Major Aziz Bhatti Shaheed's Last moments

waqas_x

Voter (50+ posts)
میجر عزیز بھٹی شہید کے آخری لمحات


by: اصغر علی گھرال


3-aziz-bhatti-e1346924694304.jpg


Source: Daily Pakistan Online News

11 ستمبر کا سورج طلوع ہونے والا تھا۔ میجر عزیز بھٹی نے جوانوں کو بلایا اور پوچھا آپ میں سے اچھا پیراک کون ہے۔ دو جوان جائیں اور اپنے ساتھی مسکین علی کو نہر پار سے لے آئیں۔ بہادر علی اور غلام سرور نے اس خدمت کے لئے خود کو پیش کیا۔ انہوں نے کپڑے اتارے اور پار جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ دشمن کی پوزیشن بالکل سامنے تھی۔ بھٹی کہنے لگے۔ ابھی ذرا ٹھہر جائیں۔ پوزیشن ہٹ جائے تو پھر جائیں۔ دونوں کپڑے اتارے کافی دیر انتظار کرتے رہے، مگر کوئی بات بنتی نظر نہ آئی۔ دشمن کی طاقت بڑھ رہی تھی۔ میجر بھٹی نے کہا: اب آپ کپڑے پہن لیں اور ہتھیار سنبھال لیں۔ ابھی پار جانا خطرناک ہے۔ ہم انشاءاللہ مسکین کو ضرور لائیں گے، ورنہ مجھے اس کا عمر بھر قلق رہے گا۔ پھر میجر عزیز بھٹی نے وائرلیس سے توپ خانے کو پیغام دے کر دشمن کی مسکین علی کے بالمقابل پوزیشن پر فائر کرایا۔ دشمن کی وہ توپ بے کار ہوگئی، مگر اس نے ہر طرف پوزیشن لی ہوئی تھی۔ دوسری پوزیشنوں پر بھی فائر کرائے۔ دشمن کے کافی نقصان کے علاوہ بہت سا اسلحہ اور ٹینک بھی بیکار ہوئے۔ میجر بھٹی نہر کے اوپر کھڑے پوری مستعدی سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔ دشمن کی گولا باری سے جوان نذر محمد (جہلم) شہید ہوگیا۔ میجرعزیز اس کے قریب گئے اور رومال اس کے چہرے پر پھیلادیا۔ اس وقت صوبیدار غلام محمد میجر صاحب کے قریب آئے اور کہنے لگے: صاحب! پٹڑی کے اوپر آپ بالکل دشمن کی زد میں ہیں، دشمن سامنے ہے، آپ پٹڑی سے نیچے ہو جائیں۔ میجر بھٹی کہنے لگے:” یہ درست ہے کہ پٹڑی کے اوپر خطرہ زیادہ ہے، لیکن مَیں مجبور ہوں، اس لئے کہ یہاں اس سے زیادہ اونچی جگہ نہیں ہے، جہاں سے دشمن کا مشاہدہ کر سکوں۔ مجبوراً پٹڑی پر ہی چلنا پڑتا ہے۔ صوبیدار صاحب! اس وقت وطن عزیز کا تحفظ ہر قابل لحاظ امر سے مقدم ہے۔ اگر جان عزیز اس راہ میں کام آئے تو اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے“؟....صوبیدار غلام محمد سے باتیں کر رہے تھے کہ کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل ابراہیم قریشی کا پیغام آیا کہ ایک ضروری کانفرنس کے لئے فوراً فیلڈ ہیڈ کوارٹر پہنچ جائیں۔ نائب صوبیدار شیر دل کو بلا کر کہا، صاحب! اب آپ کو میرے بعد سارا کام خود ہی کرنا ہوگا۔ میرے واپس آنے تک دشمن پرکڑی نظر رکھیں اور ضرورت کے مطابق فائر کرواتے رہیں۔ مَیں ذرا ہیڈ کوارٹر جا رہا ہوں۔
کمانڈنگ آفیسر محمد ابراہیم قریشی، میجر محمد اصغر، کیپٹن منیر الدین ایڈجوٹنٹ اور کیپٹن دلشاد کوارٹر ماسٹر، فیلڈ ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میجر عزیز بھٹی کی تیز رفتار جیپ ان کے پاس آکر رُکی۔ 120 گھنٹے برکی کے انتہائی نازک محاذ پر تاریخی کردار ادا کرنے والا مجاہد پوری مستعدی کے ساتھ جیپ سے اُترا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ساتھی افسروں کی جانب بڑھا۔ سب نے اُٹھ کر میجر بھٹی کو گلے لگایا اور ان کے عظیم الشان کارنامے پر انہیں مبارک باد دی۔ ان کی حیرت انگیز مستعدی، چہرے کے تاثرات اور گل لالہ کی مانند سرخ آنکھیں ان کی بے تاب سرگرمیوں، ان کی بے جواب راتوں اور عسکری تاریخ میں ان کے لاجواب کارناموں کی داستانیں سنا رہی تھیں۔ میجر بھٹی مجوزہ کانفرنس سے جلد فارغ ہونے کے بعد بعجلت تمام واپس جانے کے لئے بے قرار تھے، مگر انہیں معلوم ہوا کہ ان کو کسی اہم کانفرنس کے لئے نہیں بلایا گیا، بلکہ ان کے کمانڈنگ آفیسر انہیں آرام دلانا چاہتے ہیں۔ کرنل قریشی نے صاف صاف کہہ دیا....بھٹی صاحب! مَیں آپ کو مبارک دیتا ہوں، آپ نے اس محاذ پر ایک تاریخی جنگ لڑی ہے۔ آپ کے پاس جوانوں کی انتہائی کم نفری کا مجھے شدید احساس رہا۔ آپ کے کارنامے حیرت انگیز ہیں۔ آپ نے لاہور کو دشمن کے ناپاک قدموں سے بچا لیا ہے۔ آپ نے مسلسل چھ یوم سے مطلق آرام نہیں کیا، آپ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں، آپ کو آرام کی اشد ضرورت ہے، مَیں نے پہلے بھی آپ کو واپس بلایا تھا، مگر آپ ٹال گئے تھے، مجھے ڈر تھا، آج بھی ٹال نہ جائیں، اس لئے آج بہانے سے بلایا ہے۔ مَیں آپ کی جگہ دوسرا آفیسر بھیج رہا ہوں۔ آپ آرام کر لیں۔ آپ کو پچھلے مورچوں پر بھیج دیتے ہیں۔
میجر عزیز بھٹی نے سی او کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ”سر! جس احساس اور جذبے کے تحت آپ نے مجھے واپس بلایا ہے۔ مَیں اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور تہہ دل سے اس کی قدر کرتا ہوں، لیکن آپ یقین جانیں، میرے لئے آرام و راحت محاذ پر ہے۔ حقیقت میں تکلیف اور آرام صرف جسمانی نہیں ہوتے۔ ان کاتعلق انسان کے احساسات سے ہے، مثلاً مجھے اگر محاذ سے واپس بلا لیا جائے تو میرے لئے یہ ایک روحانی عذاب ہوگا۔ بلاشبہ ان دنوں مَیں نے اپنے جسمانی آرام و آسائس کی پرواہ نہیں کی، لیکن آپ یقین کریں کہ مجھے اس کا بہت زیادہ صلہ ملا ہے۔ جذباتی طور پر یہ لمحات میرے لئے انتہائی روحانی مسرت اور اطمینان کا باعث ہوئے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میرے جوانوں نے اپنے عزم سے دشمن کی کئی گنا زیادہ فوج اور بے پناہ اسلحہ کے باوجود اس کی یلغار کو روک دیا ہے اور ہر مقابلے میں اسے شکست دی ہے، مگر مجھے یہ بھی احساس ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی زیادہ فوج نہیں ہے کہ ہر محاذ پر تازہ دم دستے بھیج کر سب مجاہدین کو آرام دلا سکیں۔ دریں حالات میرے لئے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ مَیں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جاوں۔ ملک کا بچہ بچہ برسرپیکار ہے۔ یہ صرف لاہور کے تحفظ کا سوال نہیں ہے، پاکستان بلکہ اسلام کے تحفظ کا سوال ہے۔ محترم قریشی صاحب! ملک و ملت پر موجودہ نازک وقت ہم سے عظیم قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ واللہ! مَیں تو اس راہ میں جانِ عزیز کی قربانی بھی حقیر سمجھتا ہوں۔ خدا کے لئے آپ میرے لئے تشویش نہ کریں، میرے اعصاب بڑے مضبوط ہیں، مجھے کوئی تکان محسوس نہیں ہوتی، مَیں آرام نہیں کرنا چاہتا، نہ پچھلے مورچوں پر جاوں گا، بلکہ وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کروں گا“۔
کرنل قریشی،میجر عزیز بھٹی کے دلائل، ان کے جوشِ جہاد اور ملک و ملت کے لئے جذبہءایثار سے بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ بلا شبہ میجر بھٹی کو محاذ سے واپس بلانا ان کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا، البتہ انہوں نے بھٹی صاحب کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ چند گھنٹے تو آرام کرلیں، لیکن میجر عزیز بھٹی وہاں ایک گھنٹہ سے زیادہ نہیں رُکے.... کرنل قریشی اور دوسرے دوستوں سے رخصت ہو کر میجر بھٹی واپس محاذ پر پہنچ گئے۔ جاتے ہی نائب صوبیدار شیر دل سے کہا، صاحب! اب آپ آرام کریں اور مَیں دشمن کی خبر لیتا ہوں۔ دشمن کی پوزیشن کا جائزہ لے کر فائر کا حکم دیا، مگر دشمن کی ایک مشین گن جو بالکل سامنے لگی تھی، کسی طرح تباہ نہیں ہو رہی تھی۔ اس لئے مسکین علی کو پار لانے کا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا۔ گولا باری دونوں جانب سے ہو رہی تھی۔ لانس نائیک محمود زخمی ہوگیا۔ ایمبولینس میں اسے سی ایم ایچ لاہور بھیج دیا گیا۔
آج دوسری طرف دشمن کا بہت زور تھا۔ اس محاذ پر دشمن کو تازہ کمک پہنچ رہی تھی۔ میجر عزیز بھٹی کا قیاس یہ تھا کہ دشمن نہر پر عارضی پُل بنانے کی کوشش کے گا، چنانچہ پٹڑی پر چڑھنے والی دشمن کی ہر پارٹی کا بڑی احتیاط سے خاتمہ کراتے اور پل کے تمام علاقے میں پٹرولنگ کا حکم دے رکھا تھا۔ خود بھی اس کی کڑی نگرانی کر رہے تھے۔ میجر بھٹی نے توپ خانے والوں کو پیغام دے کر مزید کمک کا مطالبہ کیا۔ آدھی رات کو پٹڑی پر گزر رہے تھے کہ ایمبولینس کی آواز آئی۔ گاڑی کے قریب گئے اور ڈرائیور سے پوچھا: انور! کیا بات ہے، گاڑی کیوں سٹارٹ کر رکھی ہے؟.... انور نے بتایا، صاحب! گاڑی کا سلف خراب ہے، جلدی سٹارٹ نہیں ہوتی ، اگر کوئی ایمرجنسی ہوگئی تو پھر زیادہ مشکل کا سامنا ہوگا اور اسے دھکیلنا پڑے گا....کہنے لگے، اگر کوئی ایمرجنسی ہوگئی تو اسے دھکیلنے والے بہت ہیں۔ اللہ کا آسرا چاہئے، اسے بند کر دیں اور اطمینان رکھیں“۔ انور نے گاڑی بند کر دی، پھر اس نے پوچھا: ”صاحب! اجازت دیں۔ تو مَیں صبح اسے ورکشاپ لے جاوں۔ اسے ٹھیک کرا لاوں“ کہنے لگے: ہاں ضرور لے جائیں، البتہ صبح دس بجے تک انتظار کر لیں۔ مبادا کوئی ایمرجنسی ہو جائے“۔ انور سوچتا رہا کہ یہ دس بجے کے انتظار میں کیا تُک ہے۔ ایمرجنسی تو کسی وقت بھی ہو سکتی ہے، بہرحال وہ خاموش رہا۔
پھر پٹڑی پر چڑھ کر دشمن کا جائزہ لیا۔ کوئی نقل و حرکت نہیں تھی۔ اُتر کر انور سے کہا: ایمبولینس سے سٹریچر نکالیں، مَیں ٹیسٹ کرتا ہوں، آیا اس پر نیند آتی ہے یا نہیں“۔ انور نے سٹریچر نکال کر دیا۔ اس پر لیٹ کر کہنے لگے، بھئی یہ تو بہت آرام دہ ہے۔ انور سے کہا: اب آپ بھی آرام کر لیں۔ اتنے میں اکرم کوارٹر ماسٹر چائے لے آیا۔ میجر عزیز بھٹی نے چائے کی پیالی ہاتھ میں لی، آنکھیں بند تھیں۔ چائے ختم کر کے پیالی اسے واپس دی۔ آنکھیں بدستور بند تھیں، متواتر جاگتے رہنے کے باعث آنکھیں سُوج چکی تھیں۔ جھپکنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی تھی اور بند کر کے کھولنا بھی تکلیف دہ تھا۔ اکرم چلا گیا تو لیٹ گئے۔ پانچ سات منٹ بعد اُٹھ بیٹھے اور انور سے کہا: سٹریچر گاڑی میں رکھ لیں۔
12 ستمبر کی سحر قریب تھی۔ پٹڑی پر چڑھ کر چکر لگایا۔ دشمن نفری اور سامان حرب کی کثرت کے باوجود رات بھر فوجی اہمیت کی کوئی کارروائی نہیں کر سکا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کی کمان میں نہر کے اس کنارے ہمارے جوانوں کی چوکسی اور ہوشیاری بے مثال تھی، دوسری وجہ یہ تھی کہ گزشتہ 6 دن کے مقابلوں میں اس محاذ پر دشمن کو اتنا زیادہ نقصان پہنچایا گیا تھا کہ اب وہ نفسیاتی طور پر مرعوب ہو کر ذہنی شکست قبول کر چکا تھا اور اسے پیش قدمی کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ برکی کے اس نازک ترین محاذ پر بھارت کی ایک بریگیڈ فوج کے مقابلے میں صوبیدار عالم زیب کی زیر قیادت 12 پنجاب کی ایک پلاٹون سمیت میجر عزیز بھٹی کی کمان میں صرف 148 جوان تھے ۔ ان 148 نفوس کے ساتھ انہوں نے بھارت کے ٹڈی دل لشکر کا ایک سو اڑتالیسگھنٹے تک ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنے تدبر، عسکری حکمت عملی اور بے پناہ شجاعت سے نہ صرف پہلے ہی روز دشمن کی یلغار کو روک دیا، اسے زبردست جانی نقصان پہنچایا۔ اس کا بے شمار سامان حرب تباہ کیا اور ان مٹھی بھر جان نثاروں کے ساتھ 6 دن اور راتیں مقابلہ کرتے ہوئے میجر عزیز بھٹی کی کمان میں اس محاذ پر صرف 11 جوان شہید ہوئے۔
میجر عزیز بھٹی کو پٹڑی پر پھرتے ہوئے برکی سے شمال کی سمت کھجور ایریا میں ایک پلاٹون کی نفری نہر کی جانب آتی دکھائی دی۔ وائرلیس سے میسج پاس کیا، فائر کرایا۔ اس کی زد میں آنے والے کچھ مر گئے اور کچھ بھاگ گئے۔ ہائی سکول کی طرف بھاگنے والوں پر گولے پھینکوائے۔ حوالدار نذیر سے کہا: ” اب برباد ہوگئے ہیں“۔ مارٹر او پی حوالدار اللہ دتہ کو بلایا، اسے کہا کہ وہ بھی جائزہ لے۔ اس نے جائزہ لے کر کہا، دشمن کی کوئی نقل و حرکت نظر نہیں آتی۔ سپیدئہ سحر نمودار ہو رہا تھا۔ میجر عزیز بھٹی پٹڑی سے نیچے اُتر آئے۔ امان خاں سپاہی سے پانی منگوا کر وضو کیا اور فجر کی نماز ادا کی۔ گرم پانی سے سر منہ دھویا۔ کئی دن بعد بالوں میں کنگھی کی، یہ ان کی زندگی کی آخری صبح تھی۔ وہ غیر شعوری طور پر کسی طویل سفر کی تیاری کر رہے تھے۔ اتنے میں صوبیدار غلام محمد آگئے۔ ان کے ساتھ مل کر چائے پی، پیالی رکھ کر اچانک غلام محمد کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہنے لگے: یار! آپ کو پامسٹری میں بڑی دسترس ہے۔ ذرامیرا ہاتھ تو دیکھیں۔ غلام محمد نے ہاتھ کا معائنہ کرنے کے بعد کہا: ” جناب! آپ کے ہاتھ کی لکیریں دل و دماغ کی اعلیٰ صلاحیتوں کی غماز ہیں، ہاتھ کے اُبھار بڑے نمایاں ہیں“....یہ باتیں تو اپنی جگہ درست ہیں۔ مَیں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں، آیا میری قسمت میں شہادت بھی ہے یا نہیں“؟....
صوبیدار غلام محمد نے دوبارہ دونوں ہاتھوں کا بغور مشاہدہ کیا اور پوری سنجیدگی سے کہہ دیا: ”جناب! آپ کی قسمت میں شہادت تو ہے، مگر وقت کے بارے میں کوئی صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا کہ شہادت عمر کے کس حصے میں نصیب ہوگی“۔ میجر بھٹی نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور کہا: ” صوبیدار صاحب! اگر آپ صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے، تو مَیں آپ کو بتا دوں۔ میری شہادت دور نہیں ہے“!....میجر عزیز بھٹی کی زندگی کا آخری سورج طلوع ہو چکا تھا۔ حوالدار نذیر کی پلاٹون کی بائیں جانب سے نہر کی پٹڑی کے اوپر آئے اور دور بین سے مشاہدہ کرنے لگے۔ دشمن کی طرف سے فائر آ رہا تھا۔ حوالدار میجر فیض علی نے جو پٹڑی کے نیچے تھا، میجر بھٹی سے کہا: ”سر! فائر آ رہا ہے، نیچے آجائیں۔ میجر صاحب نے جواب دیا: ”نیچے سے مشاہدہ نہیں ہو سکتا، بلاشبہ یہاں خطرہ ہے، لیکن موت و حیات اللہ کی طرف سے ہے“۔ اتنے میں برکی سے نہر کی طرف بڑھتے ہوئے چند ٹینک نظر آئے۔ ان کے پیچھے پیدل فوج بھی تھی۔ میجر بھٹی نے ڈگری دے کر فائر کرایا۔ گولا نشانے پر نہ پڑا۔ دوبارہ میسج پاس کیا۔ اس بار گولے ٹھیک نشانوں پر پڑے، بڑے خوش ہوئے،دشمن کے دو ٹینک تباہ ہوئے۔ توپ خانے کا انچارج کیپٹن انور فائر کروا رہا تھا، خوش ہو کر کہا: ”ویل ڈن انور“! یہ الفاظ ان کی زبان پر تھے کہ سامنے سے ایک گولا آیا جو ان کے قریب شیشم کے درخت کو قلم کرتا ہوا اینٹوں کے اس ڈھیر پر گرا جو مورچوں سے نکال کر وہاں اکٹھی کی ہوئی تھیں۔ میجر عزیز بھٹی اس جگہ سے بمشکل چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ پٹڑی پر گرد و غبار اٹھا۔ ساتھیوں نے سمجھا کہ میجر صاحب زخمی ہوگئے۔ وہ بھاگ کر آگے بڑھے، مگر میجر عزیز بھٹی کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ ساتھیوں سے کہا: ”آپ فوراً اپنی اپنی پوزیشن لے لیں۔ یہ گولا میرے لئے نہیں تھا۔ ابھی وہ گولا بھارت کے کارخانے میں تیار نہیں ہوا“۔ تقدیر میجر عزیز بھٹی کے ان الفاظ پر مسکرا رہی تھی۔ صبح کے ساڑھے نو بج رہے تھے۔ وہ دور بین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے ہی والے تھے کہ اسی لمحے ٹھوس فولاد کا ایک گولا ان کے سینے کو چیرتا ہوا، دائیں پھیپھڑے سے پار ہو چکا تھا۔ وہ منہ کے بل زمین پر گرے۔ حوالدار میجر فیض علی اور سپاہی امان اللہ دوڑ کر ان کے پاس پہنچے تو فرض شناسی اور شجاعت کا پیکر، قربانی اور ایثار کا مجسمہ اور عسکری تاریخ کا عظیم ہیرو اپنے فرض سے سبک دوش ہو رہا تھا.... فیض احمد فیض نے شاید ان کے لئے کہا تھا:
لو وصل کی ساعت آپہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کئے اور سینے کا در باز کیا



یہ خبر پرنٹ میں شائع کی گئی اس دن کی مکمل اخبار تک رسائی کے لئے یہاں کلک کریں
 
Last edited:

Mr Sane

Councller (250+ posts)
The pride of the Nations and the Defenders of Pakistan.

OUR REAL HEROES.

May Allah protect and develop the country for which they have given their precious lives.
 

zhohaq

Minister (2k+ posts)
I really hate doing this but I think people should know the whole truth about this matter...
TAJAMMUL.jpg

http://en.wikipedia.org/wiki/Tajammul_Hussain_Malik

Maj Genral Tajammul Hussain was one of the best soldiers the Army has produced.
As CO of the 4th Baloch he has a large role in saving Lahore from almost certain capture in the BRBB engagement.

A brilliant tactician who as the master mind behind the Battle of Hilli in 71(Which was studied in detail by the Indian Military commision.). He was also one of the last units to refuse to surrender and was captured instead. He was among a handful in his rank who volunteered to go to E.Pakistan during the war. Another major had to be brought in to officiate the surrender his brigade. Tajammul Husain was the only Brigadier to be promoted after serving in 1971 in E.Paksitan.
His Brigade received I nIshan e Haider and over 50 TJ, NJ.

He was jailed in 1980 for attempting to assasinate Zial Haq and the rest of the GHQ and was sentenced to 14 years RI and hard labor.
He was released by Gen Aslam Beg and had his military honors restored.
He wrote a very valuable book The Story of my Struggle, in 1991.

The book is out of print and not available on line but here is a snippit.
books


In the book he writes candidly about the Military mechanism of giving awards.

He later gave an Interview to Major AH Amin which was Published The Defense Journal, Sept 2001.
A Pakistani Publication very popular with the Armed forces. So this isnt a secret.
http://www.defencejournal.com/2001/september/tajammal.htm

You have asserted in your book that many gallantry awards were awarded in 1965 on the basis of citations and personal reasons rather than on actual ground realities. What is the basis of this viewpoint?

My personal experience of both the Indo-Pak wars of 1965 and 1971, has convinced me that it is very difficult to draw a distinction between the fighting capabilities of individuals while engaged in a collective action by giving awards to some and leaving others who had done equally well. In fact this creates more discontentment than fostering harmony amongst comrades in arms. For example, award of Nishan-i-Haider to Aziz Bhatti on Burki Sector was based on a completely fictitious citation. And I can say with confidence that at least eighty percent of the awards in both the wars were completely bogus.

In 1971 war I had commanded 205 Brigade in Hilli Bogra Sector. Major Akram, Nishan-i-Haider was in my brigade. That brigade received more than 50 SJs & TJs, the highest number of awards in that war. No one knows better than I do, that those awards were just dished out at random only because I was continuously being pressed from Eastern Command to send the list of gallantry awards. For, my brigade was the only brigade which continued to hold its position to the last days before the ceasefire and when the war ended the fighting was still going on in the streets of Bogra and I had refused to surrender.
 
Last edited:

frenes

Chief Minister (5k+ posts)
بہادر اور فرض شناس زندہ ہی نہیں قابل احترام بھی ہیں پی ٹی وی نے ان کی شہادت پر جو ڈرامہ پیش کیا تھا اسے دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ الله پاک ایسے لوگوں کو آغاز سے ہی بہت پاک باز ، فرمابردار اور بہادر رکھتا ہے اس لئے کے وہ آگے چل کر نشان منزل ہوں گے اور نشان منزل کبھی تاریک اور گدھلا نہیں ہوا کرتا وہ ہمیشہ روشن و چمکدار ہوتا ہے
 

Believer12

Chief Minister (5k+ posts)
My favourite Hero,,,,,,,,,,I remember one of my friend wanted to be Shaheed like him,,,Allah Tala listened his voice and last year he was also died in a same way as Aziz Bhatti Shaheed.God bless you both.