Invisible.Sword
Councller (250+ posts)
عمران خان کی بیرون ملک جائداد کے بارے میں
عمران خان نے 1971 میں ورکسٹشائر کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ انگلینڈ میں وہ سسیکس (وہ جگہ جہاں کا نام لے کے پرویز رشید کا وضو ٹوٹ جاتا ہے) اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے بھی کرکٹ کھیلا۔ اس کے ساتھ ساتھ آسٹریلین شیفیلڈ شیلڈ، نیو ساؤتھ ویلز کے میچز بھی کھیلا۔ اس دوران اس نے کل 274 فرسٹ کلاس اور 194 لسٹ اے میچز کھیلے۔ بطور ایک غیر ملکی کھلاڑی میچ فیس کے طور پر اسے فی دن 200 پاؤنڈ ملتے تھے۔ جو پینتیس فیصد ٹیکس کاٹنے کے بعد اسے 130 پاؤنڈ فی دن کے حساب سے ملتے تھے۔ اس کی فرسٹ کلاس میچز کی آمدنی کی اوسط 219,200 پاؤنڈ بنتی تھی۔ جس پر ٹیکس لاگو ہوتا تھا 76,720 پاؤنڈ۔ جبکہ لسٹ اے میچز پر اسے آمدن ہوئی تھی 38,800 پاؤنڈ کی اور اس پر ٹیکس لگا 13,500 پاؤنڈ۔ صرف ان ذرائع سے اس نے کل کمائے 167,700 پاؤنڈ جبکہ اس کے فلیٹ کی قیمت تھی 110,000 پاؤنڈ۔
ان بنیادی ذرائع آمدن کے سوا کانٹریکٹ فیس، کمرشل فیس، مین آف دی میچ، پرفارمنس فیس اس کے علاوہ تھے، جن کو اس نے پوری طرح ڈکلیئر بھی کیا بلکہ اسے یہ ملنے سے پہلے ہی برطانوی قانون کے مطابق ٹیکس کٹ چکا ہوتا تھا۔ اگر میں مزید تفصیل میں نا بھی جاؤں تو اب تک بتائے جانے والے ذرائع آمدن اس کے فلیٹ کو جائز ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پھر بھی مزید تفصیل پیش ہے۔
1976 سے 1979 کے دوران اس نے آسٹریلین کیری پیکر سیریز میں حصہ لیا اور وہاں کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق اس نے وہاں سے اضافی 210,000 آسٹریلین ڈالر کمائے۔ اگر آپ کو نہیں پتا تو کیری پیکر اس زمانے کی آئی پی ایل قسم کی چیز تھی۔ یہ تمام ریکارڈ ویب سائٹس پر موجود ہیں اور آسان زبان اور اردو میں پھر سے اس لئے پیش کئے جا رہے ہیں تا کہ قوم کو بتایا جا سکے کہ جب کسی شخص کے ذرائع آمدن جائز ہوں، کوئی حرام کا پیسہ نا ہو تو اس طرح آپ اپنی ایک ایک پائی کا حساب پیش کر سکتے ہیں۔
اب بات ہو جائے آف شور کمپنی کی۔ پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی کمپنی آف شور تب کہلاتی ہے جب آپ اسے اس ملک میں کھولیں جس ملک میں آپ نے پیسہ نا کمایا ہو۔ مثلا اگر کوئی بندہ برطانیہ میں پیسہ کما کے پاکستان میں کمپنی کھولے تو یہ آف شور کمپنی کہلائے گی۔ اسی طرح اگر آپ پاکستان سے پیسہ کما کے برطانیہ میں کمپنی کھولیں تو یہ آف شور کہلائے گی۔ برطانیہ میں غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یہ قانون تھا کہ اگر آپ غیر ملکی ہیں اور کمپنی کھولتے ہیں خرید و فروخت کے لیے تو آپ کو ٹیکس نہیں دینا ہوتا۔ چونکہ عمران خان پہلے ہی پینتیس فیصد ٹیکس دے چکا تھا، اس لئے اس نے برطانوی حکومت کی اس سہولت سے فائدہ اٹھا کے اپنا فلیٹ خریدا۔ یوں اسے اضافی ٹیکس نہیں دینا پڑا۔ یہ سو فیصد قانونی عمل تھا بلکہ برطانوی حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرتی تھی اور وہ پیسہ بھی پاکستان سے نہیں لایا تھا۔ اس لئے تکنیکی اعتبار سے عمران خان کی کمپنی "آن شور" تھی "آف شور" نہیں۔ دوسری بات وہ پاکستان میں حکومت میں نہیں تھا تب کہ وہ اپنی حکومتی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر ناجائز ذرائع سے پیسے بیرون ملک منتقل کرتا۔
پھر بھی نون لیگ کی تسلی کے لئے ہم اسے آف شور کمپنی ہی فرض کر لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے قوانین میں آپ نے اپنے اثاثے دینے ہوتے ہیں چاہے وہ آپ کے نام پر ہوں یا آپ کی کمپنی کے نام پر۔ اور اس کمپنی کے نام پر واحد اثاثہ وہی ایک فلیٹ تھا جو عمران خان نے ڈکلیئر کیا اور کمپنی کا نام بھی کاغذات میں جمع کروایا گیا۔ اس کمپنی کی قیمت الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے کاغذات میں کل نو (9) پاؤنڈ تھی۔ جی ہاں آپ نے درست پڑھا نو پاؤنڈ۔ اور نواز شریف پر بھی اعتراض یہ نہیں ہے کہ اس نے آف شور کمپنیوں کے نام جمع نہیں کرائے بلکہ اعتراض یہ ہے کہ اس نے ان آف شور کمپنیوں کے اثاثہ جات ڈکلیئر نہیں کئے۔ اگر نواز شریف کمپنیوں کے نام دے بھی دیتا (جو اس نے نہیں دیئے) تو بھی اصل ذمہ داری ان کمپنیوں کے اثاثوں کی تفصیل ڈکلیئر کرنا تھی (وہ بھی اس نے نہیں کی)۔ تو یہ تھی مکمل تفصیل عمران خان کے ذرائع آمدن کی اور "آف شور" کمپنی کی۔ اب عوام سے سوال یہ ہے کہ کیا پوری نون لیگ میں بشمول نواز شریف کیا کوئی شریفوں کے اثاثوں کی تفصیل کوئی ایسے بیان کر سکتا ہے؟ اگر نہیں کر سکتا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑا کیونکہ آپ نے اللہ کو جواب دینا ہے نواز شریف یا عمران خان کو نہیں۔ اور اگر آپ کا ضمیر مطمئن ہو تو پاکستان کی خاطر کم سے کم جو آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسے جیسے مرضی شیئر کریں، کاپی پیسٹ کریں، کھلی اجازت ہے۔ پاکستان زندہ باد
عمران خان نے 1971 میں ورکسٹشائر کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ انگلینڈ میں وہ سسیکس (وہ جگہ جہاں کا نام لے کے پرویز رشید کا وضو ٹوٹ جاتا ہے) اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیے بھی کرکٹ کھیلا۔ اس کے ساتھ ساتھ آسٹریلین شیفیلڈ شیلڈ، نیو ساؤتھ ویلز کے میچز بھی کھیلا۔ اس دوران اس نے کل 274 فرسٹ کلاس اور 194 لسٹ اے میچز کھیلے۔ بطور ایک غیر ملکی کھلاڑی میچ فیس کے طور پر اسے فی دن 200 پاؤنڈ ملتے تھے۔ جو پینتیس فیصد ٹیکس کاٹنے کے بعد اسے 130 پاؤنڈ فی دن کے حساب سے ملتے تھے۔ اس کی فرسٹ کلاس میچز کی آمدنی کی اوسط 219,200 پاؤنڈ بنتی تھی۔ جس پر ٹیکس لاگو ہوتا تھا 76,720 پاؤنڈ۔ جبکہ لسٹ اے میچز پر اسے آمدن ہوئی تھی 38,800 پاؤنڈ کی اور اس پر ٹیکس لگا 13,500 پاؤنڈ۔ صرف ان ذرائع سے اس نے کل کمائے 167,700 پاؤنڈ جبکہ اس کے فلیٹ کی قیمت تھی 110,000 پاؤنڈ۔
ان بنیادی ذرائع آمدن کے سوا کانٹریکٹ فیس، کمرشل فیس، مین آف دی میچ، پرفارمنس فیس اس کے علاوہ تھے، جن کو اس نے پوری طرح ڈکلیئر بھی کیا بلکہ اسے یہ ملنے سے پہلے ہی برطانوی قانون کے مطابق ٹیکس کٹ چکا ہوتا تھا۔ اگر میں مزید تفصیل میں نا بھی جاؤں تو اب تک بتائے جانے والے ذرائع آمدن اس کے فلیٹ کو جائز ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پھر بھی مزید تفصیل پیش ہے۔
1976 سے 1979 کے دوران اس نے آسٹریلین کیری پیکر سیریز میں حصہ لیا اور وہاں کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق اس نے وہاں سے اضافی 210,000 آسٹریلین ڈالر کمائے۔ اگر آپ کو نہیں پتا تو کیری پیکر اس زمانے کی آئی پی ایل قسم کی چیز تھی۔ یہ تمام ریکارڈ ویب سائٹس پر موجود ہیں اور آسان زبان اور اردو میں پھر سے اس لئے پیش کئے جا رہے ہیں تا کہ قوم کو بتایا جا سکے کہ جب کسی شخص کے ذرائع آمدن جائز ہوں، کوئی حرام کا پیسہ نا ہو تو اس طرح آپ اپنی ایک ایک پائی کا حساب پیش کر سکتے ہیں۔
اب بات ہو جائے آف شور کمپنی کی۔ پہلی بات تو یہ کہ کوئی بھی کمپنی آف شور تب کہلاتی ہے جب آپ اسے اس ملک میں کھولیں جس ملک میں آپ نے پیسہ نا کمایا ہو۔ مثلا اگر کوئی بندہ برطانیہ میں پیسہ کما کے پاکستان میں کمپنی کھولے تو یہ آف شور کمپنی کہلائے گی۔ اسی طرح اگر آپ پاکستان سے پیسہ کما کے برطانیہ میں کمپنی کھولیں تو یہ آف شور کہلائے گی۔ برطانیہ میں غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے یہ قانون تھا کہ اگر آپ غیر ملکی ہیں اور کمپنی کھولتے ہیں خرید و فروخت کے لیے تو آپ کو ٹیکس نہیں دینا ہوتا۔ چونکہ عمران خان پہلے ہی پینتیس فیصد ٹیکس دے چکا تھا، اس لئے اس نے برطانوی حکومت کی اس سہولت سے فائدہ اٹھا کے اپنا فلیٹ خریدا۔ یوں اسے اضافی ٹیکس نہیں دینا پڑا۔ یہ سو فیصد قانونی عمل تھا بلکہ برطانوی حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرتی تھی اور وہ پیسہ بھی پاکستان سے نہیں لایا تھا۔ اس لئے تکنیکی اعتبار سے عمران خان کی کمپنی "آن شور" تھی "آف شور" نہیں۔ دوسری بات وہ پاکستان میں حکومت میں نہیں تھا تب کہ وہ اپنی حکومتی پوزیشن کا فائدہ اٹھا کر ناجائز ذرائع سے پیسے بیرون ملک منتقل کرتا۔
پھر بھی نون لیگ کی تسلی کے لئے ہم اسے آف شور کمپنی ہی فرض کر لیتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے قوانین میں آپ نے اپنے اثاثے دینے ہوتے ہیں چاہے وہ آپ کے نام پر ہوں یا آپ کی کمپنی کے نام پر۔ اور اس کمپنی کے نام پر واحد اثاثہ وہی ایک فلیٹ تھا جو عمران خان نے ڈکلیئر کیا اور کمپنی کا نام بھی کاغذات میں جمع کروایا گیا۔ اس کمپنی کی قیمت الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے کاغذات میں کل نو (9) پاؤنڈ تھی۔ جی ہاں آپ نے درست پڑھا نو پاؤنڈ۔ اور نواز شریف پر بھی اعتراض یہ نہیں ہے کہ اس نے آف شور کمپنیوں کے نام جمع نہیں کرائے بلکہ اعتراض یہ ہے کہ اس نے ان آف شور کمپنیوں کے اثاثہ جات ڈکلیئر نہیں کئے۔ اگر نواز شریف کمپنیوں کے نام دے بھی دیتا (جو اس نے نہیں دیئے) تو بھی اصل ذمہ داری ان کمپنیوں کے اثاثوں کی تفصیل ڈکلیئر کرنا تھی (وہ بھی اس نے نہیں کی)۔ تو یہ تھی مکمل تفصیل عمران خان کے ذرائع آمدن کی اور "آف شور" کمپنی کی۔ اب عوام سے سوال یہ ہے کہ کیا پوری نون لیگ میں بشمول نواز شریف کیا کوئی شریفوں کے اثاثوں کی تفصیل کوئی ایسے بیان کر سکتا ہے؟ اگر نہیں کر سکتا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا فیصلہ آپ کے ضمیر پر چھوڑا کیونکہ آپ نے اللہ کو جواب دینا ہے نواز شریف یا عمران خان کو نہیں۔ اور اگر آپ کا ضمیر مطمئن ہو تو پاکستان کی خاطر کم سے کم جو آپ کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ اسے جیسے مرضی شیئر کریں، کاپی پیسٹ کریں، کھلی اجازت ہے۔ پاکستان زندہ باد
Last edited by a moderator: