AbuOkasha
MPA (400+ posts)
Liquor sale increasing fast as checks fall off
KARACHI – Liquor sale is growing fast in the province, after the restriction of showing permit was done away with in 2005.
The increase in liquor sale can be gauged from the fact that Sindh has been generating an estimated Rs30.5 million per day under the pretext to accommodating the 1.2 million minority population.
As regards the sale of liquor, a basic rule is (that) a licence-holder must be a non-Muslim. In the case of Sindh, licences or permits are being issued in the names of non-Muslims but investment is of certain Muslim citizens. “Twenty-two new licences have been issued under the incumbent excise & taxation minister,” said a credible source, adding that his predecessors – Shabbir Ahmad Qaimkhani and Rauf Siddiqui – remained uninfluenced by political parties and refused to issue new permits.
“The majority of new licences have been issued to certain influential ministers and notables of the ruling PPP,” asserted the source.
At present, as many as 103 liquor centres are operating across Sindh and some 70 in Karachi alone. Former MPA Michael Javed said that liquor retailers in the city paid Rs2.3 billion in revenues a year to the provincial government, besides Rs1 billion by wholesale dealers.
According to a formal enumeration, about one million Christians, 80,000 Hindus, up to 3,000 Sikhs and 1,000 Parsis (Zoroastrians) comprise the minorities in Sindh.
Even if Karachi has a large concentration of minorities as compared to Lahore, liquor sale business in the port city does not exceed that of the city of Punjab. A day’s sale in Lahore is around Rs20.50million; Karachi is next to it.
سندھ میں12 لاکھ اقلیتی افرادکے لیے قائم103شراب خانوں سے یومیہ 30کروڑ50لاکھ روپے کی شراب فروخت ہورہی ہے ۔صوبائی وزیر آبکاری ومحصولات مکیش کمار چاؤلہ نے اپنے دور اقتدارمیں اب تک22نئے شراب خانے قائم کیے۔ صوبے میں سب سے زیادہ کراچی میں شراب خانے قائم ہیں جن کی تعداد70ہوچکی ہے۔سندھ حکومت شراب کی مد میں سالانہ ڈھائی ارب روپے محصولات وصول کرتی ہے۔ سندھ میں شراب فروشوں کی گروپ بندی کے سبب دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں شراب کی بوتل پر 400روپے اضافی وصول کیے جارہے ہیں۔ جبکہ پنجاب کے شہر لاہور میں شراب فروش یومیہ 20کروڑ50لاکھ روپے کی شراب فروخت کرتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سندھ میں 10 لاکھ عیسائی ، 80ہزار ہندوؤں، ڈھائی سے 3ہزار سکھ اور ایک ہزار پارسی مقیم ہیں ۔ اقلیتی رہنما مائیکل جاوید نے مذکورہ تعداد کودرست قرار دیتے ہوئے بتایا کہ شراب کے ہول سیلر مسلمانوں کو شراب فروخت کرنے کی مد میںمحکمہ ایکسائز کے وزرا سمیت انتظامیہ کو سالانہ ایک ارب روپے رشوت پہنچاتے ہیں، سندھ میں زیادہ تر شراب خانے سیاسی شخصیات کے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں سند ھ میں سب سے زیادہ شراب خانے نوازشریف دورحکومت میں قائم کیے گئے تھے ۔ ماضی میں شراب پینے والوں کو پی آر تھری پرمٹ کا اجرا کیا جاتا تھا ۔ گزشتہ برسوں میں پی آر تھری پرمٹ کے مطابق کراچی میں شراب پینے والوں کی تعداد 23ہزار تھی جبکہ محکمہ ایکسائز کواربوں روپے آمدنی ہورہی تھی۔اس کرپشن کو چھپانے کے لیے پی آر تھری پرمٹ کا اجرا بند کردیا گیا اور اب بغیر کسی شناخت کے شراب کی فروخت جاری ہے۔محکمہ ایکسائز کے قوانین کے مطابق صرف غیر مسلم شراب فروخت اور خرید سکتا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے ۔محکمہ ایکسائز کے ریکارڈ میں شراب خانوں کا مالک غیر مسلموں کو ظاہر کیا گیا ہے اور زیادہ تر شراب فروش مسلمان ہیں۔ذرائع کے مطابق سرحد اور بلوچستان کی شراب کا بڑا حصہ سندھ میں فروخت ہوتا ہے ،جس کی اصل وجہ شراب کی سرکاری قیمتوں میں واضح کمی ہے۔ سرحد اور بلوچستان میں شراب کی فی بوتل کی قیمت 350روپے ہے جبکہ وہی شراب سندھ میں750روپے میں فروخت ہوتی ہے ۔اسمگل ہوکر آنے والی شراب کی مد میں ایکسائز پولیس ماہانہ لاکھوں روپے رشوت بٹورتی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے صرف ایک شہر لاہور میں شراب فروش یومیہ 20کروڑ 50لاکھ روپے کی شراب فروخت کرتے ہیں۔
KARACHI – Liquor sale is growing fast in the province, after the restriction of showing permit was done away with in 2005.
The increase in liquor sale can be gauged from the fact that Sindh has been generating an estimated Rs30.5 million per day under the pretext to accommodating the 1.2 million minority population.
As regards the sale of liquor, a basic rule is (that) a licence-holder must be a non-Muslim. In the case of Sindh, licences or permits are being issued in the names of non-Muslims but investment is of certain Muslim citizens. “Twenty-two new licences have been issued under the incumbent excise & taxation minister,” said a credible source, adding that his predecessors – Shabbir Ahmad Qaimkhani and Rauf Siddiqui – remained uninfluenced by political parties and refused to issue new permits.
“The majority of new licences have been issued to certain influential ministers and notables of the ruling PPP,” asserted the source.
At present, as many as 103 liquor centres are operating across Sindh and some 70 in Karachi alone. Former MPA Michael Javed said that liquor retailers in the city paid Rs2.3 billion in revenues a year to the provincial government, besides Rs1 billion by wholesale dealers.
According to a formal enumeration, about one million Christians, 80,000 Hindus, up to 3,000 Sikhs and 1,000 Parsis (Zoroastrians) comprise the minorities in Sindh.
Even if Karachi has a large concentration of minorities as compared to Lahore, liquor sale business in the port city does not exceed that of the city of Punjab. A day’s sale in Lahore is around Rs20.50million; Karachi is next to it.
سندھ میں12 لاکھ اقلیتی افرادکے لیے قائم103شراب خانوں سے یومیہ 30کروڑ50لاکھ روپے کی شراب فروخت ہورہی ہے ۔صوبائی وزیر آبکاری ومحصولات مکیش کمار چاؤلہ نے اپنے دور اقتدارمیں اب تک22نئے شراب خانے قائم کیے۔ صوبے میں سب سے زیادہ کراچی میں شراب خانے قائم ہیں جن کی تعداد70ہوچکی ہے۔سندھ حکومت شراب کی مد میں سالانہ ڈھائی ارب روپے محصولات وصول کرتی ہے۔ سندھ میں شراب فروشوں کی گروپ بندی کے سبب دیگر صوبوں کی نسبت سندھ میں شراب کی بوتل پر 400روپے اضافی وصول کیے جارہے ہیں۔ جبکہ پنجاب کے شہر لاہور میں شراب فروش یومیہ 20کروڑ50لاکھ روپے کی شراب فروخت کرتے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سندھ میں 10 لاکھ عیسائی ، 80ہزار ہندوؤں، ڈھائی سے 3ہزار سکھ اور ایک ہزار پارسی مقیم ہیں ۔ اقلیتی رہنما مائیکل جاوید نے مذکورہ تعداد کودرست قرار دیتے ہوئے بتایا کہ شراب کے ہول سیلر مسلمانوں کو شراب فروخت کرنے کی مد میںمحکمہ ایکسائز کے وزرا سمیت انتظامیہ کو سالانہ ایک ارب روپے رشوت پہنچاتے ہیں، سندھ میں زیادہ تر شراب خانے سیاسی شخصیات کے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں سند ھ میں سب سے زیادہ شراب خانے نوازشریف دورحکومت میں قائم کیے گئے تھے ۔ ماضی میں شراب پینے والوں کو پی آر تھری پرمٹ کا اجرا کیا جاتا تھا ۔ گزشتہ برسوں میں پی آر تھری پرمٹ کے مطابق کراچی میں شراب پینے والوں کی تعداد 23ہزار تھی جبکہ محکمہ ایکسائز کواربوں روپے آمدنی ہورہی تھی۔اس کرپشن کو چھپانے کے لیے پی آر تھری پرمٹ کا اجرا بند کردیا گیا اور اب بغیر کسی شناخت کے شراب کی فروخت جاری ہے۔محکمہ ایکسائز کے قوانین کے مطابق صرف غیر مسلم شراب فروخت اور خرید سکتا ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے ۔محکمہ ایکسائز کے ریکارڈ میں شراب خانوں کا مالک غیر مسلموں کو ظاہر کیا گیا ہے اور زیادہ تر شراب فروش مسلمان ہیں۔ذرائع کے مطابق سرحد اور بلوچستان کی شراب کا بڑا حصہ سندھ میں فروخت ہوتا ہے ،جس کی اصل وجہ شراب کی سرکاری قیمتوں میں واضح کمی ہے۔ سرحد اور بلوچستان میں شراب کی فی بوتل کی قیمت 350روپے ہے جبکہ وہی شراب سندھ میں750روپے میں فروخت ہوتی ہے ۔اسمگل ہوکر آنے والی شراب کی مد میں ایکسائز پولیس ماہانہ لاکھوں روپے رشوت بٹورتی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے صرف ایک شہر لاہور میں شراب فروش یومیہ 20کروڑ 50لاکھ روپے کی شراب فروخت کرتے ہیں۔