میرے ادنیٰ خیال میں
این اے ١٢٢ کا فیصلہ کاظم علی ملک یعنی الیکشن ٹریبونل کے جج کا لکھا ہوا فیصلہ نہں تھا
بلکہ عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی آئ کے کسی فرد کا لکھا ہوا فیصلہ تھا - جس پر کاظم الی ملک نے صرف دستخط کیے
یہ بالکل ایسا ہی فیصلہ ہے جس طرح جنرل مشرف نے سپریم کورٹ سے فیصلہ کروایا تھا کہ وہ تین سال تک حکومت کر سکے گا اور اس کے پاس پارلیمنٹ کے اختیارات بھی ہوں گے اور اگر وہ چاہے تو آیین میں ترمیم بھی کر سکے گا
میں یہ بات کیوں کہ رہا ہوں - دلائل یہ ہیں :-
جج صاحب ضمیر کی باتیں کرتے ہیں - جو کہ انھیں نہں کرنی چاہے تھیں - اس لیے کہ عدالتیں فیصلے قانون اور انصاف کے اصولوں پر دیتی ہیں نا کہ ضمیر یا اخلاق کے اصولوں پر
جج صاحب نے اسی حلقہ سے نون لیگ کے ایم این اے اور ایم پی اے کی نشستیں تو برخاست کر دیں لیکن پی ٹی آئ کے ایم پی اے کی نشست کو بر قرار رکھا - یہ بات عقل سے بالاتر ہیں کہ الیکشن کمشن کے عملے نے پی تی آئ کے معاملے میں کوئی بے ضابطگی نہں کی
بالکل ایسے ہی جیسے دھرنے کے وقت یہ دکھایا گیا کہ باقی ملک کی تمام اسمبلیاں تو جعلی تھیں لیکن خیبر پختونخواہ کی اسمبلی جعلی نہں تھی
پھر نون لیگ کے ایاز صادق پر بیس لاکھ کا جرمانہ کر دیا
جبکہ الزام یہ تھا کہ الیکشن کمشن کے عملے سے بے ضابطگیاں ہویں
پنجابی میں کہتے ہیں " ڈگا کھوتے توں تے غصہ کمہار تے "
آخری بات - اسولاً آپ اس بات کو مانیں گے کہ دھاندلی نہں بیضابتگی کا فایدہ یا نقصان کسی ایک امیدوار کو نہں بلکہ سب امیدواروں کو یکساں ہوتا ہے
اس لیے متناسب فایدہ یا نقصان کے اصول کو سامنے رکھ کر جیتنے یا ہارنے والے امیدوار کا فیصلہ ہونا چاہے تھا
حد یہ کہ پی ٹی آئ کے جیتنے والے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کو کھلی چھٹی دے دی گئی اور اس کو زیرے بهث ہی نہں لایا گیا
لگتا ہے کھلا اثر و رسوخ اور پیسہ استمعال ہوا ہے
اور ایک پہلے سے لکھا ہوا فیصلہ جج صاحب کو تھما دیا گیا
خدا ہم پر رحم کرے