Freedomlover
Minister (2k+ posts)
دولتِ اسلامیہ کا متنازع کانفرنس پر حملے کا دعویٰ
دولتِ اسلامیہ نے اس واقعے کے ایک روز بعد کانفرنس پر حملے کی ذمہ داری اپنے ریڈیو ’البیان‘ میں خبرنامے کے دوران ان الفاظ میں قبول کی: ’ہماری خلافت کے دو سپاہیوں نے ڈیلس کے قریب کانفرنس پر حملہ کیا۔‘
خبرنامے میں کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’وہ پیغمبرِ اسلام کی منفی شبیہ پیش کر رہے تھے۔‘نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر پہلا موقع ہے کہ دولتِ اسلامیہ نے امریکی سرزمین پر حملے کا دعویٰ کیا ہے۔خیال رہے کہ دو افراد نے پیر کو پیغمبرِ اسلام کے خاکوں سے متعلق منعقد ہونے والی کانفرنس کے باہر فائرنگ کی تھی تاہم پولیس کی جوابی کارروائی میں دونوں حملہ آور ہلاک کر دیے گئے تھے۔دونوں حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ پہلے بھی دہشت گردی کے شبہے میں زیرِ تفتیش رہ چکے ہیں۔
’ایک حملہ آور سابقہ مشتبہ دہشت گرد‘
مشتبہ دہشت گرد
عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں حملہ آوروں میں سے ایک کا نام ایلٹن سمپسن تھا ان سے سنہ 2006 میں بھی تفتیش ہوئی تھی۔ 2010 میں ان پر صومالیہ جانے کے منصوبے پر غلط بیانی کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
خیال رہے کہ حکام کا کہنا ہے کہ ایلٹن سمپسن ایری زونا کے ایک فلیٹ میں نادر صوفی نامی شخص کے ساتھ رہ رہے تھے اور پولیس کی فائرنگ سے یہ دونوں ہلاک ہوئے۔عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایلٹن سمپسن سے سنہ 2006 میں بھی تفتیش ہوئی تھی اور 2010 میں ان پر صومالیہ جانے کے منصوبے پر غلط بیانی کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔ایلٹن سمپسن کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی علامات نہیں تھیں جن سے یہ معلوم ہوتا کہ وہ اس قسم کا حملہ کر نا چاہتے ہیں۔ان کے خاندان کے ایک شخص کی جانب سے وکیل نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ شدید صدمے میں ہیں اور ان کا دل بہت دکھی ہے۔ اس شخص کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
تفتیش اور نگرانی
پیر کو ایف بی آئی نے سمپسن اور صوفی کی رہائش گاہ کی تلاشی لی تھی۔امریکی میڈیا میں ایری زونا کی عدالت کی شائع شدہ دستاویزات کے مطابق سمپسن سنہ 2010 میں جہاد کی غرض سےصومالیہ جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔دستاویزات کے مطابق غلط بیانی کرنے پر عدالت نے ان پر 600 امریکی ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ انھیں قید کی سزا تو نہیں سنائی گئی تھی تاہم حکام کو تین سال تک ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے ناکافی شواہد ہیں کہ سمپسن کی غلط بیانی کا تعلق بین الاقوامی دہشت گردی سے ہے۔دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف بی آئی نے سمپسن سے سنہ 2006 میں اس شبے میں تفتیش کی تھی کہ ان کا تعلق ایک ایسے شخص سے ہے جو ایری زونا میں دہشت گردوں کا سیل قائم کرنے کے لیے کوشاں تھا۔یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سنہ 2009 میں سمپسن نے ایک مخبر کو اطلاع دی تھی کہ یہ وقت صومالیہ جانے کا ہے۔ انھوں نے کہا تھا: ’ہم اسے میدانِ جنگ بنانے جا رہے ہیں۔‘بعد میں سپمسن نے تسلیم کیا کہ وہ جنوبی افریقہ جانے کا ارادہ رکھتے تھے جہاں سے وہ پھر صومالیہ جاتے۔
اظہار کی آزادی نہیں بلکہ اسلام مخالف پروگرام
اس ایونٹ کے بارے میں مقامی افراد پریشانی کا شکار ہیں
جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے بی بی سی کے نامہ نگار علیم مقبول کا کہنا ہے کہ یہاں بہت سے لوگ ناراض ہیں کیونکہ کانفرنس کا انعقاد کرنے والے بھی باہر سے آئے تھے اور حملہ آور بھی۔ حملہ آور ایری زونا سے آئے تھے۔ان کا خیال ہے کہ ان کے سبب ان کی برادری توجہ کا مرکز بن گئی اور یہ ان میں تناؤ کا باعث ہوا ہے۔مقامی مسلمان اس کانفرنس پر فکر مند تھے کہ آخر اسے منعقد ہی کیوں کیا جا رہا ہے۔امریکی اسلامی کونسل کے عالیہ سالم نے بی بی سی کے علیم مقبول کو بتایا: ’اس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اسے پوری طرح سے نظر انداز کر دیا جائے اور ہم نے اپنی برادری کو اسے نظر انداز کرنے کی ترغیب دی۔ ہمارے پاس دوسرے اہم کام ہیں اور اس طرح کی چیزوں کے انعقاد اور اس طرح کے مجرموں کی آمد اور دہشت گردی کے واقعے سے ہماری برادری منقسم ہو جاتی ہے۔‘
امریکی تفتیشی ادارہ ایف بی آئی حملہ آوروں کے گھر کی تلاشی لے رہا ہے
یہ محض مقامی مسلمانوں کا خیال نہیں بلکہ دوسرے بہت سے لوگ اس سے پریشان ہیں کہ یہ جگہ تمام تر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ شہر کے میئر نے کہا کہ سینٹر کا اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ان باتوں نے منتظمین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اظہار کی آزادی آخر اظہار کی آزادی ہے لیکن بعض لوگ اس بات سے پریشان ہیں کہ ’یہ حقیقتاً اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ اسلام مخالف ایونٹ تھا۔‘
متنازع مقابلہ
اس مقابلے کا انعقاد قدامت پسند سیاسی گروپ امریکن فریڈم ڈیفنس انیشی ایٹو نے کیا تھا جو اپنے انتہائی سخت گیر اسلام مخالف موقف کے لیے جانا جاتا ہے اور اس نے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے پاس اسلامک سنٹر کی تعمیر کی بھی مخالفت کی تھی۔اس تنظیم کی سربراہ معروف متنازع بلاگر پامیلا گیلر ہیں۔ ان کا شمار اسلام مخالف گروہ میں کیا جاتا ہے۔ پامیلا گیلر کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں آزادیِ رائے پرتشدد حملے کی زد میں ہے۔ اس تقریب میں ڈنمارک کے انتہائی دائیں بازو کےسیاستدان گیرٹ ولڈرز بھی مقررین میں شامل تھے۔منتظمین نے مقابلے فاتح کے لیے دس ہزار امریکی ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/05/150505_dallas_attackers_court_document_hk

دولتِ اسلامیہ نے اس واقعے کے ایک روز بعد کانفرنس پر حملے کی ذمہ داری اپنے ریڈیو ’البیان‘ میں خبرنامے کے دوران ان الفاظ میں قبول کی: ’ہماری خلافت کے دو سپاہیوں نے ڈیلس کے قریب کانفرنس پر حملہ کیا۔‘
خبرنامے میں کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’وہ پیغمبرِ اسلام کی منفی شبیہ پیش کر رہے تھے۔‘نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر پہلا موقع ہے کہ دولتِ اسلامیہ نے امریکی سرزمین پر حملے کا دعویٰ کیا ہے۔خیال رہے کہ دو افراد نے پیر کو پیغمبرِ اسلام کے خاکوں سے متعلق منعقد ہونے والی کانفرنس کے باہر فائرنگ کی تھی تاہم پولیس کی جوابی کارروائی میں دونوں حملہ آور ہلاک کر دیے گئے تھے۔دونوں حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت ہوئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ پہلے بھی دہشت گردی کے شبہے میں زیرِ تفتیش رہ چکے ہیں۔
’ایک حملہ آور سابقہ مشتبہ دہشت گرد‘
مشتبہ دہشت گرد
عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں حملہ آوروں میں سے ایک کا نام ایلٹن سمپسن تھا ان سے سنہ 2006 میں بھی تفتیش ہوئی تھی۔ 2010 میں ان پر صومالیہ جانے کے منصوبے پر غلط بیانی کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔
خیال رہے کہ حکام کا کہنا ہے کہ ایلٹن سمپسن ایری زونا کے ایک فلیٹ میں نادر صوفی نامی شخص کے ساتھ رہ رہے تھے اور پولیس کی فائرنگ سے یہ دونوں ہلاک ہوئے۔عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ ایلٹن سمپسن سے سنہ 2006 میں بھی تفتیش ہوئی تھی اور 2010 میں ان پر صومالیہ جانے کے منصوبے پر غلط بیانی کرنے کا جرم ثابت ہوا تھا۔ایلٹن سمپسن کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی علامات نہیں تھیں جن سے یہ معلوم ہوتا کہ وہ اس قسم کا حملہ کر نا چاہتے ہیں۔ان کے خاندان کے ایک شخص کی جانب سے وکیل نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ شدید صدمے میں ہیں اور ان کا دل بہت دکھی ہے۔ اس شخص کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
تفتیش اور نگرانی
پیر کو ایف بی آئی نے سمپسن اور صوفی کی رہائش گاہ کی تلاشی لی تھی۔امریکی میڈیا میں ایری زونا کی عدالت کی شائع شدہ دستاویزات کے مطابق سمپسن سنہ 2010 میں جہاد کی غرض سےصومالیہ جانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔دستاویزات کے مطابق غلط بیانی کرنے پر عدالت نے ان پر 600 امریکی ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ انھیں قید کی سزا تو نہیں سنائی گئی تھی تاہم حکام کو تین سال تک ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس بات کے ناکافی شواہد ہیں کہ سمپسن کی غلط بیانی کا تعلق بین الاقوامی دہشت گردی سے ہے۔دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایف بی آئی نے سمپسن سے سنہ 2006 میں اس شبے میں تفتیش کی تھی کہ ان کا تعلق ایک ایسے شخص سے ہے جو ایری زونا میں دہشت گردوں کا سیل قائم کرنے کے لیے کوشاں تھا۔یہ بھی سامنے آیا ہے کہ سنہ 2009 میں سمپسن نے ایک مخبر کو اطلاع دی تھی کہ یہ وقت صومالیہ جانے کا ہے۔ انھوں نے کہا تھا: ’ہم اسے میدانِ جنگ بنانے جا رہے ہیں۔‘بعد میں سپمسن نے تسلیم کیا کہ وہ جنوبی افریقہ جانے کا ارادہ رکھتے تھے جہاں سے وہ پھر صومالیہ جاتے۔
اظہار کی آزادی نہیں بلکہ اسلام مخالف پروگرام
اس ایونٹ کے بارے میں مقامی افراد پریشانی کا شکار ہیں
جائے وقوعہ کا دورہ کرنے والے بی بی سی کے نامہ نگار علیم مقبول کا کہنا ہے کہ یہاں بہت سے لوگ ناراض ہیں کیونکہ کانفرنس کا انعقاد کرنے والے بھی باہر سے آئے تھے اور حملہ آور بھی۔ حملہ آور ایری زونا سے آئے تھے۔ان کا خیال ہے کہ ان کے سبب ان کی برادری توجہ کا مرکز بن گئی اور یہ ان میں تناؤ کا باعث ہوا ہے۔مقامی مسلمان اس کانفرنس پر فکر مند تھے کہ آخر اسے منعقد ہی کیوں کیا جا رہا ہے۔امریکی اسلامی کونسل کے عالیہ سالم نے بی بی سی کے علیم مقبول کو بتایا: ’اس کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ اسے پوری طرح سے نظر انداز کر دیا جائے اور ہم نے اپنی برادری کو اسے نظر انداز کرنے کی ترغیب دی۔ ہمارے پاس دوسرے اہم کام ہیں اور اس طرح کی چیزوں کے انعقاد اور اس طرح کے مجرموں کی آمد اور دہشت گردی کے واقعے سے ہماری برادری منقسم ہو جاتی ہے۔‘
امریکی تفتیشی ادارہ ایف بی آئی حملہ آوروں کے گھر کی تلاشی لے رہا ہے
یہ محض مقامی مسلمانوں کا خیال نہیں بلکہ دوسرے بہت سے لوگ اس سے پریشان ہیں کہ یہ جگہ تمام تر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ شہر کے میئر نے کہا کہ سینٹر کا اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ان باتوں نے منتظمین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ اظہار کی آزادی آخر اظہار کی آزادی ہے لیکن بعض لوگ اس بات سے پریشان ہیں کہ ’یہ حقیقتاً اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ اسلام مخالف ایونٹ تھا۔‘
متنازع مقابلہ
اس مقابلے کا انعقاد قدامت پسند سیاسی گروپ امریکن فریڈم ڈیفنس انیشی ایٹو نے کیا تھا جو اپنے انتہائی سخت گیر اسلام مخالف موقف کے لیے جانا جاتا ہے اور اس نے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے پاس اسلامک سنٹر کی تعمیر کی بھی مخالفت کی تھی۔اس تنظیم کی سربراہ معروف متنازع بلاگر پامیلا گیلر ہیں۔ ان کا شمار اسلام مخالف گروہ میں کیا جاتا ہے۔ پامیلا گیلر کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں آزادیِ رائے پرتشدد حملے کی زد میں ہے۔ اس تقریب میں ڈنمارک کے انتہائی دائیں بازو کےسیاستدان گیرٹ ولڈرز بھی مقررین میں شامل تھے۔منتظمین نے مقابلے فاتح کے لیے دس ہزار امریکی ڈالر کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2015/05/150505_dallas_attackers_court_document_hk
Last edited by a moderator: