کیا اس جنت کی تلاش ہے؟
میرے ایک دوست اور ممتاز ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے مجھے خوفزدہ کر دینے والی کہانی سنائی ، وہ اپنی گاڑی میں اسلام آباد کے ریڈ زون سے گزر رہے تھے پولیس چیک پوسٹ پر ایک سیکورٹی اہلکار نے ان کا خیر مقدم کرنے کے بعد پارلیمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جناب اگر ان فاسقوں کی حفاظت کرتے ہوئے میں ہلاک ہو جاﺅں تو کیا میں جنت میں جاﺅنگا؟ بظاہر وہ گھبرایا ہوا تھا اور اپنی ملازمت کے متعلق دو مختلف کیفیات کا شکار تھا۔ یہ صرف ایک پولیس اہلکار کی ذہنی حالت کی روداد تھی پولیس ، رینجرز اور چند دوسری سیکورٹی ایجنسیوں میں میرا ایسے بہت سے لوگوں سے سامنا ہوا ہے جو فرض شناسی اور جن سے ہمارا تحفظ کررہے ہیں ان کے درمیان تذبذب کا شکار ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ واضح طور پر دہشت گردوں کو ملک دشمن قرار نہیں دیتے اور اس کا الزام بعد میں آنے والی حکومتوں پر دھرتے ہیں۔ عدالتیں اور اعلیٰ حکام پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ان سے جس طرح کا سلوک کررہے ہیں کچھ اس سے ناخوش ہیں۔
یہ اب کوئی راز نہیں کہ ملک میں دو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ایک مکتب فکر کے حامل لوگ اسے اپنی جنگ تصور کرتے ہیں جبکہ دوسرے کا خیال ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ لوگوں کی رائے سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ عام شہریوں کی حیثیت سے ہماری زندگیاں سخت ابتری کا شکار ہیں ۔حکومت مخالف ،امریکہ مخالف بیانات جہاں رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں وہاں سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے فرائض کی بجا آوری میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں کیونکہ ان کے بھی وہی خدشات، خوف اور آبادیاتی پس منظر ہے وہ غیر ملکی نہیں اور نا ہی کسی دوسرے ملک سے انہیں درآمد کیا گیا ہے ۔ان کے رشتہ دار ہمارے درمیان بستے ہیں اور ان کے بھی یہ ہی خیالات ہیں .... جب عدالتیں انہیں عدم ثبوت کی بنا پر متنبہ کرتی ہیں اور ان کے اعلیٰ افسر انہیں صرف پروٹوکول ڈیوٹیز کے لئے مقرر کرتے ہیں تو وہ زیادہ اذیت ناک صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ میں اپنے ساتھی صحافیوں کو یاددہانی کرا رہا ہوں کہ ہم جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں.
Read the rest on Daily Pakistan Urdu Blogs

میرے ایک دوست اور ممتاز ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے مجھے خوفزدہ کر دینے والی کہانی سنائی ، وہ اپنی گاڑی میں اسلام آباد کے ریڈ زون سے گزر رہے تھے پولیس چیک پوسٹ پر ایک سیکورٹی اہلکار نے ان کا خیر مقدم کرنے کے بعد پارلیمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جناب اگر ان فاسقوں کی حفاظت کرتے ہوئے میں ہلاک ہو جاﺅں تو کیا میں جنت میں جاﺅنگا؟ بظاہر وہ گھبرایا ہوا تھا اور اپنی ملازمت کے متعلق دو مختلف کیفیات کا شکار تھا۔ یہ صرف ایک پولیس اہلکار کی ذہنی حالت کی روداد تھی پولیس ، رینجرز اور چند دوسری سیکورٹی ایجنسیوں میں میرا ایسے بہت سے لوگوں سے سامنا ہوا ہے جو فرض شناسی اور جن سے ہمارا تحفظ کررہے ہیں ان کے درمیان تذبذب کا شکار ہیں۔ جبکہ کچھ لوگ واضح طور پر دہشت گردوں کو ملک دشمن قرار نہیں دیتے اور اس کا الزام بعد میں آنے والی حکومتوں پر دھرتے ہیں۔ عدالتیں اور اعلیٰ حکام پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ان سے جس طرح کا سلوک کررہے ہیں کچھ اس سے ناخوش ہیں۔
یہ اب کوئی راز نہیں کہ ملک میں دو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ایک مکتب فکر کے حامل لوگ اسے اپنی جنگ تصور کرتے ہیں جبکہ دوسرے کا خیال ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے۔ لوگوں کی رائے سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ عام شہریوں کی حیثیت سے ہماری زندگیاں سخت ابتری کا شکار ہیں ۔حکومت مخالف ،امریکہ مخالف بیانات جہاں رائے عامہ کو متاثر کرتے ہیں وہاں سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کے فرائض کی بجا آوری میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں کیونکہ ان کے بھی وہی خدشات، خوف اور آبادیاتی پس منظر ہے وہ غیر ملکی نہیں اور نا ہی کسی دوسرے ملک سے انہیں درآمد کیا گیا ہے ۔ان کے رشتہ دار ہمارے درمیان بستے ہیں اور ان کے بھی یہ ہی خیالات ہیں .... جب عدالتیں انہیں عدم ثبوت کی بنا پر متنبہ کرتی ہیں اور ان کے اعلیٰ افسر انہیں صرف پروٹوکول ڈیوٹیز کے لئے مقرر کرتے ہیں تو وہ زیادہ اذیت ناک صورت حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ میں اپنے ساتھی صحافیوں کو یاددہانی کرا رہا ہوں کہ ہم جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں.
Read the rest on Daily Pakistan Urdu Blogs
Last edited: