Malik Riaz (Renowned BlackMiller) and CH Nisar Ali Khan

Khanji1

Councller (250+ posts)
کون جیتے گا؟؟
Published on 29. Jul, 2011
اسلام آباد (سپیشل رپورٹ): پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان اور پاکستان میں کے سب سے بڑے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے بادشاہ ریاض ملک کے درمیان کافی عرصے سے جاری ذاتی جنگ نے اُس وقت ایک نیا رنگ اختیار کر لیا جب راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسیوں نے مختلف مقامات پر چوہدری نثار علی خان کے خلاف ریاض ملک کی طرف سے لگوائے گئے بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگے ہوئے دیکھے جن میں اپوزیشن لیڈر کے خلاف چند سنگین ذاتی الزامات کے علاوہ ملک ریاض نے کچھ چیلنج بھی کئے ہوئے تھے۔
اگرچہ چوہدری نثار نے فوری طور پر اطلاع ملتے ہی اپنے خلاف لگنے والے ان بڑے بڑے اشتہاری بورڈوں کو پنڈی پولیس کی مدد سے گروا دیا لیکن گرنے سے پہلے ان اشتہاری بورڈوں پر لکھی ہوئی کہانیاں پورے شہر میں پھیل چکی تھیں۔ اور تو اور کیمرے کی آنکھ بھی اُن اشتہاروں کو محفوظ کر چکی تھی جنہیں پڑھ کر یقیناًچوہدری نثار علی خان جیسے بندے کو جو اپنی ذات کے بارے میں لکھا یا بولا ہوا ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتے کئی راتوں تک نیند نہیں آئی ہو گی۔
آج تک پنڈی اور اسلام آباد والوں کو چوہدری نثار اور ریاض ملک کے درمیان جاری اس ذاتی لڑائی کی اندرونی وجوہات کی پتا نہیں چل سکا۔ یہ بات بہت سے تجزیہ نگاروں کے لئے سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاض ملک نے اس ملک کے فوجی جرنیلوں، صحافیوں، صدر آصف علی زرداری، نوازشریف، چوہدری پرویزالٰہی اور رحمن ملک تک تمام بااثر لوگوں کو اپنی جیبوں میں ڈالا ہوا تھا لیکن آخر وہ کیا بات تھی کہ اتنی ساری دولت، اثرورسوخ اور اس ملک پر حکمرانی کرنے والے تمام طبقات کے ساتھ دوستی کے باوجود وہ چوہدری نثار علی خان کو اپنی مخالفت کرنے سے باز نہیں رکھ سکے تھے۔ یہ بات سب مانیں گے کہ ریاض ملک نے یقیناًچوہدری نثار کو دوست بنانے کے لئے پورا زور لگایا ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ چوہدری نثار اُن کے اُس طرح دوست کیوں نہیں بنے جیسے اُن کے اپنے لیڈر نوازشریف ریاض ملک کے بنے ہوئے ہیں۔
یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ ایک طرف ریاض ملک اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اتنی بڑی ذاتی لڑائی چل رہی ہے اور دوسری طرف جب آصف علی زرداری اور نوازشریف میں اقتدار شیئر کرنے کا فارمولا 2008ء کے انتخابات کے بعد طے ہو رہا تھا تو اُن دونوں کے درمیان ضامن کا کردار ادا کرنے والے اور کوئی نہیں ریاض ملک ہی تھے۔ جب نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان مذاکرات مکمل ہو گئے تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ اب ان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کا ضامن کون ہو گا تو وہاں بیٹھے ریاض ملک ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اُٹھ کر قرآن پاک شلف سے نکالا اور اُن دونوں کے درمیان رکھ دیا تاکہ آصف علی زرداری اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ اُنہوں نے جو باتیں طے کی تھیں وہ اُن پر قائم رہیں گے۔ تاہم نوازشریف نے آصف زرداری سے قرآن پر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ ریاض ملک پاکستان کے بڑے سیاستدانوں کے درمیان اس طرح کے مذاکرات کر کے اپنے آپ کو ایک بادشاہ گر کے روپ میں پیش کر رہے تھے۔ ریاض ملک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر اُس شخص کو خریدنے یا خوش رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اُن کے خیال میں اِس ملک میں کسی نہ کسی حوالے سے اہم ہے اور سب سے بڑھ کر وہ شخص چاہے جنرل ہو، جج ہو، صحافی ہو، سیاستدان ہو یا کوئی بیوروکریٹ جو اُنہیں فائدہ یا نقصان دے سکے۔
ریاض ملک نے جب پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا تو اسے یہ بات پہلے دن سے سمجھ آگئی تھی کہ اس ملک میں آگے بڑھنا اُس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک فوجی آپ کے ساتھ نہ ہوں اور یوں انہوں نے فوجیوں سے مل کر بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ بنایا اور آرمی کی ساکھ استعمال کرتے ہوئے راتوں رات کروڑوں کمائے۔ آرمی کے بعد انہیں سرکاری زمینیں اور پرائیویٹ لوگوں سے زمینیں خریدنے یا اُن پر قبضہ کرنے کے لئے سیاستدانوں کی ضرورت پڑی اور یوں وہ دھیرے دھیرے سیاستدانوں کے قریب ہوتے گئے۔ جنرل مشرف کا دور اُن کے لئے زیادہ خوش نصیبی لے کر آیا جب چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور دونوں نے مل کر راولپنڈی اور اسلام آباد میں زمینوں کے کئی سودے کئے۔پرویز الٰہی کی پوری سرکاری مشینری ریاض ملک کے ہاتھ پر ناچتی تھی وہ جس زمین کے ٹکڑے پر ہاتھ رکھ دیتے اُس کے بعد یہ اُس علاقے کے ایس ایچ او اور اسسٹنٹ کمشنر کا درد سر ہوتا کہ اُس نے اُس زمین کے مالکوں کو پیسے یا دھونس سے کیسے راضی کرنا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو اس صلے میں ریاض ملک نے بھارہ کہو کے قریب انتہائی قیمتی زمین اپنے نام سے اُن کے نام پر ٹرانسفر کرائی ۔

ثبوت کے لیے ڈان نیوز کے پروگرام رپورٹر کا یہ کلپ دیکھیں
یہ وہ دستاویزی ثبوت ہے جو کہ سامنے آیا تھا۔ اس کے علاوہ اندرون کھاتے چوہدری پرویزالٰہی اور اس کے خاندان کو ریاض ملک نے کیا کچھ دیا یا لیا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔
جب اسلام آباد اور راولپنڈی کے صحافیوں کے لئے بحریہ ٹاؤن کے قریب ایک جگہ تلاش کی گئی تو پتا چلا کہ ریاض ملک پہلے ہی اُس پر آنکھیں جمائے بیٹھے تھے۔ یہ ہمت اور حوصلہ اسلام آباد پریس کلب کے صدر مشتاق منہاس کا ہی تھا کہ اس نے کس طریقے سے ریاض ملک کی ان کوششوں کو کتنی مشکلوں کے بعد ناکام بنایا اور وہ جگہ رہائش کے لئے پیسے دے کر حکومت پنجاب سے لی۔ آج تک ریاض ملک اس زخم کو بھولے نہیں ہیں کہ کئی ایکڑ پر محیط وہ زمین اُن کے ہاتھ سے نکل گئی تھی جسے وہ اربوں میں بیچ سکتے تھے۔
ریاض ملک کو 2007ء میں پتا چل گیا تھا کہ اب جنرل مشرف کا چل چلاؤ تھا اور آنے والا دور نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کا تھا لہٰذا انہوں نے اپنی جیبوں کا رُخ ان دونوں لیڈروں کی طرف کر دیا۔ بے نظیر اور نوازشریف کو بھی ہمیشہ سے ایسی مالدار پارٹیوں کی ضرورت تھی جو اُن کے پاکستان واپسی پر انتخابات کے اخراجات اور دیگر معاملات پر کھل کر مال خرچ کر سکیں۔ پہلے مرحلے میں بے نظیر بھٹو سے رابطہ ہوا اور ریاض ملک نے دو بلٹ پروف گاڑیاں انہیں پاکستان میں اپنی انتخابی مہم کے لئے عطیے کے طور پر دیں جو محترمہ نے بڑے شکریے کے ساتھ قبول کیں۔ جس گاڑی میں بے نظیر پر حملہ ہوا اور وہ ماری گئیں، وہ ریاض ملک کی عطا کی ہوئی تھی۔
ریاض ملک نے رحمن ملک کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں کچھ گھر کرائے پر بھی لینے کی کوشش کی تھی جن کا کرایہ ڈالروں میں ادا ہونا تھا اور اس کی ادائیگی بھی ریاض ملک کے ذمے تھی۔ یوں پیپلزپارٹی سے مطمئن ہونے کے بعد ریاض ملک نے نوازشریف کیمپ کا رُخ کیا اور وہاں بھی پیسہ پانی کی طرح بہانا شروع کیا اور ایک دن وہ رائیونڈ کے محلوں میں رہنے والوں کے اتنے قریب ہو گئے کہ نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں قرآن کو ہاتھوں میں لئے ضامن کے طور پر وہاں موجود شخص ریاض ملک ہی تھے۔
ریاض ملک نے اس پر بس نہیں کی اور جب کئی مواقعوں پر نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان شدید اختلافات ہوئے اور معاملات بہت بگڑ گئے تو وہ دونوں کے درمیان پیغام رساں کا بھی کردار ادا کرتے رہے۔
ریاض ملک پر کئی قتل کے مقدمے بنے۔ غریب اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے کے الزامات لگے۔ اور تو اور پچھلے سال ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی کے دفتر کے باہر ملک ریاض اور ایک اور پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے ملک باری کے درمیان ایک مسلح تصادم ہوا۔ دونوں کے گارڈز نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی جس میں ایک مارا گیا اور ایک ڈی ایس پی زخمی ہوا۔ پولیس موقع سے بھاگ گئی۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ ملک ریاض یا ملک باری پر ہاتھ ڈالتا۔ اُسی رات اسلام آباد کے آئی جی کلیم امام اپنے ایس پی طاہر عالم کو بتائے بغیر رحمن ملک کے گھر لے گئے جہاں پہلے سے ریاض ملک موجود تھا۔ طاہر عالم اس بات پر غصے میں تھے کہ اُس کے گارڈز نے ایک ڈی ایس پی کو گولی ماری تھی۔ رحمن ملک اور کلیم امام نے مل کر طاہر عالم کو سمجھایا اورجب انہوں نے اپنے وزیرداخلہ اور اپنے آئی جی کو ریاض ملک کی موجودگی میں اُلٹا اُسے سمجھاتے پایا تو اس افسر نے بھی اپنا سر جھکا دیا۔ بات سپریم کورٹ تک بھی گئی۔ ایک دن کے لئے نوٹس بھی جاری ہوا اور پھر سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ بھول جاتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور ایس ایس پی کے دفتر کے باہر ان پراپرٹی ڈیلروں کے گارڈز کے کیسے ایک دوسرے کے بندے قتل کئے اور جاتے ہوئے ایک ڈی ایس پی کو گولی مارگئے تھے۔
یہ وہ اعتماد اور غرور تھا کہ کوئی بھی ریاض ملک سے سوال یا احتساب کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا لہٰذا اُس کے بیٹے نے بحریہ ٹاؤن میں بغیر کسی کی اجازت اور نا مناسب جگہ پر کار ریس کرا ڈالی۔ ایک کار بے قابو ہو کر سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں پر چڑھ گئی جس میں ایک باپ اور اس کے بیٹے سمیت پانچ بندے مارے گئے۔ بات پھر سپریم کورٹ تک گئی۔ ریاض ملک کے بیٹے کو رحمن ملک نے باہر بھجوا دیا اور پیچھے سے مرنے والوں کے خاندانوں کو چند لاکھ روپے دے کر خرید لیا گیا اور یوں بات وہیں ختم ہو گئی۔
اب اس تناظر میں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آخر چوہدری نثار اور ملک ریاض کے درمیان لڑائی کیوں چلتی جا رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا پتھر چوہدری نثار علی خان نے ہی ریاض ملک پر پھینکا جب انہوں نے دو سال قبل قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ریاض ملک کو آصف علی زرداری کے ’’چماٹ‘‘ کا لقب دیا جس سے پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کیا کہانی تھی کہ چوہدری نثار کے قائدین نوازشریف اور شہبازشریف تو ریاض ملک کے واری صدقے جا رہے تھے اور اسے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ضامن کے طور پر بھی قبول کر رہے تھے تو پھر بھلا چوہدری نثار ریاض ملک سے کیوں ناراض تھے۔ کیا ریاض ملک چوہدری نثار کے لئے وہ خدمات سرانجام نہیں دے رہے تھے جو وہ اُن کے لیڈروں شہبازشریف اور نوازشریف کے لئے دیتے چلے آئے تھے۔
چوہدری نثار کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنا تکبر اور غرور خدا نے اُن کے اندر ڈالا ہے اور جس طرح عام آدمی سے وہ حقارت اور نفرت سے پیش آتے ہیں وہ شاید اور کسی انسان میں نہ ہو۔ یہ سب جانتے ہیں کہ وہ کسی سے ہاتھ بھی ملا لیں تو اُس کے بعد وہ اپنے ہاتھ ضرور دھوتے ہیں۔ پہلے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ہاتھ ہی پورا نہ دیا جائے اور اگر دے بھی دیا جائے تو پھر اُسے دھونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے ہمیشہ فوج کے ساتھ نوازشریف کی دونوں دفعہ اقتدار میں لڑائی کروائی اس کی وجہ یہ تھی کہ چوہدری نثار کے اپنے بھائی جنرل افتخار علی خان بھی آرمی میں تھے اور اُن کے والد فتح علی خان بھی انگریزوں کی فوج میں شامل تھے۔ فوجی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے چوہدری نثار ہمیشہ فوج کے ساتھ معاملات خود طے کرتے تھے اور نوازشریف کے ہاتھ میں ایک چِٹ تھما دی جاتی تھی کہ فلاں کو آرمی چیف بنانا تھا اور فلاں کو ہٹانا تھا۔ فلاں بندہ اپنا تھا اور فلاں فوجی آفیسر کو ریٹائر کرنا تھا۔ اس پسند ناپسند کا یہ نقصان ہوا کہ فوج میں بھی یہ تاثر گہرا ہوتا چلا گیا کہ جس نے ترقی کرانا تھی وہ چوہدری نثار علی کے گھر کا طواف کرے۔ جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل علی قلی خان سے بھی تعلقات خراب کرانے میں بڑا کردار چوہدری نثار علی خان کا تھا۔ اُن کے بڑے بھائی جنرل افتخار علی خان چیف آف سٹاف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ چوہدری نثار چاہتے تھے کہ ان کو نوازشریف ایکسٹینشن دے دیں اور اگر ممکن ہو تو اس سے پہلے وہ آرمی چیف بن جائیں۔ جنرل جہانگیر کرامت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا لہٰذا کرامت نے جنرل افتخار کی جگہ جنرل علی قلی کو ترقی دے کر نوازشریف کو فائل بھیجی کہ وہ ان کا نوٹیفکیشن کر دیں اور افتخار کو ریٹائر کر دیں۔ چوہدری نثار علی خان نے وہ فائل وزیراعظم ہاؤس میں رکوا دی اور اس کوششوں میں لگ گئے کہ وہ نوازشریف کو قائل کرکے اپنے بھائی کو مدت ملازمت میں توسیع دے دیں۔
جب جہانگیر کرامت کو اس کا پتا چلا تو انہوں نے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی رانا نسیم کو ایک سخت پیغام دے کر نوازشریف کے پاس بھیجا کہ وہ یہ فائل کلیئر کریں اور جنرل افتخار کو ہٹا کر جنرل علی قلی کو لگائیں۔ نوازشریف نے وہ فائل کلیئر کر کے ڈی جی آئی ایس آئی رانا نسیم کو دے دی جس سے دونوں بھائی چوہدری نثار علی خان اور افتخار علی خان بڑے ڈسٹرب ہوئے اور یہیں سے چوہدری نثار کے دل میں علی قلی کے خلاف بغض بیٹھ گیا۔ جب جہانگیر کرامت نے نوازشریف کو اپنا استعفیٰ پیش کیا اور نئے آرمی چیف کی تلاش شروع ہوئی تو یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے، جنرل مشرف جن کے ساتھ ان کی عیاشی کی داستانیں مشہور تھیں، نوازشریف کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ انہیں نیا آرمی چیف بنائیں۔ چوہدری نثار نے جنرل مشرف کی خفیہ ملاقات نوازشریف سے کرائی اور جنرل مشرف نے بغیر جہانگیر کرامت کو بتائے یہ ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ساتھی انور زاہد نے بھی جنرل علی قلی کو نوازشریف سے خفیہ ملاقات کرنے کے لئے کہا جو اُس وقت آرمی چیف بننے کے اصل حق دار تھے۔ جنرل قلی نے انکار کر دیا کہ وہ یہ کام نہیں کریں گے لیکن مشرف نے نثار کے ساتھ مل کر نوازشریف سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور فیصلہ ہوا کہ ایک اردو سپیکنگ جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے گا جس کی فوج اور سیاستدانوں میں کوئی لابی نہیں تھی۔
جنرل علی قلی پر الزام لگا کہ وہ اُس وقت کے وزیرخارجہ گوہر ایوب کے برادر نسبتی تھے لہٰذا کل کلاں کو وہ پاکستان میں مارشل لاء لگا سکتے تھے۔ یہ علیحدہ کہانی ہے کہ گوہرایوب بھی جنرل علی قلی کو آرمی چیف بنتا نہیں دیکھ سکتے تھے جیسے اُن کے باپ جنرل ایوب خان نے علی قلی کے باپ جنرل حبیب اللہ کو آرمی چیف نہیں بنایا تھا اور ان کی جگہ جنرل موسیٰ کو کمانڈ دی تھی۔ یوں جنرل علی قلی اور گوہرایوب کے خاندان میں برسوں کی جاری یہ اندرونی لڑائی 1998ء تک جاری رہی جب گوہرایوب نے جنرل قلی کو آرمی چیف بنانے کیلئے لابنگ نہیں کی جیسے کہ چوہدری نثار اپنے بھائی کے ریٹائر ہونے کے بعد جنرل مشرف کیلئے کر رہے تھے۔
چوہدری نثار کا کردار اُس وقت مشکوک ہوا جب 12 اکتوبر کا مارشل لاء لگا اور نوازشریف نے نثار کو بتائے بغیر اُس کے لگوائے ہوئے آرمی چیف کو برطرف کر دیا۔ چوہدری نثار پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوئیں جب کلثوم نواز نے یہ پوچھنا شروع کیا کہ بھلا آخر اس کے پیچھے کیا راز تھا کہ نوازشریف،شہباز شریف، خواجہ آصف، اسحاق ڈار اور پارٹی کے دیگر ٹاپ لیڈرز تو جیلوں میں پڑے ہوئے تھے جبکہ چوہدری نثار کو ان کے فیض آباد میں واقع خوبصورت گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اُن برسوں میں چوہدری نثار اپنے گھر پر سوتے رہے جب نوازشریف اور شہبازشریف اٹک جیل میں قید تنہائی بھگت رہے تھے اور کلثوم نواز کی گاڑی تہمینہ دولتانہ کے ساتھ لاہور میں ایک لفٹر کے ذریعے اٹھا کر تماشا بنائی جا رہی تھی۔
اسی اثناء میں چوہدری نثار علی کی والدہ نے جو اس وقت زندہ تھیں جنرل مشرف کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ان سے درخواست کی تھی کہ ان کے بیٹے کو معاف کر کے رہا کیا جائے اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لہٰذا علاج کی بھی اجازت دی جائے۔ مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس خط میں ان کی والدہ نے اپنی طرف سے لکھا کہ چوہدری نثار رہائی کے بعد سیاست چھوڑ دیں گے۔
یہ خط اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک دن کیپٹل ٹاک میں حامد میر نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ایم ایل کیو کی حکومت میں وزیر بننے والی ایم این اے شہنازشیخ کو اپنے پروگرام میں بلایا اور ساتھ میں انہوں نے چوہدری نثار کو بھی بلا لیا۔ چوہدری نثار ان دنوں جنرل مشرف کے خلاف بڑی سخت تقریریں قومی اسمبلی میں کر رہے تھے۔ چوہدری نثار کو یہ پتا نہیں تھا کہ شہنازشیخ کو خصوصی طور پر یہ خط جیو ٹی وی پر دکھانے کے لئے اس پروگرام میں بھیجا گیا تھا۔ اس لئے جونہی چوہدری نثار نے حسب عادت جنرل مشرف پر طعن و تشنیع شروع کی تو ایک مرحلے پر شہنازشیخ نے چوہدری نثار علی کی والدہ کا جنرل مشرف کو اپنے بیٹے کی معافی کے لئے لکھے گئے خط کا ذکر کیا تو چوہدری نثار کا رنگ اُڑ گیا۔ چوہدری نثار سمجھ گئے کہ انہیں اس پروگرام میں ذلیل کرنے کیلئے فریم کیا گیاتھا۔ انہوں نے اس واقعے کے بعد نہ صرف حامد میر سے تعلقات ختم کئے بلکہ یہ فیصلہ بھی کیا کہ آئندہ وہ کسی ٹی وی اینکر کے سٹوڈیو میں جاکر دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ شو میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ کوئی پتا نہیں کہ کون ان کے منہ پر کونسی بات کہہ دے یا ان کی والدہ کے خط کی کاپی نکال کر ان کے سامنے رکھ دے۔
حامد میر اور چوہدری نثار کے درمیاں بڑے عرصہ تک ناراضگی رہی اور بول چال بھی بند رہی۔ آخر کچھ مشترکہ دوستوں نے حامدمیر اور چوہدری نثار کی صلح کرائی اور میر صاحب نے بھی ناراضگی ختم کرنے کیلئے دو تین دفعہ اپنے کالموں میں چوہدری نثار کا بڑے اچھے طریقے سے ذکر کیا۔
ان تمام باتوں سے کلثوم نواز نے نوازشریف کو آگاہ کیا کہ کیسے چوہدری نثار کو جنرل مشرف نے گھر پر قید کیا ہوا تھا جبکہ وہ لوگ جیلوں میں سڑ رہے تھے۔ نوازشریف کو تو نثار اور مشرف کی دوستی کا علم تھا لہذٰا ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ چوہدری نثار نے ہی ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اور اگر وہ اس وقت نثار کی باتوں میں آکر مشرف کو آرمی چیف نہ بناتے تو شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یوں دونوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں اور بات یہاں تک پہنچی کہ چوہدری نثار نے اپنی فیملی فرینڈ اور بے نظیر بھٹو کی قریبی دوست آمنہ پراچہ کے ذریعے پیپلزپارٹی جوائن کرنے کے لئے رابطے شروع کئے۔ جب چوہدری نثار رہا ہوئے تو انہوں نے سب کا شکریہ ادا کیا ماسوائے نوازشریف کا جس پر نوازشریف مزید ناراض ہوئے اور جدہ سے فون کیا کہ انہوں نے ان کا نام کیوں نہیں لیا تھا جس پر نثار نے انہیں جواب دیا کہ میاں صاحب آپ نے مجھے رہائی پر مبارکباد بھی تو نہیں دی تھی۔ شہبازشریف کو پتا چلا کہ چوہدری نثار بے نظیر بھٹو سے رابطے میں تھے تو انہوں نے پرانی دوستی کا حوالہ دے کر چوہدری نثار کو جدہ بلوایا اور میاں صاحب سے گلے شکووں کے بعد دوبارہ دوستی ہو گئی۔
2008ء کے انتخابات کے بعد چوہدری نثار نے پھر اپنا پرانا کھیل کھیلنا شروع کیا جس کی وجہ سے نوازشریف کی حکومت ٹوٹی تھی انہوں نے شہبازشریف کو اپنے ساتھ ملایا جو اس کام کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں شہبازشریف اور چوہدری نثار نے کالے برقعے اوڑھے اور جی ایچ کیو میں جا کر جنرل کیانی سے خفیہ مذاکرات شروع کئے تاکہ فوج اور پی ایم ایل نواز کے درمیان دوریاں ختم ہوں اور پیپلزپارٹی کو ہٹا کر پی ایم ایل کیو کو نوازشریف کے ساتھ ملا کر ان کی پارٹی کا وزیراعظم بنایا جائے۔ کیونکہ نوازشریف پر ابھی جنرل مشرف کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی وجہ سے دس سال تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی تھی اور یہ پابندی دسمبر 2010ء میں ختم ہونی تھی اور ابھی اس میں دو سال پڑے تھے لہٰذا نثار نے یہ کوشش شروع کر دی کہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی ان کو سپورٹ کریں تو وہ نوازشریف سے پابندی ہٹنے تک اس ملک کے نئے وزیراعظم بن سکتے تھے۔ آرمی کے ساتھ ان چھ ملاقاتوں کی خبر آخر کار ایک ٹی وی چینل پر چل گئی جس سے ایک ہنگامہ مچ گیا کہ شہبازشریف اور چوہدری نثار کیسے کالے برقعے پہن کر فوجیوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے حالانکہ جلاوطنی کے دنوں میں انہوں نے قسمیں قرآن کھائے تھے کہ وہ کبھی فوج کے ساتھ مل کے کبھی سیاست کریں گے اور نہ سیاسی حکومت کو ہٹانے کے لئے کوئی سازش کریں گے۔
جب اس خبر کے بارے میں نوازشریف سے پوچھا گیا کہ بھلا کیونکر چوہدری نثار اور شہبازشریف کالے برقعے پہن کر جی ایچ کیو رات کو جنرل کیانی سے ملنے جاتے تھے تو انہوں نے بڑی نے بڑے معصومانہ انداز میں یہ بہانہ بنایا کہ انہیں ان ملاقاتوں کا علم نہیں تھا اور صحافیوں کی طرح انہیں بھی اس خبر کا پتا ٹی وی سے چلا تھا۔ یہ گولی جو نوازشریف نے صحافیوں کو دی اور سب نے چپ کر کے چبالی یہ سوچ کر کہ شاید چوہدری نثار اور شہبازشریف نوازشریف سے زیادہ طاقتور ہو گئے تھے اور فوجی جرنیلوں سے رات کو ملنے کیلئے نوازشریف کو اس بارے میں بتانا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اگر یہ بات واقعی سچ تھی تو نوازشریف کو بتائے بغیر یہ ملاقاتیں کی گئی تھیں تو پھر نوازشریف کو چاہیے تھا یا تو وہ پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دے دیتے کہ اب ان کے بھائی اور ان کی پارٹی کا پارلیمانی لیڈر ان سے پوچھے بغیر اتنے بڑے بڑے کام کر رہے تھے لہٰٰذا پارٹی چلانے کا حق انہیں نہیں تھا۔ یا پھر چوہدری نثار اور شہباز کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر اپنی پارٹی سے نکال دیتے۔ نوازشریف نے دونوں کام نہ کر کے یہ واضح کیا کہ چوہدری نثار اور شہباز کی ملاقاتیں ان کی مرضی اور اجازت سے ہوئی تھیں اور اب وہ صحافیوں کو بیوقوف بنا رہے تھے جو آگے سے بننے کیلئے تیار بیٹھے تھے۔
نثار کو ریاض ملک اس وقت زیادہ آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہوا جب انہوں نے قومی اسمبلی میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کے خلاف سخت تقریریں شروع کیں۔ کچھ دنوں بعد چوہدری نثار کو پتا چلا کہ ریاض ملک ان کے حلقے میں نہ صرف نئے ووٹ رجسٹرڈ کرا چکے تھے بلکہ بوگس ووٹ بھی خارج کرائے جا رہے تھے۔ نثار کے کان کھڑے ہوئے اور انہیں شک گزرا کہ ان کی سیاسی بادشاہت خطرے میں تھی کیونکہ اس سے یوں لگ رہا تھا کہ ملک ریاض اگلا الیکشن ان کے مقابلے میں ان کے حلقے سے لڑنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔نثار کا خیال تھا کہ ملک ریاض کے پیچھے اور کوئی نہیں آئی ایس آئی کے لوگ تھے جو اس کی تقریروں کا اس کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔ اسی طرح ملک ریاض اور پنڈی کے کھوکھروں کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ سے بھی چوہدری نثار نے اپنا پلڑا کھوکھروں کے ہاتھ میں ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے ریاض ملک اور ان کے درمیان ایک مستقل دشمنی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔
ریاض ملک کے پاس چوہدری نثار سے بدلہ لینے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ انہیں اگلے الیکشن میں ان کے حلقوں سے نہ جیتنے دیں۔ اس کام کیلئے انہیں یقیناًپاکستان کے طاقتور حلقوں کی نظر نہ آنے والی حمایت بھی حاصل ہے۔ نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھولنے کا ہنر وہ خوب جانتے ہیں اور وہ کسی صورت اگلے الیکشن میں چوہدری نثار کو دوبارہ قومی اسمبلی نہیں جانے دیں گے اور ان کی سیاست ختم کرنے کے لئے ریاض ملک کو پیپلزپارٹی کی بھی پوری حمایت حاصل ہو گی خصوصاً آصف علی زرداری جو چوہدری نثار سے اسی طرح نفرت کرتے ہیں جیسے چوہدری نثار ان سے۔
چوہدری نثار کی چوہدراہٹ کو پہلا جھٹکا دینے کیلئے ریاض ملک نے راولپنڈی اسلام آباد کی شاہراہوں پر وہ بڑے بڑے اشتہارات لگوائے اور کھل کر چوہدری پر ذاتی حملے بھی کئے اور چیلنج کیا کہ وہ ان کا جواب دیں۔ ڈی ایچ اے کے پلاٹوں کی کہانی کے علاوہ سب سے بڑا حملہ نثار پر یہ کیا گیا کہ وہ اس خط کے بارے میں بتائیں جو ان کی والدہ نے جنرل مشرف کو لکھا تھا۔ ڈی ایچ اے اسلام آباد پلاٹ کی کہانی اس لئے بھی لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکی کیونکہ پچھلے دو سال سے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اسلام آباد کے قیام کا بل قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس پڑا ہے اور پاکستان مسلم لیگ نواز اسے پاس نہیں ہونے دے رہی۔ چوہدری نثار سب سے پیش پیش ہیں اور اب تک ڈی ایچ اے کے خلاف کئی دھواں دار تقریریں بھی کر چکے ہیں اور اس بات کی قسم کھا چکے ہیں کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ فوجی افسران لوگوں اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے کاروبار کے ذریعے اربوں روپے کما رہے تھے۔
چوہدری نثار کو شاید ڈی ایچ اے بل پر اعتراض نہ ہوتا لیکن انہیں اس بات کا پتا ہے کہ ڈی ایچ اے کے پیچھے ریاض ملک ہے جس نے ان کے ساتھ معاہدے کر کے اربوں روپے کمانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ اس لئے کہ اب ڈی ایچ اے کا بل پاس نہیں ہوتا اور چوہدری نثار علی خان کے خیال میں اس کا سب سے بڑا نقصان ریاض ملک کو ہو گا۔ اس بیک گراؤنڈ میں ریاض ملک نے چوہدری نثار کے خلاف دو اشتہاری بورڈ لگوائے اگر وہ ڈی ایچ اے کے اتنے خلاف تھے تو انہوں نے وہاں دو پلاٹ کیوں لئے ہوئے تھے جن کی ادائیگی کرنا بھی ابھی باقی تھی۔
چوہدری نثار پر یہ بھی الزام لگتا ہے کہ اگرچہ وہ اپنی ایمانداری کا ڈھنگ تو پیٹتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے راولپنڈی میں تمام پٹواریوں کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے ان کی مرضی کے بغیر کوئی پٹواری یا تھانے دار تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ان کے ایک لاڈلے پپو پٹواری کی کہانیاں تو پورے پنڈی میں مشہور ہیں۔ پپو پٹواری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چوہدری نثار کا فرنٹ مین ہے اور ان کے انتخابات کے اخراجات وہ برداشت کرتے آئے ہیں۔ پپو پٹواری تو اتنا طاقتور ہے کہ اس نے میبنہ طور پر ایک عورت اور اس کے بچوں کو ان کے گھر کے سامنے اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے ذریعے گولیاں مروا دیں اور انہیں اپنے گھر میں انہیں پناہ دے دی۔ پولیس نے چھاپہ مارنے کا پروگرام بنایا تو پپو پٹواری نے ایس ایچ او کو فون پر گالیاں دے کر کہا کہ اگر مرد کے بچے ہو تو اس کے گھر کی طرف آکر دکھاؤ۔ اگلے چند گھنٹوں میں راولپنڈی کے ایک ایس پی کا تبادلہ سیالکوٹ اور ڈی ایس پی اشتیاق شاہ جو بے نظیر بھٹو پر حملے کے وقت شدید زخمی ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ شاید فوت ہو گئے ہیں، کا گوجرانوالہ کرا دیا اور ایس ایچ او کو معطل۔
مری سے تعلق رکھنے والے پی ایم ایل نواز کے اشفاق سرور کو بھی چوہدری نثار کا فرنٹ مین سمجھا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کی ٹھاٹ باٹ کے پیچھے اشفاق سرور کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ وہ چوہدری نثار کا ایک ایسا ہیرا ہے جس کا صلاحیتوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔
یہ وہ جنگ ہے جو ایک سیاستدان اور اس ملک کا سب سے بڑا اور طاقتور پراپرٹی ٹیکون لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے پاس وسائل اور بندوں کی کمی نہیں ہے۔ اب تک چودھری نثار ریاض ملک پر قومی اسمبلی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں حملے کرتے آئے تھے۔ پہلی دفعہ ریاض ملک نے بھی اعلان جنگ کیا ہے اور کھل کر کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان جاری اس’ مہابھارت‘ کا کیا انجام نکلتا ہے۔ پنڈی پر قبضہ اور حکمرانی کے لئے جاری دو پنڈی والوں میں جیت کس کی ہوتی ہے اس کے لئے ہمیں اگلے انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ریاض ملک نے بھی سوچا ہوا ہے کہ وہ کسی قیمت پر چوہدری نثار کو اگلی دفعہ پارلیمنٹ نہیں جانے دینگے اور ان کا سیاسی مستقبل ختم کر کے دم لینگے۔ دوسری طرف چوہدری نثار جن سے توقع کی جار ہی تھی کہ شاید ان اشتہاری بورڈز کے بعد وہ کوئی جوابی حملہ کرینگے وہ پہلے بیمار ہو کر اپنے گھر لیٹ گئے اور اب پتا چلا ہے کہ لندن میں آرام فرما رہے ہیں۔
چوہدری نثار علی کی خاموشی کے پیچھے کیا کوئی طوفان ہے اور وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ دوبارہ ریاض ملک پر حملہ آور ہوں گے کیونکہ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ چوہدری نثار چپ ہو کر بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ یا پھر چوہدری نثار کی اس خاموشی کے پیچھے یہ خوفناک احساس ہے کہ ریاض ملک نے ان کے خلاف راولپنڈی کے شاہراہوں پر اُن کی توہین پر مبنی بڑے اشتہاری بورڈ لگوا کر ان کی ذات اور انا کی کچھ اس بُرے طریقے سے چوک چوراہوں پر سرِعام تذلیل کر دی ہے کہ اب وہ بڑے عرصے تک شاید میڈیا اور عوام کا سامنا کرنے سے اُس طرح گریز کریں جیسے انہوں نے کبھی 2003ء میں حامدمیر کے پروگرام میں شہنازشیخ کے ہاتھوں اپنی والدہ کے دکھائے گئے جنرل مشرف کے نام خط کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی!!!!







http://www.topstoryonline.com/nisar-malik-tussle
 
Last edited by a moderator:

Killthecorrupts

Senator (1k+ posts)
Once somone asked Malik Riaz, " Why are you making people fool by your fraud schemes". He replied," Why shouldn't I make those fool, who want to be fooled".
 

pakiace

Banned
Well done Malik riaz though you are no good as a person but the way people in bahria town were terrorized by the act of a large police force gunning down bahria town officers a couple of months back and no media gave it limelight i am with you
 

foresight

Citizen
Fight between Ch. Nisar Ali Khan & Property tycon Malik Riyaz

Published on 29. Jul, 2011
Source:- http://www.topstoryonline.com/nisar-malik-tussle
اسلام آباد (سپیشل رپورٹ): پچھلے دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان اور پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کاروبار کے بے تاج بادشاہ ریاض ملک کے درمیان کافی عرصے سے جاری ذاتی جنگ نے اُس وقت ایک نیا رنگ اختیار کر لیا جب راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسیوں نے مختلف مقامات پر چوہدری نثار علی خان کے خلاف ریاض ملک کی طرف سے لگوائے گئے بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگے ہوئے دیکھے جن میں اپوزیشن لیڈر کے خلاف چند سنگین ذاتی الزامات کے علاوہ ملک ریاض نے کچھ چیلنج بھی کئے ہوئے تھے۔
اگرچہ چوہدری نثار نے فوری طور پر اطلاع ملتے ہی اپنے خلاف لگنے والے ان بڑے بڑے اشتہاری بورڈوں کو پنڈی پولیس کی مدد سے گروا دیا لیکن گرنے سے پہلے ان اشتہاری بورڈوں پر لکھی ہوئی کہانیاں پورے شہر میں پھیل چکی تھیں۔ اور تو اور کیمرے کی آنکھ بھی اُن اشتہاروں کو محفوظ کر چکی تھی جنہیں پڑھ کر یقیناًچوہدری نثار علی خان جیسے بندے کو جو اپنی ذات کے بارے میں لکھا یا بولا ہوا ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتے کئی راتوں تک نیند نہیں آئی ہو گی۔
آج تک پنڈی اور اسلام آباد والوں کو چوہدری نثار اور ریاض ملک کے درمیان جاری اس ذاتی لڑائی کی اندرونی وجوہات کی پتا نہیں چل سکا۔ یہ بات بہت سے تجزیہ نگاروں کے لئے سمجھ سے بالاتر ہے کہ ریاض ملک نے اس ملک کے فوجی جرنیلوں، صحافیوں، صدر آصف علی زرداری، نوازشریف، چوہدری پرویزالٰہی اور رحمن ملک تک تمام بااثر لوگوں کو اپنی جیبوں میں ڈالا ہوا تھا لیکن آخر وہ کیا بات تھی کہ اتنی ساری دولت، اثرورسوخ اور اس ملک پر حکمرانی کرنے والے تمام طبقات کے ساتھ دوستی کے باوجود وہ چوہدری نثار علی خان کو اپنی مخالفت کرنے سے باز نہیں رکھ سکے تھے۔ یہ بات سب مانیں گے کہ ریاض ملک نے یقیناًچوہدری نثار کو دوست بنانے کے لئے پورا زور لگایا ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ چوہدری نثار اُن کے اُس طرح دوست کیوں نہیں بنے جیسے اُن کے اپنے لیڈر نوازشریف ریاض ملک کے بنے ہوئے ہیں۔
یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ ایک طرف ریاض ملک اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان اتنی بڑی ذاتی لڑائی چل رہی ہے اور دوسری طرف جب آصف علی زرداری اور نوازشریف میں اقتدار شیئر کرنے کا فارمولا 2008ء کے انتخابات کے بعد طے ہو رہا تھا تو اُن دونوں کے درمیان ضامن کا کردار ادا کرنے والے اور کوئی نہیں ریاض ملک ہی تھے۔ جب نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان مذاکرات مکمل ہو گئے تھے اور دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ اب ان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے کا ضامن کون ہو گا تو وہاں بیٹھے ریاض ملک ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اُٹھ کر قرآن پاک شلف سے نکالا اور اُن دونوں کے درمیان رکھ دیا تاکہ آصف علی زرداری اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائیں کہ اُنہوں نے جو باتیں طے کی تھیں وہ اُن پر قائم رہیں گے۔ تاہم نوازشریف نے آصف زرداری سے قرآن پر حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ ریاض ملک پاکستان کے بڑے سیاستدانوں کے درمیان اس طرح کے مذاکرات کر کے اپنے آپ کو ایک بادشاہ گر کے روپ میں پیش کر رہے تھے۔ ریاض ملک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر اُس شخص کو خریدنے یا خوش رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو اُن کے خیال میں اِس ملک میں کسی نہ کسی حوالے سے اہم ہے اور سب سے بڑھ کر وہ شخص چاہے جنرل ہو، جج ہو، صحافی ہو، سیاستدان ہو یا کوئی بیوروکریٹ جو اُنہیں فائدہ یا نقصان دے سکے۔
ریاض ملک نے جب پراپرٹی کا کاروبار شروع کیا تو اسے یہ بات پہلے دن سے سمجھ آگئی تھی کہ اس ملک میں آگے بڑھنا اُس وقت تک ممکن نہیں تھا جب تک فوجی آپ کے ساتھ نہ ہوں اور یوں انہوں نے فوجیوں سے مل کر بحریہ ٹاؤن کا منصوبہ بنایا اور آرمی کی ساکھ استعمال کرتے ہوئے راتوں رات کروڑوں کمائے۔ آرمی کے بعد انہیں سرکاری زمینیں اور پرائیویٹ لوگوں سے زمینیں خریدنے یا اُن پر قبضہ کرنے کے لئے سیاستدانوں کی ضرورت پڑی اور یوں وہ دھیرے دھیرے سیاستدانوں کے قریب ہوتے گئے۔ جنرل مشرف کا دور اُن کے لئے زیادہ خوش نصیبی لے کر آیا جب چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور دونوں نے مل کر راولپنڈی اور اسلام آباد میں زمینوں کے کئی سودے کئے۔پرویز الٰہی کی پوری سرکاری مشینری ریاض ملک کے ہاتھ پر ناچتی تھی وہ جس زمین کے ٹکڑے پر ہاتھ رکھ دیتے اُس کے بعد یہ اُس علاقے کے ایس ایچ او اور اسسٹنٹ کمشنر کا درد سر ہوتا کہ اُس نے اُس زمین کے مالکوں کو پیسے یا دھونس سے کیسے راضی کرنا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی کو اس صلے میں ریاض ملک نے بھارہ کہو کے قریب انتہائی قیمتی زمین اپنے نام سے اُن کے نام پر ٹرانسفر کرائی ۔
ثبوت کے لیے ڈان نیوز کے پروگرام رپورٹر کا یہ کلپ دیکھیں​
یہ وہ دستاویزی ثبوت ہے جو کہ سامنے آیا تھا۔ اس کے علاوہ اندرون کھاتے چوہدری پرویزالٰہی اور اس کے خاندان کو ریاض ملک نے کیا کچھ دیا یا لیا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے۔
جب اسلام آباد اور راولپنڈی کے صحافیوں کے لئے بحریہ ٹاؤن کے قریب ایک جگہ تلاش کی گئی تو پتا چلا کہ ریاض ملک پہلے ہی اُس پر آنکھیں جمائے بیٹھے تھے۔ یہ ہمت اور حوصلہ اسلام آباد پریس کلب کے صدر مشتاق منہاس کا ہی تھا کہ اس نے کس طریقے سے ریاض ملک کی ان کوششوں کو کتنی مشکلوں کے بعد ناکام بنایا اور وہ جگہ رہائش کے لئے پیسے دے کر حکومت پنجاب سے لی۔ آج تک ریاض ملک اس زخم کو بھولے نہیں ہیں کہ کئی ایکڑ پر محیط وہ زمین اُن کے ہاتھ سے نکل گئی تھی جسے وہ اربوں میں بیچ سکتے تھے۔
ریاض ملک کو 2007ء میں پتا چل گیا تھا کہ اب جنرل مشرف کا چل چلاؤ تھا اور آنے والا دور نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کا تھا لہٰذا انہوں نے اپنی جیبوں کا رُخ ان دونوں لیڈروں کی طرف کر دیا۔ بے نظیر اور نوازشریف کو بھی ہمیشہ سے ایسی مالدار پارٹیوں کی ضرورت تھی جو اُن کے پاکستان واپسی پر انتخابات کے اخراجات اور دیگر معاملات پر کھل کر مال خرچ کر سکیں۔ پہلے مرحلے میں بے نظیر بھٹو سے رابطہ ہوا اور ریاض ملک نے دو بلٹ پروف گاڑیاں انہیں پاکستان میں اپنی انتخابی مہم کے لئے عطیے کے طور پر دیں جو محترمہ نے بڑے شکریے کے ساتھ قبول کیں۔ جس گاڑی میں بے نظیر پر حملہ ہوا اور وہ ماری گئیں، وہ ریاض ملک کی عطا کی ہوئی تھی۔
ریاض ملک نے رحمن ملک کے ساتھ مل کر اسلام آباد میں کچھ گھر کرائے پر بھی لینے کی کوشش کی تھی جن کا کرایہ ڈالروں میں ادا ہونا تھا اور اس کی ادائیگی بھی ریاض ملک کے ذمے تھی۔ یوں پیپلزپارٹی سے مطمئن ہونے کے بعد ریاض ملک نے نوازشریف کیمپ کا رُخ کیا اور وہاں بھی پیسہ پانی کی طرح بہانا شروع کیا اور ایک دن وہ رائیونڈ کے محلوں میں رہنے والوں کے اتنے قریب ہو گئے کہ نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں قرآن کو ہاتھوں میں لئے ضامن کے طور پر وہاں موجود شخص ریاض ملک ہی تھے۔
ریاض ملک نے اس پر بس نہیں کی اور جب کئی مواقعوں پر نوازشریف اور آصف زرداری کے درمیان شدید اختلافات ہوئے اور معاملات بہت بگڑ گئے تو وہ دونوں کے درمیان پیغام رساں کا بھی کردار ادا کرتے رہے۔
ریاض ملک پر کئی قتل کے مقدمے بنے۔ غریب اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضے کے الزامات لگے۔ اور تو اور پچھلے سال ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ایس ایس پی کے دفتر کے باہر ملک ریاض اور ایک اور پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے ملک باری کے درمیان ایک مسلح تصادم ہوا۔ دونوں کے گارڈز نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی جس میں ایک مارا گیا اور ایک ڈی ایس پی زخمی ہوا۔ پولیس موقع سے بھاگ گئی۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ ملک ریاض یا ملک باری پر ہاتھ ڈالتا۔ اُسی رات اسلام آباد کے آئی جی کلیم امام اپنے ایس پی طاہر عالم کو بتائے بغیر رحمن ملک کے گھر لے گئے جہاں پہلے سے ریاض ملک موجود تھا۔ طاہر عالم اس بات پر غصے میں تھے کہ اُس کے گارڈز نے ایک ڈی ایس پی کو گولی ماری تھی۔ رحمن ملک اور کلیم امام نے مل کر طاہر عالم کو سمجھایا اورجب انہوں نے اپنے وزیرداخلہ اور اپنے آئی جی کو ریاض ملک کی موجودگی میں اُلٹا اُسے سمجھاتے پایا تو اس افسر نے بھی اپنا سر جھکا دیا۔ بات سپریم کورٹ تک بھی گئی۔ ایک دن کے لئے نوٹس بھی جاری ہوا اور پھر سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ بھول جاتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر، ایس پی اور ایس ایس پی کے دفتر کے باہر ان پراپرٹی ڈیلروں کے گارڈز کے کیسے ایک دوسرے کے بندے قتل کئے اور جاتے ہوئے ایک ڈی ایس پی کو گولی مارگئے تھے۔
یہ وہ اعتماد اور غرور تھا کہ کوئی بھی ریاض ملک سے سوال یا احتساب کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا لہٰذا اُس کے بیٹے نے بحریہ ٹاؤن میں بغیر کسی کی اجازت اور نا مناسب جگہ پر کار ریس کرا ڈالی۔ ایک کار بے قابو ہو کر سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں پر چڑھ گئی جس میں ایک باپ اور اس کے بیٹے سمیت پانچ بندے مارے گئے۔ بات پھر سپریم کورٹ تک گئی۔ ریاض ملک کے بیٹے کو رحمن ملک نے باہر بھجوا دیا اور پیچھے سے مرنے والوں کے خاندانوں کو چند لاکھ روپے دے کر خرید لیا گیا اور یوں بات وہیں ختم ہو گئی۔
اب اس تناظر میں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آخر چوہدری نثار اور ملک ریاض کے درمیان لڑائی کیوں چلتی جا رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا پتھر چوہدری نثار علی خان نے ہی ریاض ملک پر پھینکا جب انہوں نے دو سال قبل قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ریاض ملک کو آصف علی زرداری کے چماٹ کا لقب دیا جس سے پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ کیا کہانی تھی کہ چوہدری نثار کے قائدین نوازشریف اور شہبازشریف تو ریاض ملک کے واری صدقے جا رہے تھے اور اسے صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ضامن کے طور پر بھی قبول کر رہے تھے تو پھر بھلا چوہدری نثار ریاض ملک سے کیوں ناراض تھے۔ کیا ریاض ملک چوہدری نثار کے لئے وہ خدمات سرانجام نہیں دے رہے تھے جو وہ اُن کے لیڈروں شہبازشریف اور نوازشریف کے لئے دیتے چلے آئے تھے۔
چوہدری نثار کے بارے میں مشہور ہے کہ جتنا تکبر اور غرور خدا نے اُن کے اندر ڈالا ہے اور جس طرح عام آدمی سے وہ حقارت اور نفرت سے پیش آتے ہیں وہ شاید اور کسی انسان میں نہ ہو۔ یہ سب جانتے ہیں کہ وہ کسی سے ہاتھ بھی ملا لیں تو اُس کے بعد وہ اپنے ہاتھ ضرور دھوتے ہیں۔ پہلے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ہاتھ ہی پورا نہ دیا جائے اور اگر دے بھی دیا جائے تو پھر اُسے دھونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے ہمیشہ فوج کے ساتھ نوازشریف کی دونوں دفعہ اقتدار میں لڑائی کروائی اس کی وجہ یہ تھی کہ چوہدری نثار کے اپنے بھائی جنرل افتخار علی خان بھی آرمی میں تھے اور اُن کے والد فتح علی خان بھی انگریزوں کی فوج میں شامل تھے۔ فوجی بیک گراؤنڈ کی وجہ سے چوہدری نثار ہمیشہ فوج کے ساتھ معاملات خود طے کرتے تھے اور نوازشریف کے ہاتھ میں ایک چِٹ تھما دی جاتی تھی کہ فلاں کو آرمی چیف بنانا تھا اور فلاں کو ہٹانا تھا۔ فلاں بندہ اپنا تھا اور فلاں فوجی آفیسر کو ریٹائر کرنا تھا۔ اس پسند ناپسند کا یہ نقصان ہوا کہ فوج میں بھی یہ تاثر گہرا ہوتا چلا گیا کہ جس نے ترقی کرانا تھی وہ چوہدری نثار علی کے گھر کا طواف کرے۔ جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل علی قلی خان سے بھی تعلقات خراب کرانے میں بڑا کردار چوہدری نثار علی خان کا تھا۔ اُن کے بڑے بھائی جنرل افتخار علی خان چیف آف سٹاف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے تھے۔ چوہدری نثار چاہتے تھے کہ ان کو نوازشریف ایکسٹینشن دے دیں اور اگر ممکن ہو تو اس سے پہلے وہ آرمی چیف بن جائیں۔ جنرل جہانگیر کرامت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا لہٰذا کرامت نے جنرل افتخار کی جگہ جنرل علی قلی کو ترقی دے کر نوازشریف کو فائل بھیجی کہ وہ ان کا نوٹیفکیشن کر دیں اور افتخار کو ریٹائر کر دیں۔ چوہدری نثار علی خان نے وہ فائل وزیراعظم ہاؤس میں رکوا دی اور اس کوششوں میں لگ گئے کہ وہ نوازشریف کو قائل کرکے اپنے بھائی کو مدت ملازمت میں توسیع دے دیں۔
جب جہانگیر کرامت کو اس کا پتا چلا تو انہوں نے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی رانا نسیم کو ایک سخت پیغام دے کر نوازشریف کے پاس بھیجا کہ وہ یہ فائل کلیئر کریں اور جنرل افتخار کو ہٹا کر جنرل علی قلی کو لگائیں۔ نوازشریف نے وہ فائل کلیئر کر کے ڈی جی آئی ایس آئی رانا نسیم کو دے دی جس سے دونوں بھائی چوہدری نثار علی خان اور افتخار علی خان بڑے ڈسٹرب ہوئے اور یہیں سے چوہدری نثار کے دل میں علی قلی کے خلاف بغض بیٹھ گیا۔ جب جہانگیر کرامت نے نوازشریف کو اپنا استعفیٰ پیش کیا اور نئے آرمی چیف کی تلاش شروع ہوئی تو یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے، جنرل مشرف جن کے ساتھ ان کی عیاشی کی داستانیں مشہور تھیں، نوازشریف کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ انہیں نیا آرمی چیف بنائیں۔ چوہدری نثار نے جنرل مشرف کی خفیہ ملاقات نوازشریف سے کرائی اور جنرل مشرف نے بغیر جہانگیر کرامت کو بتائے یہ ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے قریبی ساتھی انور زاہد نے بھی جنرل علی قلی کو نوازشریف سے خفیہ ملاقات کرنے کے لئے کہا جو اُس وقت آرمی چیف بننے کے اصل حق دار تھے۔ جنرل قلی نے انکار کر دیا کہ وہ یہ کام نہیں کریں گے لیکن مشرف نے نثار کے ساتھ مل کر نوازشریف سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور فیصلہ ہوا کہ ایک اردو سپیکنگ جنرل کو آرمی چیف بنایا جائے گا جس کی فوج اور سیاستدانوں میں کوئی لابی نہیں تھی۔
جنرل علی قلی پر الزام لگا کہ وہ اُس وقت کے وزیرخارجہ گوہر ایوب کے برادر نسبتی تھے لہٰذا کل کلاں کو وہ پاکستان میں مارشل لاء لگا سکتے تھے۔ یہ علیحدہ کہانی ہے کہ گوہرایوب بھی جنرل علی قلی کو آرمی چیف بنتا نہیں دیکھ سکتے تھے جیسے اُن کے باپ جنرل ایوب خان نے علی قلی کے باپ جنرل حبیب اللہ کو آرمی چیف نہیں بنایا تھا اور ان کی جگہ جنرل موسیٰ کو کمانڈ دی تھی۔ یوں جنرل علی قلی اور گوہرایوب کے خاندان میں برسوں کی جاری یہ اندرونی لڑائی 1998ء تک جاری رہی جب گوہرایوب نے جنرل قلی کو آرمی چیف بنانے کیلئے لابنگ نہیں کی جیسے کہ چوہدری نثار اپنے بھائی کے ریٹائر ہونے کے بعد جنرل مشرف کیلئے کر رہے تھے۔
چوہدری نثار کا کردار اُس وقت مشکوک ہوا جب 12 اکتوبر کا مارشل لاء لگا اور نوازشریف نے نثار کو بتائے بغیر اُس کے لگوائے ہوئے آرمی چیف کو برطرف کر دیا۔ چوہدری نثار پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوئیں جب کلثوم نواز نے یہ پوچھنا شروع کیا کہ بھلا آخر اس کے پیچھے کیا راز تھا کہ نوازشریف،شہباز شریف، خواجہ آصف، اسحاق ڈار اور پارٹی کے دیگر ٹاپ لیڈرز تو جیلوں میں پڑے ہوئے تھے جبکہ چوہدری نثار کو ان کے فیض آباد میں واقع خوبصورت گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اُن برسوں میں چوہدری نثار اپنے گھر پر سوتے رہے جب نوازشریف اور شہبازشریف اٹک جیل میں قید تنہائی بھگت رہے تھے اور کلثوم نواز کی گاڑی تہمینہ دولتانہ کے ساتھ لاہور میں ایک لفٹر کے ذریعے اٹھا کر تماشا بنائی جا رہی تھی۔
اسی اثناء میں چوہدری نثار علی کی والدہ نے جو اس وقت زندہ تھیں جنرل مشرف کے نام ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ان سے درخواست کی تھی کہ ان کے بیٹے کو معاف کر کے رہا کیا جائے اور ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لہٰذا علاج کی بھی اجازت دی جائے۔ مبینہ طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس خط میں ان کی والدہ نے اپنی طرف سے لکھا کہ چوہدری نثار رہائی کے بعد سیاست چھوڑ دیں گے۔
یہ خط اس وقت منظر عام پر آیا جب ایک دن کیپٹل ٹاک میں حامد میر نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ایم ایل کیو کی حکومت میں وزیر بننے والی ایم این اے شہنازشیخ کو اپنے پروگرام میں بلایا اور ساتھ میں انہوں نے چوہدری نثار کو بھی بلا لیا۔ چوہدری نثار ان دنوں جنرل مشرف کے خلاف بڑی سخت تقریریں قومی اسمبلی میں کر رہے تھے۔ چوہدری نثار کو یہ پتا نہیں تھا کہ شہنازشیخ کو خصوصی طور پر یہ خط جیو ٹی وی پر دکھانے کے لئے اس پروگرام میں بھیجا گیا تھا۔ اس لئے جونہی چوہدری نثار نے حسب عادت جنرل مشرف پر طعن و تشنیع شروع کی تو ایک مرحلے پر شہنازشیخ نے چوہدری نثار علی کی والدہ کا جنرل مشرف کو اپنے بیٹے کی معافی کے لئے لکھے گئے خط کا ذکر کیا تو چوہدری نثار کا رنگ اُڑ گیا۔ چوہدری نثار سمجھ گئے کہ انہیں اس پروگرام میں ذلیل کرنے کیلئے فریم کیا گیاتھا۔ انہوں نے اس واقعے کے بعد نہ صرف حامد میر سے تعلقات ختم کئے بلکہ یہ فیصلہ بھی کیا کہ آئندہ وہ کسی ٹی وی اینکر کے سٹوڈیو میں جاکر دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ شو میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ کوئی پتا نہیں کہ کون ان کے منہ پر کونسی بات کہہ دے یا ان کی والدہ کے خط کی کاپی نکال کر ان کے سامنے رکھ دے۔
حامد میر اور چوہدری نثار کے درمیاں بڑے عرصہ تک ناراضگی رہی اور بول چال بھی بند رہی۔ آخر کچھ مشترکہ دوستوں نے حامدمیر اور چوہدری نثار کی صلح کرائی اور میر صاحب نے بھی ناراضگی ختم کرنے کیلئے دو تین دفعہ اپنے کالموں میں چوہدری نثار کا بڑے اچھے طریقے سے ذکر کیا۔
ان تمام باتوں سے کلثوم نواز نے نوازشریف کو آگاہ کیا کہ کیسے چوہدری نثار کو جنرل مشرف نے گھر پر قید کیا ہوا تھا جبکہ وہ لوگ جیلوں میں سڑ رہے تھے۔ نوازشریف کو تو نثار اور مشرف کی دوستی کا علم تھا لہذٰا ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ چوہدری نثار نے ہی ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا اور اگر وہ اس وقت نثار کی باتوں میں آکر مشرف کو آرمی چیف نہ بناتے تو شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ یوں دونوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں اور بات یہاں تک پہنچی کہ چوہدری نثار نے اپنی فیملی فرینڈ اور بے نظیر بھٹو کی قریبی دوست آمنہ پراچہ کے ذریعے پیپلزپارٹی جوائن کرنے کے لئے رابطے شروع کئے۔ جب چوہدری نثار رہا ہوئے تو انہوں نے سب کا شکریہ ادا کیا ماسوائے نوازشریف کا جس پر نوازشریف مزید ناراض ہوئے اور جدہ سے فون کیا کہ انہوں نے ان کا نام کیوں نہیں لیا تھا جس پر نثار نے انہیں جواب دیا کہ میاں صاحب آپ نے مجھے رہائی پر مبارکباد بھی تو نہیں دی تھی۔ شہبازشریف کو پتا چلا کہ چوہدری نثار بے نظیر بھٹو سے رابطے میں تھے تو انہوں نے پرانی دوستی کا حوالہ دے کر چوہدری نثار کو جدہ بلوایا اور میاں صاحب سے گلے شکووں کے بعد دوبارہ دوستی ہو گئی۔
2008ء کے انتخابات کے بعد چوہدری نثار نے پھر اپنا پرانا کھیل کھیلنا شروع کیا جس کی وجہ سے نوازشریف کی حکومت ٹوٹی تھی انہوں نے شہبازشریف کو اپنے ساتھ ملایا جو اس کام کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں شہبازشریف اور چوہدری نثار نے کالے برقعے اوڑھے اور جی ایچ کیو میں جا کر جنرل کیانی سے خفیہ مذاکرات شروع کئے تاکہ فوج اور پی ایم ایل نواز کے درمیان دوریاں ختم ہوں اور پیپلزپارٹی کو ہٹا کر پی ایم ایل کیو کو نوازشریف کے ساتھ ملا کر ان کی پارٹی کا وزیراعظم بنایا جائے۔ کیونکہ نوازشریف پر ابھی جنرل مشرف کے ساتھ ہونے والی ڈیل کی وجہ سے دس سال تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی تھی اور یہ پابندی دسمبر 2010ء میں ختم ہونی تھی اور ابھی اس میں دو سال پڑے تھے لہٰذا نثار نے یہ کوشش شروع کر دی کہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی ان کو سپورٹ کریں تو وہ نوازشریف سے پابندی ہٹنے تک اس ملک کے نئے وزیراعظم بن سکتے تھے۔ آرمی کے ساتھ ان چھ ملاقاتوں کی خبر آخر کار ایک ٹی وی چینل پر چل گئی جس سے ایک ہنگامہ مچ گیا کہ شہبازشریف اور چوہدری نثار کیسے کالے برقعے پہن کر فوجیوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے حالانکہ جلاوطنی کے دنوں میں انہوں نے قسمیں قرآن کھائے تھے کہ وہ کبھی فوج کے ساتھ مل کے کبھی سیاست کریں گے اور نہ سیاسی حکومت کو ہٹانے کے لئے کوئی سازش کریں گے۔
جب اس خبر کے بارے میں نوازشریف سے پوچھا گیا کہ بھلا کیونکر چوہدری نثار اور شہبازشریف کالے برقعے پہن کر جی ایچ کیو رات کو جنرل کیانی سے ملنے جاتے تھے تو انہوں نے بڑی نے بڑے معصومانہ انداز میں یہ بہانہ بنایا کہ انہیں ان ملاقاتوں کا علم نہیں تھا اور صحافیوں کی طرح انہیں بھی اس خبر کا پتا ٹی وی سے چلا تھا۔ یہ گولی جو نوازشریف نے صحافیوں کو دی اور سب نے چپ کر کے چبالی یہ سوچ کر کہ شاید چوہدری نثار اور شہبازشریف نوازشریف سے زیادہ طاقتور ہو گئے تھے اور فوجی جرنیلوں سے رات کو ملنے کیلئے نوازشریف کو اس بارے میں بتانا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ اگر یہ بات واقعی سچ تھی تو نوازشریف کو بتائے بغیر یہ ملاقاتیں کی گئی تھیں تو پھر نوازشریف کو چاہیے تھا یا تو وہ پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ دے دیتے کہ اب ان کے بھائی اور ان کی پارٹی کا پارلیمانی لیڈر ان سے پوچھے بغیر اتنے بڑے بڑے کام کر رہے تھے لہٰٰذا پارٹی چلانے کا حق انہیں نہیں تھا۔ یا پھر چوہدری نثار اور شہباز کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر اپنی پارٹی سے نکال دیتے۔ نوازشریف نے دونوں کام نہ کر کے یہ واضح کیا کہ چوہدری نثار اور شہباز کی ملاقاتیں ان کی مرضی اور اجازت سے ہوئی تھیں اور اب وہ صحافیوں کو بیوقوف بنا رہے تھے جو آگے سے بننے کیلئے تیار بیٹھے تھے۔
نثار کو ریاض ملک اس وقت زیادہ آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہوا جب انہوں نے قومی اسمبلی میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کے خلاف سخت تقریریں شروع کیں۔ کچھ دنوں بعد چوہدری نثار کو پتا چلا کہ ریاض ملک ان کے حلقے میں نہ صرف نئے ووٹ رجسٹرڈ کرا چکے تھے بلکہ بوگس ووٹ بھی خارج کرائے جا رہے تھے۔ نثار کے کان کھڑے ہوئے اور انہیں شک گزرا کہ ان کی سیاسی بادشاہت خطرے میں تھی کیونکہ اس سے یوں لگ رہا تھا کہ ملک ریاض اگلا الیکشن ان کے مقابلے میں ان کے حلقے سے لڑنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔نثار کا خیال تھا کہ ملک ریاض کے پیچھے اور کوئی نہیں آئی ایس آئی کے لوگ تھے جو اس کی تقریروں کا اس کو سبق سکھانا چاہتے تھے۔ اسی طرح ملک ریاض اور پنڈی کے کھوکھروں کے درمیان جاری لڑائی کی وجہ سے بھی چوہدری نثار نے اپنا پلڑا کھوکھروں کے ہاتھ میں ڈالا ہوا تھا جس کی وجہ سے ریاض ملک اور ان کے درمیان ایک مستقل دشمنی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔
ریاض ملک کے پاس چوہدری نثار سے بدلہ لینے کا ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ وہ انہیں اگلے الیکشن میں ان کے حلقوں سے نہ جیتنے دیں۔ اس کام کیلئے انہیں یقیناًپاکستان کے طاقتور حلقوں کی نظر نہ آنے والی حمایت بھی حاصل ہے۔ نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھولنے کا ہنر وہ خوب جانتے ہیں اور وہ کسی صورت اگلے الیکشن میں چوہدری نثار کو دوبارہ قومی اسمبلی نہیں جانے دیں گے اور ان کی سیاست ختم کرنے کے لئے ریاض ملک کو پیپلزپارٹی کی بھی پوری حمایت حاصل ہو گی خصوصاً آصف علی زرداری جو چوہدری نثار سے اسی طرح نفرت کرتے ہیں جیسے چوہدری نثار ان سے۔
چوہدری نثار کی چوہدراہٹ کو پہلا جھٹکا دینے کیلئے ریاض ملک نے راولپنڈی اسلام آباد کی شاہراہوں پر وہ بڑے بڑے اشتہارات لگوائے اور کھل کر چوہدری پر ذاتی حملے بھی کئے اور چیلنج کیا کہ وہ ان کا جواب دیں۔ ڈی ایچ اے کے پلاٹوں کی کہانی کے علاوہ سب سے بڑا حملہ نثار پر یہ کیا گیا کہ وہ اس خط کے بارے میں بتائیں جو ان کی والدہ نے جنرل مشرف کو لکھا تھا۔ ڈی ایچ اے اسلام آباد پلاٹ کی کہانی اس لئے بھی لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکی کیونکہ پچھلے دو سال سے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اسلام آباد کے قیام کا بل قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کے پاس پڑا ہے اور پاکستان مسلم لیگ نواز اسے پاس نہیں ہونے دے رہی۔ چوہدری نثار سب سے پیش پیش ہیں اور اب تک ڈی ایچ اے کے خلاف کئی دھواں دار تقریریں بھی کر چکے ہیں اور اس بات کی قسم کھا چکے ہیں کہ وہ اس بل کو پارلیمنٹ سے پاس نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ان کا یہ خیال تھا کہ فوجی افسران لوگوں اور سرکاری زمینوں پر قبضہ کر کے اپنے کاروبار کے ذریعے اربوں روپے کما رہے تھے۔
چوہدری نثار کو شاید ڈی ایچ اے بل پر اعتراض نہ ہوتا لیکن انہیں اس بات کا پتا ہے کہ ڈی ایچ اے کے پیچھے ریاض ملک ہے جس نے ان کے ساتھ معاہدے کر کے اربوں روپے کمانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔ اس لئے کہ اب ڈی ایچ اے کا بل پاس نہیں ہوتا اور چوہدری نثار علی خان کے خیال میں اس کا سب سے بڑا نقصان ریاض ملک کو ہو گا۔ اس بیک گراؤنڈ میں ریاض ملک نے چوہدری نثار کے خلاف دو اشتہاری بورڈ لگوائے اگر وہ ڈی ایچ اے کے اتنے خلاف تھے تو انہوں نے وہاں دو پلاٹ کیوں لئے ہوئے تھے جن کی ادائیگی کرنا بھی ابھی باقی تھی۔
چوہدری نثار پر یہ بھی الزام لگتا ہے کہ اگرچہ وہ اپنی ایمانداری کا ڈھنگ تو پیٹتے رہتے ہیں لیکن انہوں نے راولپنڈی میں تمام پٹواریوں کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے ان کی مرضی کے بغیر کوئی پٹواری یا تھانے دار تبدیل نہیں ہو سکتا۔ ان کے ایک لاڈلے پپو پٹواری کی کہانیاں تو پورے پنڈی میں مشہور ہیں۔ پپو پٹواری کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چوہدری نثار کا فرنٹ مین ہے اور ان کے انتخابات کے اخراجات وہ برداشت کرتے آئے ہیں۔ پپو پٹواری تو اتنا طاقتور ہے کہ اس نے میبنہ طور پر ایک عورت اور اس کے بچوں کو ان کے گھر کے سامنے اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے ذریعے گولیاں مروا دیں اور انہیں اپنے گھر میں انہیں پناہ دے دی۔ پولیس نے چھاپہ مارنے کا پروگرام بنایا تو پپو پٹواری نے ایس ایچ او کو فون پر گالیاں دے کر کہا کہ اگر مرد کے بچے ہو تو اس کے گھر کی طرف آکر دکھاؤ۔ اگلے چند گھنٹوں میں راولپنڈی کے ایک ایس پی کا تبادلہ سیالکوٹ اور ڈی ایس پی اشتیاق شاہ جو بے نظیر بھٹو پر حملے کے وقت شدید زخمی ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ شاید فوت ہو گئے ہیں، کا گوجرانوالہ کرا دیا اور ایس ایچ او کو معطل۔
مری سے تعلق رکھنے والے پی ایم ایل نواز کے اشفاق سرور کو بھی چوہدری نثار کا فرنٹ مین سمجھا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب کی ٹھاٹ باٹ کے پیچھے اشفاق سرور کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ وہ چوہدری نثار کا ایک ایسا ہیرا ہے جس کا صلاحیتوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔
یہ وہ جنگ ہے جو ایک سیاستدان اور اس ملک کا سب سے بڑا اور طاقتور پراپرٹی ٹیکون لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے پاس وسائل اور بندوں کی کمی نہیں ہے۔ اب تک چودھری نثار ریاض ملک پر قومی اسمبلی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں حملے کرتے آئے تھے۔ پہلی دفعہ ریاض ملک نے بھی اعلان جنگ کیا ہے اور کھل کر کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان جاری اس مہابھارت کا کیا انجام نکلتا ہے۔ پنڈی پر قبضہ اور حکمرانی کے لئے جاری دو پنڈی والوں میں جیت کس کی ہوتی ہے اس کے لئے ہمیں اگلے انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ریاض ملک نے بھی سوچا ہوا ہے کہ وہ کسی قیمت پر چوہدری نثار کو اگلی دفعہ پارلیمنٹ نہیں جانے دینگے اور ان کا سیاسی مستقبل ختم کر کے دم لینگے۔ دوسری طرف چوہدری نثار جن سے توقع کی جار ہی تھی کہ شاید ان اشتہاری بورڈز کے بعد وہ کوئی جوابی حملہ کرینگے وہ پہلے بیمار ہو کر اپنے گھر لیٹ گئے اور اب پتا چلا ہے کہ لندن میں آرام فرما رہے ہیں۔
چوہدری نثار علی کی خاموشی کے پیچھے کیا کوئی طوفان ہے اور وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ دوبارہ ریاض ملک پر حملہ آور ہوں گے کیونکہ یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ چوہدری نثار چپ ہو کر بیٹھنے والے نہیں ہیں۔ یا پھر چوہدری نثار کی اس خاموشی کے پیچھے یہ خوفناک احساس ہے کہ ریاض ملک نے ان کے خلاف راولپنڈی کے شاہراہوں پر اُن کی توہین پر مبنی بڑے اشتہاری بورڈ لگوا کر ان کی ذات اور انا کی کچھ اس بُرے طریقے سے چوک چوراہوں پر سرِعام تذلیل کر دی ہے کہ اب وہ بڑے عرصے تک شاید میڈیا اور عوام کا سامنا کرنے سے اُس طرح گریز کریں جیسے انہوں نے کبھی 2003ء میں حامدمیر کے پروگرام میں شہنازشیخ کے ہاتھوں اپنی والدہ کے دکھائے گئے جنرل مشرف کے نام خط کے بعد خاموشی اختیار کر لی تھی!

Source :- http://www.topstoryonline.com/nisar-malik-tussle
 

ranaji

President (40k+ posts)
Re: Fight between Ch. Nisar Ali Khan & Property tycon Malik Riyaz

parhta ja sharmata ja
 

funkymonk

Minister (2k+ posts)
wow .. that was lot of information ..
I always hated Ch Nisar .. and it didnt surprise me at all ..