چاکلیٹ ٹائم پر نہ ملے تو غصہ آ جاتا ہے (bigsmile)
[hilar][hilar][hilar][hilar][hilar] munna konsi chocolate pasand hey aap ko? white? brown ? or black??
(bigsmile)توں میری امی اے تینوں دساں ؟
تم آج اور کل محتاط رہنا ؟ تیرے اوپر میں تھریڈ سٹارٹ کرنا ہے :lol:[hilar][hilar][hilar][hilar] Chal theek hey na bata, magar rona band kar.
تم آج اور کل محتاط رہنا ؟ تیرے اوپر میں تھریڈ سٹارٹ کرنا ہے :lol:
Dear Chief Justic,
We are all with you on this. Let's finish these corrupt politicians now.
I am with judiciary but if a case comes against chief justice's son and he is found guilty than " independent judiciary should give a verdict against chief justice's son"
Ustaj Jee, maazrat ke saath jab billi so chuhey kha kar hajj par jati hey to zaroorat se zyada tawaf karti hey. pichle 3 saal me poori vukla bradari or opposition parties ki jitni support is aadmi ke saath hey agar aap ko de di jati to aap kam az kam Gilani ko 30 second ki bajae 30 din ki saza de dete, Monas ellahi chut na jata, shehbaz shareef stay order par government na chala raha hota. corruption sabit ho jane par Raja pervaiz ashraf doobara cabinet me na a jata, or ye jo chote mote suo moto awam ko phuddu lagane ke liye leta rehta hey, agar puchle 3 saloon me Judiciary ke nizam ko sahi karta, to in logon ko district judge ke level par hi insaaf mil jata,ye human right abuse ke cases supreme court tak aate hi nahi. mukhtasar ye ke jo aadmi aik baap hone ke nate apni aulad ko or aik idara ka sarbarah hone ke naate apne idare (Judiciary) ko sanbhal nahi sakta, wahaan se corruption khatam nahi kar sakta to usse kya ummidein lagana.
i think may be malik riaz’پراپرٹی کنگ‘ کون ہے؟
آپکی باتوں میں وزن ہے جِن سے بھر پور اتفاق کرتے ہوئے اِتنا عرض کروں گا کہ، فیصلہ عدالت میں ایک جج نے نہیں بنچ نے دینا ہوتا ہے جِس میں اور برادر ججز بھی شامل ہوتے ہیں۔ عمل حکومت نے کرنا کروانا ہوتا ہے جو اِنہی زرداریوں، گیلانیوں اور مونس الہیوں کی ہوتی ہے۔ جرنیلوں کو مدد کیلئے پُکارا جا سکتا ہے لیکن وہ خود اِس کھِچڑی میں ڈوئی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تو تھا ایک جُزوی اور سطحی سا پس منظر اُس صورتِ حال کا جِس کیطرف آپ نے اِشارہ کیا کاش میں وہ سب لِکھ سکتا جو براہِ راست معلومات کی بُنیاد پر حقیقتاً محسوس کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایم کیو ایم والے ایک جُملہ بہت تواتر سے بولتے ہیں کہ، یہ نطام گل سڑ چُکا ہے نجانے اپنے مُنہہ سے نکل جانے والے اِس جُملے کی معرفت سے وہ خود کِس حد تک شناسا ہیں لیکن یہ چھ لفظی جُملہ میری کِسی بھی وطویل تحریر کا مُتبادل ہے۔
آپ کو موقع مِلے (اگر نہیں مِلا کبھی) اِن طاقت کے مراکز میں جھانکنے کا، یہ جرنیل، ججز، بیوروکریٹ، صحافی، بینکار، پرائیوٹ کارپوریٹس اور نالائق سیاستدان اندر خانہ اپنی طاقت کِس منظم اور موثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اِنکی آپسی رشتہ داریاں اور تہہ در تہہ رفاقتوں اور رقابتوں کی کہانیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ایک جہانِ حیرت ہے۔
ہم تو دھُول سے کھیلتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زمین ہِلا دی ہم نے۔ وہ موضوع جو حقیقت ہیں کبھی انکا سُنتے ہیں نہ زیرِ بحث آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آئیں بھی کیسے ذریعہ تو یہی صحافی ہونگے نا جو خود اِسی راتب کے منڈلوے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ !۔
ہم جِن موضوعات پر دِلپشوری کرتے پائے جاتے ہیں وہ اُس دُنیا کی خاک پھانکنے کے مُترادف ہے جہاں پرائیویٹ جہازوں میں امپورٹڈ رشین لڑکیاں، ہِندوستانی ڈانسروں کے مُجرے، منشیات و شراب نوشی وہ سب اصلاً ہوتا ہے جو ہم سلور سکرین پر دیکھتے ہیں۔
مُجھے بھی جج صاحب سے کِسی بہت بڑے دھماکے یا دھماکوں کی اُمید تھی لیکن اُوپر کہی باتوں کو غور سے پڑھیں اور سوچیں کہ ایک آدمی جِسکے ہاتھ قانون کی ڈوری سے بندھے ہوں جو کر چُکا وہ بھی بہت سمجھو۔ یہاں آسان ترین کام نمک کی اِس کان میں نمک ہو جانا تھا، اپنا حِصہ کھاؤ اور نسلیں سنوارو اور بھیگی بلی یا کاغذی شیر بن کر وقت کے ساتھ نِکل جاؤ۔
آپ نے عوام اور وکیلوں کی بھی خوب کہی ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے جیسے ٹھیلوں والوں کو لوٹنے اور موٹر سائیکلوں کو آگ لاگنے والے اِنقلابی۔ وکیل اِنکی آئین سے محبت اور قانون کی سر بلندی کے پرچے بھی آئے دِن چھپتے رہتے ہیں۔
گیلانیوں اور شریفوں کی سزا پر میں نے ایک بار کُچھ لِکھا تھا نشرِ مکرر ہے اور مقتدرہ کے چہرے سے ایک نقاب ڈاکٹر صاحب نے اِس پوسٹ میں اُتارا ہے ملاحظہ فرما لیں۔
اب تو کُچھ ایسا اِنتظام ہو کہ تمام زمینی، فضا ئی اور سمندری راستے بند کر کے اِن لہوُ نوش لُٹیروں کو حبسِ بجا میں رکھا جائے یا پھراِن کے بچوں اور لاڈلوں کو حفاظتی تحویل میں لیکر ساری لوُٹ مار بین الاقوامی کرنسی، دھاتوں، حصص اور جائیداد کی شکل میں وصوُل کر کے عوامِ پاکِستان کے قدموں میں نچھاور کی جائے کیوُنکہ مقامی کرنسی کی ردی کاغذ کے ٹُکڑوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تو خُود اِنکے اپنے چھاپہ خانوں میں مطبُوعہ ہے۔
آپکی باتوں میں وزن ہے جِن سے بھر پور اتفاق کرتے ہوئے اِتنا عرض کروں گا کہ، فیصلہ عدالت میں ایک جج نے نہیں بنچ نے دینا ہوتا ہے جِس میں اور ’’برادر ججز‘‘ بھی شامل ہوتے ہیں۔ عمل حکومت نے کرنا کروانا ہوتا ہے جو اِنہی زرداریوں، گیلانیوں اور مونس الہیوں کی ہوتی ہے۔ جرنیلوں کو مدد کیلئے پُکارا جا سکتا ہے لیکن وہ خود اِس کھِچڑی میں ڈوئی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تو تھا ایک جُزوی اور سطحی سا پس منظر اُس صورتِ حال کا جِس کیطرف آپ نے اِشارہ کیا کاش میں وہ سب لِکھ سکتا جو براہِ راست معلومات کی بُنیاد پر حقیقتاً محسوس کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایم کیو ایم والے ایک جُملہ بہت تواتر سے بولتے ہیں کہ، ’’یہ نطام گل سڑ چُکا ہے‘‘ نجانے اپنے مُنہہ سے نکل جانے والے اِس جُملے کی معرفت سے وہ خود کِس حد تک شناسا ہیں لیکن یہ چھ لفظی جُملہ میری کِسی بھی وطویل تحریر کا مُتبادل ہے۔
آپ کو موقع مِلے (اگر نہیں مِلا کبھی) اِن طاقت کے مراکز میں جھانکنے کا، یہ جرنیل، ججز، بیوروکریٹ، صحافی، بینکار، پرائیوٹ کارپوریٹس اور نالائق سیاستدان اندر خانہ اپنی طاقت کِس منظم اور موثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اِنکی آپسی رشتہ داریاں اور تہہ در تہہ رفاقتوں اور رقابتوں کی کہانیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ایک جہانِ حیرت ہے۔
ہم تو دھُول سے کھیلتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ زمین ہِلا دی ہم نے۔ وہ موضوع جو حقیقت ہیں کبھی انکا سُنتے ہیں نہ زیرِ بحث آتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ آئیں بھی کیسے ذریعہ تو یہی صحافی ہونگے نا جو خود اِسی راتب کے منڈلوے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ !۔
ہم جِن موضوعات پر دِلپشوری کرتے پائے جاتے ہیں وہ اُس دُنیا کی خاک پھانکنے کے مُترادف ہے جہاں پرائیویٹ جہازوں میں امپورٹڈ رشین لڑکیاں، ہِندوستانی ڈانسروں کے مُجرے، منشیات و شراب نوشی وہ سب اصلاً ہوتا ہے جو ہم سلور سکرین پر دیکھتے ہیں۔
مُجھے بھی جج صاحب سے کِسی بہت بڑے دھماکے یا دھماکوں کی اُمید تھی لیکن اُوپر کہی باتوں کو غور سے پڑھیں اور سوچیں کہ ایک آدمی جِسکے ہاتھ ’’قانون‘‘ کی ڈوری سے بندھے ہوں جو کر چُکا وہ بھی بہت سمجھو۔ یہاں آسان ترین کام نمک کی اِس کان میں نمک ہو جانا تھا، اپنا حِصہ کھاؤ اور نسلیں سنوارو اور بھیگی بلی یا کاغذی شیر بن کر ’’وقت کے ساتھ نِکل جاؤ‘‘۔
آپ نے عوام اور وکیلوں کی بھی خوب کہی ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے جیسے ٹھیلوں والوں کو لوٹنے اور موٹر سائیکلوں کو آگ لاگنے والے ’’اِنقلابی‘‘۔
وکیل، اِنکی آئین سے محبت اور قانون کی سر بلندی کے ’’پرچے‘‘ بھی آئے دِن چھپتے رہتے ہیں۔
گیلانیوں اور شریفوں کی سزا پر میں نے ایک بار کُچھ لِکھا تھا نشرِ مکرر ہے اور مقتدرہ کے چہرے سے ایک نقاب ڈاکٹر صاحب نے اِس پوسٹ میں اُتارا ہے ملاحظہ فرما لیں۔
اب تو کُچھ ایسا اِنتظام ہو کہ تمام زمینی، فضا ئی اور سمندری راستے بند کر کے اِن لہوُ نوش لُٹیروں کو ”حبسِ بجا“ میں رکھا جائے یا پھراِن کے بچوں اور لاڈلوں کو ”حفاظتی تحویل“ میں لیکر ساری لوُٹ مار بین الاقوامی کرنسی، دھاتوں، حصص اور جائیداد کی شکل میں وصوُل کر کے عوامِ پاکِستان کے قدموں میں نچھاور کی جائے کیوُنکہ مقامی کرنسی کی ردی کاغذ کے ٹُکڑوں سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ یہ تو خُود اِنکے اپنے ”چھاپہ خانوں“ میں مطبُوعہ ہے۔
Its Not CJ fault ... You can't blame father for the sin of son... unless and until father is not defending his son if sin proved..
Just remember Harzat Umar (R.A) son and his punishment of 80 lashes when he was convected
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|