رو نہ سکیں ؛ دل مے احساس تک نہ اٹھے
درد ہماری، قصور بھی ہمارا ؛ واہ کیا کہانی تم نے سنایی
جبر کا نظام یہ چلتا رہے ؛ ایوان تمہارے سجتے رہیں
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ نہ چاہیے انصاف نہ شنوآیی

شہر کا کیا ہے، ڈوبے یا جلے ؛ بس دل تمہارا بہلاہے
خواہش ہماری کے بادشاہ ہمارا ؛ منہ موڑے بس بانسری بجاے
جب رضا ہماری ہے شامل ؛ پھر ضمیر تمہارا کیوں آڑے آے
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ ہنس ہنس کے وار تمہارے کھاے
کھانے کو غم، پینے کو آنسو ؛ اولاد ہماری دھتکاری جائے
پھر بھی اپنی پکار دبائیں ؛ کہ تمہارا بچا نہ رونے پاے
اپنے خون سے باغ تمہارے سینچے ؛ ہمے دو گز زمین ہی بھاۓ
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ اپنے ہاتھ سے محلات تمہارے سجاے

تم سے کچھ مانگنا ٹھہرا گستاخی ؛ نفس اپنے سے لڑیں
قربان تم پر حق ہمارے ؛ بتاؤ اور ہم کیا پیش کریں
بچھ بچھ کے پہلے جییں ؛ گھٹ گھٹ کے پھر مریں
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ شکایت کرنے سے بھی ڈریں
سونے کو زمین، ڈھاپنے کو آسمان ؛ ایسے ہی زندہ رہیں
شکایت کیوں کریں ؛ ہم تو تیری ہر خواہش کو سہیں
قاتل بھی تماہرے، منصف بھی تمہارے ؛ ہم کیسے کس کو پرکھیں
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ ہم تم سب کو مسیحا سمجھیں

رات کا بھی انتظار نہ کیا تم نے ؛ دن می ہی لوٹا قافلہ ہمارا
شکر گزار ہیں تمہارے ؛ تم نے دکھایی کیا دلیری کیا رہنمایی
اپنے قاتل پے ہی جان نچھاور کرنا، ہے ہماری عادت پرانی
ہم جیسا بھی کوئی سخی ہوگا ؛ ہم نے ہی اپنی گردن تمھے تھمایی
 
Last edited by a moderator:

Back
Top