lol ... every one runs away when i present facts ,,, u r not exception .. here is ur religion of peace read it
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نابینا کی ام ولد باندی تھی جو نبی ا کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی یہ اس کو روکتا تھا مگر نہ رکتی تھی، یہ اس کو ڈانٹتا تھا مگر وہ نہ مانتی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ایک رات پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنی شروع کی تو اس نابینا نے ہتھیار(خنجر) لیا اور اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال کر دبا دیا اور مار ڈالا۔ جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ حضور اکے یہاں ذکر کیا گیا۔ آپ ا نے لوگوں کو جمع کیا پھر فرمایا: اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، جس نے کیا جو کچھ کیا، میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے تو نابینا کھڑا ہوگیا، لوگوں کو پھلانگتا ہوا ، اس حالت میں آگے بڑھا کہ وہ کانپ رہا تھا حتیٰ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ یا رسول ا میں ہوں اسے مارنے والا، یہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اور گستاخیاں کرتی تھی، میں اسے روکتا تھا وہ رکتی نہ تھی، میں دھمکاتا تھا وہ باز نہ آتی تھی اور اس سے میرے دو بچے ہیں جو موتیوں کی طرح ہیں وہ مجھ پر مہربان بھی تھی لیکن آج رات جب اس نے آپ کو گالیاں دینی اور برا بھلا کہنا شروع کیا تو میں نے خنجر لیا اس کے پیٹ پر رکھا اور زور لگا کر اسے مار ڈالا ۔ نبی پاک ا نے فرمایا : لوگو گواہ رہو !اس کا خون بے بدلا (بے سزا) ہے۔
(ابو داؤد ص۶، جمع الفوائد ص۲۸۴ بحوالہ ابو داؤد ، نسائی، کنزالعمال ج۷،ص۳۰۴)
”اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو ان کفر کے پیشواوئں کے ساتھ جنگ کرو۔“ (التوبہ، ۱۲)
حافظ ابنِ کثیر اس آیت کے ضمن میں واضح حکم لگاتے ہیں: ” جو آنحضرت اکی شان میں بدگوئی کرے ، کوئی طعن یا عیب لگائے ، وہ قتل کیا جائے گا“۔ (تفسیر ابنِ کثیر، ج۲، ص۳۷)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت نبی ا کو گالیاں دیتی اور برا کہتی تھی تو ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ،یہاں تک کہ وہ مر گئی تو رسول ا نے اس کے خون کو ناقابل ِ سزا قرار دے دیا۔ (ابو داؤد ص ۶۰ ، مطبع نور محمد)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کو خبر ملی کہ ایک مسجد کا منافق پیشِ امام ہر نماز میں سورة عبس پڑھتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا کہ سورہ عبس تو وہ سورة ہے کہ جس میں رسول ا کو تنبیہ کی گئی تھی ، یہ امام ہر نماز میں اہتمام سے کیوں پڑھتا ہے ۔ (سورة عبس کا شان ِ نزول یہ ہے کہ حضور اکرم احریص تھے کہ مکہ کے سردار بھی ایمان لے آئیں تو ابو جہل کی رکھی گئی شرط پر کہ ہم رئیسانِ مکہ کی الگ محفل رکھو تو ہم تمہاری بات سنیں گے، ان کو دعوت ِ دین دے رہے تھے۔ اتنے میں ابن مکتوم جو نابینا صحابی تھے محفل میں آگئے۔ حضور کو ناگوار گزرا کہ کہیں اس بات پر یہ لوگ اٹھ کر نہ چلے جائیں تو اللہ تعالیٰ نے سورة عبس کی آیات نازل کیں)۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اس منافق پیش امام کے گھر تشریف لے گئے۔اس امام کو گھر سے باہر بلوایا اور پوچھا کہ تم ہر نماز میں سورة عبس کیوں پڑھتے ہو؟ اس امام نے کہا ”بس مجھے پسند ہے“۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اسی وقت تلوار نیام سے نکالی اور اس کا سر قلم کردیا۔
(تفسیر روح البیان، ج ۱۰،ص۳۳۱، علامہ اسماعیل حقی )