جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے انسانوں سے ملتی جلتی ایک نئی مخلوق کے ڈھانچے دریافت کیے ہیں۔ یہ دریافت ایک گہرے غار میں تدفین کرنے والے چیمبر سے کی گئی ہے۔
15 جزوی ڈھانچوں پر مشتمل یہ دریافت افریقہ میں اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے قدیم انسان کے بارے میں ہمارے خیالات تبدیل ہوجائیں گے۔
سائنسی جریدے ایلائف میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ یہ افراد مذہبی رجحانات کے حامل بھی تھے۔
اس نسل کو نالیڈی کا نام دی گیا ہے اور اسے حیاتیاتی گروہ ’ہومو‘ میں شامل کیا گیا ہے، جدید انسان کا تعلق بھی ایسی حیاتیاتی گروہ سے ہے۔
جن ماہرین نے یہ تحقیق کی ہے وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ مخلوق کتنا عرصہ زندہ رہی تاہم محققین کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر لی برگر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ یہ اپنی نوعیت (جینس ہومو) کے اول ترین ہیں اور یہ ممکن ہے کہ وہ افریقہ میں 30 لاکھ سال پہلے تک قیام پذیر رہے تھے۔
دیگر محققین کی طرح انھوں نے ’گمشدہ تعلق‘ کی اصطلاح کے استعمال سے گزیر کیا ہے۔ پروفیسر برگر کہتے ہیں کہ نالیڈی کو دو ٹانگوں پر چلنے والی ابتدائی مخلوق اور انسان کے درمیان ایک ’پل‘ خیال کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ہم ایک فوسل کی تلاش کے لیے اندر گئے تھے۔ وہاں کئی فوسل سامنے آئے۔ اور پھر یہ کئی ڈھانچوں اور کئی افراد کی دریافت کے طور پر سامنے آئے۔‘
پروفیسر برگر کے مطابق ’چنانچہ 21 دن کے بعد، ہم نے افریقہ کی تاریخ کی انسان سے ملتے جلتے فوسلز کی سب سے بڑی دریافت کر لی۔ یہ ایک غیرمعمولی تجربہ تھا۔‘
نیچرل ہسٹری میوزیم کے پروفیسر سٹرنگر کہتے ہیں کہ نالیڈی ’ایک انتہائی اہم دریافت ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں زیادہ سے زیادہ یہ شواہد مل رہے ہیں کہ قدرت انسانی ارتقا کے لیے تجربات کر رہی تھی، جس کے باعث مختلف قسم کی انسان سے ملتی جلتی مخلوقات افریقہ کے مختلف حصوں میں سامنے آئیں۔ صرف ایک قسم کی نسل بچی رہی جو بالآخر ہم تک پہنچی۔‘
میں ان ہڈیوں کو دیکھنے کے لیے گیا جو وٹواٹرزریبڈ یونیورسٹی کے ایک محفوظ کمرے میں رکھی گئی تھیں۔ اس کمرے کا دروازہ کسی بنک کی تجوری کی طرح مقفل تھا۔ پروفیسر برگر نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے مجھے بتایا کہ ابتدائی انسان کے بارے میں ہمارے علم کا انحصار ان جزوی ڈھانچوں اور کھوپڑی پر ہے۔
15 نامکمل ڈھانچوں میں مختلف عمروں کے مرد و خواتین کی باقیات شامل ہیں، جن میں شیرخوار بچوں سے بڑی عمر کے افراد شامل ہیں۔
افریقہ میں ہونے والی یہ دریافت بے مثال ہے اور یہ انسانی ارتقا کے بارے میں مزید رہنمائی فراہم کرے گی۔
پروفیسر برگر نے مجھے بتایا: ’ہم اس نسل کے بارے میں سب کچھ جان لیں گے۔‘
’ہم یہ جان لیں گے کہ کب بچوں کو دودھ چھڑایا گیا، وہ کب پیدا ہوئے، ان کی نشو و نما کیسے ہوئی، کس رفتار سے ان کی نشو و نما ہوئی، نشو و نما کی ہر سطح کے دوران نر اور مادہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے لے کر بچپن سے نوعمری تک وہ کیسے بڑھے اور ان کی موت کیسے ہوئی۔‘
میں محفوظ کی گئی ہڈیوں کو دیکھ کر حیرات زدہ رہ گیا کہ وہ کس قدر بہتر انداز میں محفوظ رکھی گئی تھیں۔ کھوپڑی، دانت اور پیر ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے وہ کسی بچے کے ہوں، اگرچہ وہ ڈھانچہ کسی بڑی عمر کی مادہ کا تھا۔
اس کا ہاتھ بھی انسانوں جیسا تھا، تاہم اس کی انگلیوں پر بل کسی بن مانس جیسے تھے۔
ہومو نالیڈی افریقہ سے ملنے والے کسی بھی ابتدائی انسان سے مماثلت نہیں رکھتے۔ ان کا دماغ چھوٹا ہے، کسی گوریلے کے دماغ کے برابر۔
تاہم انھیں انسانوں کے حیاتیاتی گروہ میں ہی شامل کیا گیا ہے ، ان کی کھوپڑی کی شکل، نسبتًا چھوٹے دانتوں، لمبی ٹانگوں اور جدید تر دکھائی دیتے ہوئے پیروں کی وجہ سے۔
پروفیسر برگر نے بتایا: ’میں نے دیکھا تو میں نے سوچا میں اپنے پورے کیریئر میں ایسا کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔‘
’یہ وہ لمحہ تھا جس نے 25 سال بطور پالیونتھروپولوجسٹ مجھے تیار نہیں کیا تھا۔‘
یہ ایک اہم سوال ہے کہ یہ باقیات وہاں تک کیسے پہنچیں۔
میں نے دریافت کے مقام کا دورہ کیا جسے ’رائیزنگ کیو‘ کہا جاتا ہے، اور یہ یونیورسٹی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ’انسانیت کی آغوش‘ نامی علاقے میں ہے۔ یہ غار ایک تنگ سرنگ تک جاتی ہے جس کے ذریعے پروفیسر برگر کی ٹیم کے کچھ ارکان رینگتے ہوئے اندر گئے۔ اس کام کے لیے نیشنل جیوگرافی سوسائٹی نے امدادی تعاون فراہم کیا تھا۔
اس کام کے لیے چھوٹی خواتین کا انتخاب کیا گیا کیونکہ سرنگ بہت تنگ تھی۔ وہ اندھیرے میں رینگتی گئیں اور انھیں صرف ہیلمٹ پر نصب ٹارچ کی روشنی میسر تھی۔ بالآخر 20 منٹ کی مسافت کے بعد وہ ایک چیمبر تک پہنچیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ہڈیاں موجود تھیں۔
انھیں میں مرینہ ایلیٹ بھی شامل تھیں۔ انھوں نے مجھے غار کا تنگ داخلی راستہ دکھایا اور بتایا کہ انھیں کیا محسوس ہوا جب انھوں نے پہلی بار چیمبر دیکھا۔
انھوں نے بتایا: ’جب میں پہلی بار کھدائی کی جگہ پہنچی تو مجھے ایسا لگا جیسا ہاورڈ کارٹر نے توت عنخ آمون کی مقبرے کو کھولنے پر محسوس کیا ہوگا۔ آپ ایک تنگ جگہ پر ہیں جو ایک کھلی جگہ پر کھلتی ہے اور اچانک آپ یہ تمام حیرت انگیز چیزیں دیکھتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین تھا۔‘
مرینہ ایلیٹ اور ان کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ انھوں نے تدفین کا ایک چیمبر دریافت کیا ہے۔ ہومو نالیڈی لوگوں میں بظاہر اپنے مردوں کو ایک گہرے غار میں دفن کرنے کا نظام تھا اور وہ انھیں اس چیمبر میں دفن کرتے تھے، ممکنہ طور پر کئی نسلوں سے۔
اگر ایسا ہی تھا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نالیڈیوں میں رسم و رواج کا رجحان موجود تھا اور ممکنہ طور پر علامتی خیالات بھی تھے، یہ پہلو ابھی تک گذشتہ دو لاکھ سال سے انسان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر برگر کہتے ہیں: ہمیں یہ گہری سوچ وبچار کرنا ہوگی کہ یہ کیسے انسان تھے۔ کیا ہم اس رجحان کے بارے میں غلط تھے کہ یہ صرف جدید انسان سے ہی منسلک ہے؟‘
’کیا ہم نے یہ رجحان قدیم وقتوں سے وراثت میں پایا ہے اور کیا یہ ابتدائی انسان ہمیشہ سے کرنے کے قابل تھے؟‘
پروفیسر برگر کا خیال ہے کہ اس مخلوق کی دریافت جدید اور ابتدائی انسان کا ملغوبہ ہے جس پر سائنسدانوں کو انسان کی تعریف پر دوبارہ غوروفکر کرنا چاہیے۔ وہ خود بھی نالیڈی کو انسان کہنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
دیگر محققین جیسا کہ پروفیسرسٹرنگر کا خیال ہے کہ نالیڈی کو ابتدائی انسان قرار دینا چاہیے۔ تاہم وہ اس امر پر یقین کرتے ہیں حالیہ نظریات کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت ہے اور ہم نے صرف انسانی ارتقا کی پیچیدہ اور بھرپور کہانی کی سطح کھرچی ہے۔
15 جزوی ڈھانچوں پر مشتمل یہ دریافت افریقہ میں اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ اس دریافت سے قدیم انسان کے بارے میں ہمارے خیالات تبدیل ہوجائیں گے۔
سائنسی جریدے ایلائف میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ یہ افراد مذہبی رجحانات کے حامل بھی تھے۔
اس نسل کو نالیڈی کا نام دی گیا ہے اور اسے حیاتیاتی گروہ ’ہومو‘ میں شامل کیا گیا ہے، جدید انسان کا تعلق بھی ایسی حیاتیاتی گروہ سے ہے۔
جن ماہرین نے یہ تحقیق کی ہے وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ مخلوق کتنا عرصہ زندہ رہی تاہم محققین کی ٹیم کے سربراہ پروفیسر لی برگر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ یہ اپنی نوعیت (جینس ہومو) کے اول ترین ہیں اور یہ ممکن ہے کہ وہ افریقہ میں 30 لاکھ سال پہلے تک قیام پذیر رہے تھے۔
دیگر محققین کی طرح انھوں نے ’گمشدہ تعلق‘ کی اصطلاح کے استعمال سے گزیر کیا ہے۔ پروفیسر برگر کہتے ہیں کہ نالیڈی کو دو ٹانگوں پر چلنے والی ابتدائی مخلوق اور انسان کے درمیان ایک ’پل‘ خیال کیا جا سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’ہم ایک فوسل کی تلاش کے لیے اندر گئے تھے۔ وہاں کئی فوسل سامنے آئے۔ اور پھر یہ کئی ڈھانچوں اور کئی افراد کی دریافت کے طور پر سامنے آئے۔‘
پروفیسر برگر کے مطابق ’چنانچہ 21 دن کے بعد، ہم نے افریقہ کی تاریخ کی انسان سے ملتے جلتے فوسلز کی سب سے بڑی دریافت کر لی۔ یہ ایک غیرمعمولی تجربہ تھا۔‘
نیچرل ہسٹری میوزیم کے پروفیسر سٹرنگر کہتے ہیں کہ نالیڈی ’ایک انتہائی اہم دریافت ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ہمیں زیادہ سے زیادہ یہ شواہد مل رہے ہیں کہ قدرت انسانی ارتقا کے لیے تجربات کر رہی تھی، جس کے باعث مختلف قسم کی انسان سے ملتی جلتی مخلوقات افریقہ کے مختلف حصوں میں سامنے آئیں۔ صرف ایک قسم کی نسل بچی رہی جو بالآخر ہم تک پہنچی۔‘
میں ان ہڈیوں کو دیکھنے کے لیے گیا جو وٹواٹرزریبڈ یونیورسٹی کے ایک محفوظ کمرے میں رکھی گئی تھیں۔ اس کمرے کا دروازہ کسی بنک کی تجوری کی طرح مقفل تھا۔ پروفیسر برگر نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے مجھے بتایا کہ ابتدائی انسان کے بارے میں ہمارے علم کا انحصار ان جزوی ڈھانچوں اور کھوپڑی پر ہے۔
15 نامکمل ڈھانچوں میں مختلف عمروں کے مرد و خواتین کی باقیات شامل ہیں، جن میں شیرخوار بچوں سے بڑی عمر کے افراد شامل ہیں۔
افریقہ میں ہونے والی یہ دریافت بے مثال ہے اور یہ انسانی ارتقا کے بارے میں مزید رہنمائی فراہم کرے گی۔
پروفیسر برگر نے مجھے بتایا: ’ہم اس نسل کے بارے میں سب کچھ جان لیں گے۔‘
’ہم یہ جان لیں گے کہ کب بچوں کو دودھ چھڑایا گیا، وہ کب پیدا ہوئے، ان کی نشو و نما کیسے ہوئی، کس رفتار سے ان کی نشو و نما ہوئی، نشو و نما کی ہر سطح کے دوران نر اور مادہ میں ہونے والی تبدیلیوں سے لے کر بچپن سے نوعمری تک وہ کیسے بڑھے اور ان کی موت کیسے ہوئی۔‘
میں محفوظ کی گئی ہڈیوں کو دیکھ کر حیرات زدہ رہ گیا کہ وہ کس قدر بہتر انداز میں محفوظ رکھی گئی تھیں۔ کھوپڑی، دانت اور پیر ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے وہ کسی بچے کے ہوں، اگرچہ وہ ڈھانچہ کسی بڑی عمر کی مادہ کا تھا۔
اس کا ہاتھ بھی انسانوں جیسا تھا، تاہم اس کی انگلیوں پر بل کسی بن مانس جیسے تھے۔
ہومو نالیڈی افریقہ سے ملنے والے کسی بھی ابتدائی انسان سے مماثلت نہیں رکھتے۔ ان کا دماغ چھوٹا ہے، کسی گوریلے کے دماغ کے برابر۔
تاہم انھیں انسانوں کے حیاتیاتی گروہ میں ہی شامل کیا گیا ہے ، ان کی کھوپڑی کی شکل، نسبتًا چھوٹے دانتوں، لمبی ٹانگوں اور جدید تر دکھائی دیتے ہوئے پیروں کی وجہ سے۔
پروفیسر برگر نے بتایا: ’میں نے دیکھا تو میں نے سوچا میں اپنے پورے کیریئر میں ایسا کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔‘
’یہ وہ لمحہ تھا جس نے 25 سال بطور پالیونتھروپولوجسٹ مجھے تیار نہیں کیا تھا۔‘
یہ ایک اہم سوال ہے کہ یہ باقیات وہاں تک کیسے پہنچیں۔
میں نے دریافت کے مقام کا دورہ کیا جسے ’رائیزنگ کیو‘ کہا جاتا ہے، اور یہ یونیورسٹی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ’انسانیت کی آغوش‘ نامی علاقے میں ہے۔ یہ غار ایک تنگ سرنگ تک جاتی ہے جس کے ذریعے پروفیسر برگر کی ٹیم کے کچھ ارکان رینگتے ہوئے اندر گئے۔ اس کام کے لیے نیشنل جیوگرافی سوسائٹی نے امدادی تعاون فراہم کیا تھا۔
اس کام کے لیے چھوٹی خواتین کا انتخاب کیا گیا کیونکہ سرنگ بہت تنگ تھی۔ وہ اندھیرے میں رینگتی گئیں اور انھیں صرف ہیلمٹ پر نصب ٹارچ کی روشنی میسر تھی۔ بالآخر 20 منٹ کی مسافت کے بعد وہ ایک چیمبر تک پہنچیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں ہڈیاں موجود تھیں۔
انھیں میں مرینہ ایلیٹ بھی شامل تھیں۔ انھوں نے مجھے غار کا تنگ داخلی راستہ دکھایا اور بتایا کہ انھیں کیا محسوس ہوا جب انھوں نے پہلی بار چیمبر دیکھا۔
انھوں نے بتایا: ’جب میں پہلی بار کھدائی کی جگہ پہنچی تو مجھے ایسا لگا جیسا ہاورڈ کارٹر نے توت عنخ آمون کی مقبرے کو کھولنے پر محسوس کیا ہوگا۔ آپ ایک تنگ جگہ پر ہیں جو ایک کھلی جگہ پر کھلتی ہے اور اچانک آپ یہ تمام حیرت انگیز چیزیں دیکھتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین تھا۔‘
مرینہ ایلیٹ اور ان کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ انھوں نے تدفین کا ایک چیمبر دریافت کیا ہے۔ ہومو نالیڈی لوگوں میں بظاہر اپنے مردوں کو ایک گہرے غار میں دفن کرنے کا نظام تھا اور وہ انھیں اس چیمبر میں دفن کرتے تھے، ممکنہ طور پر کئی نسلوں سے۔
اگر ایسا ہی تھا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نالیڈیوں میں رسم و رواج کا رجحان موجود تھا اور ممکنہ طور پر علامتی خیالات بھی تھے، یہ پہلو ابھی تک گذشتہ دو لاکھ سال سے انسان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر برگر کہتے ہیں: ہمیں یہ گہری سوچ وبچار کرنا ہوگی کہ یہ کیسے انسان تھے۔ کیا ہم اس رجحان کے بارے میں غلط تھے کہ یہ صرف جدید انسان سے ہی منسلک ہے؟‘
’کیا ہم نے یہ رجحان قدیم وقتوں سے وراثت میں پایا ہے اور کیا یہ ابتدائی انسان ہمیشہ سے کرنے کے قابل تھے؟‘
پروفیسر برگر کا خیال ہے کہ اس مخلوق کی دریافت جدید اور ابتدائی انسان کا ملغوبہ ہے جس پر سائنسدانوں کو انسان کی تعریف پر دوبارہ غوروفکر کرنا چاہیے۔ وہ خود بھی نالیڈی کو انسان کہنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
دیگر محققین جیسا کہ پروفیسرسٹرنگر کا خیال ہے کہ نالیڈی کو ابتدائی انسان قرار دینا چاہیے۔ تاہم وہ اس امر پر یقین کرتے ہیں حالیہ نظریات کو دوبارہ جانچنے کی ضرورت ہے اور ہم نے صرف انسانی ارتقا کی پیچیدہ اور بھرپور کہانی کی سطح کھرچی ہے۔