سماجی روابط کی ویب سائٹس کے ذریعے جہاں اب ہر لفظ کو وسیع ابلاغ حاصل ہوگیا ہے وہیں، اس پر کی جانے والی گفتگو، خبر اور دیگر سمعی وبصری ابلاغ تک کی سند کو پرکھنے کے مسائل بھی درپیش ہیں، کیوں کہ کوئی بھی سیاسی، سماجی اور مذہبی مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جس پر مخالفانہ رائے اتنی شدومد سے موجود نہ ہو کہ ناظر اپنی اچھی خاصی رائے پر فکر کرنے پر مجبور ہوجائے۔
یہی وجہ ہے کہ مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈے کا مظاہرہ نہایت بھرپورطریقے سے کیا جاتا ہے اور کوئی بھی فرد محض ذاتی پسند وناپسند اور رنجش کی بنیاد پر اپنا سارا غصہ فیس بک اور ٹوئٹر پر یوں نکالتا ہے کہ اس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔
سماجی روابط کی ویب سائٹس کے مواد کے سچ اور جھوٹ ہونے سے قطع نظر ان کے اثرات، فوائد اور نقصانات بھی وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آرہے ہیں۔ ایک طرف کوئی بھی مظلوم اپنی آواز اٹھاکر انصاف حاصل کرلیتا ہے تو دوسری طرف متعصب افراد مختلف مذہبی، لسانی، سیاسی اور فرقہ ورانہ مسائل پر اشتعال انگیزی اپناتے نظر آتے ہیں، جس کے نتائج ظاہر ہے لوگوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ مسائل اتنے بڑھتے ہیں کہ پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
ایسا ہی افسوس ناک واقعہ ہندوستان میں پیش آیا، جہاں مغربی اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور دو درجن سے زاید لوگ اپن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بڑی تعداد کو علاقے سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ فوج اور پولیس کے ہزاروں اہل کاروں کی تعینات کر دیا گیا۔ سنگین کشیدگی کو دیکھتے ہوئے شرپسندوں کو فوری گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔
اس صورت حال کی محرک مبینہ طور پر ایک پاکستانی ویڈیو بنی، جس میں دو لڑکوں کو تشدد کرکے مارا جارہا تھا۔ شدت
پسند تنظیم بجرنگ دل نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ یہ واقعہ مظفر نگر کا ہے، اور اس میں مسلمانوں نے دو لڑکوں کو مار مار کر ہلاک کیا ہے۔ بجرنگ دل کی جانب سے اس ویڈیو کو فیس بک پر مشتہر کیا اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلا کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلایا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ دراصل 2010ء میں سیال کوٹ پاکستان میں پیش آئے اس افسوس ناک واقعے کی ویڈیو ہے، جس میں مشتعل ہجوم نے دو بھائیوں کو ڈاکو باور کرتے ہوئے ان پر اتنا تشدد کیا کہ وہ جان سے چلے گئے۔ یہ ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے، جسے شدت پسندوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے کے لیے استعمال کیا۔
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر کسی تصویر یا ویڈیو کا غلط بل کہ دروغ گوئی کے ذریعے استعمال اور اس کی تشہیر کا یہ ایک نہایت افسوس ناک استعمال سامنے آیا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف سماجی روابط کی ویب سائٹس آزادی اظہار کو بھرپور طریقے سے فروغ دے رہی ہیں تو دوسری طرف سماج دشمن عناصر انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے سماجی روابط سے جڑ ے تمام صارفین ایسے کسی بھی مواد پر رائے دینے اور اسے مشتہر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضرور کریں۔
http://www.express.pk/story/178414/
یہی وجہ ہے کہ مبالغہ آرائی اور پروپیگنڈے کا مظاہرہ نہایت بھرپورطریقے سے کیا جاتا ہے اور کوئی بھی فرد محض ذاتی پسند وناپسند اور رنجش کی بنیاد پر اپنا سارا غصہ فیس بک اور ٹوئٹر پر یوں نکالتا ہے کہ اس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔
سماجی روابط کی ویب سائٹس کے مواد کے سچ اور جھوٹ ہونے سے قطع نظر ان کے اثرات، فوائد اور نقصانات بھی وقت
گزرنے کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آرہے ہیں۔ ایک طرف کوئی بھی مظلوم اپنی آواز اٹھاکر انصاف حاصل کرلیتا ہے تو دوسری طرف متعصب افراد مختلف مذہبی، لسانی، سیاسی اور فرقہ ورانہ مسائل پر اشتعال انگیزی اپناتے نظر آتے ہیں، جس کے نتائج ظاہر ہے لوگوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ مسائل اتنے بڑھتے ہیں کہ پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
ایسا ہی افسوس ناک واقعہ ہندوستان میں پیش آیا، جہاں مغربی اترپردیش کے شہر مظفر نگر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور دو درجن سے زاید لوگ اپن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، بڑی تعداد کو علاقے سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ فوج اور پولیس کے ہزاروں اہل کاروں کی تعینات کر دیا گیا۔ سنگین کشیدگی کو دیکھتے ہوئے شرپسندوں کو فوری گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا۔
اس صورت حال کی محرک مبینہ طور پر ایک پاکستانی ویڈیو بنی، جس میں دو لڑکوں کو تشدد کرکے مارا جارہا تھا۔ شدت
پسند تنظیم بجرنگ دل نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ یہ واقعہ مظفر نگر کا ہے، اور اس میں مسلمانوں نے دو لڑکوں کو مار مار کر ہلاک کیا ہے۔ بجرنگ دل کی جانب سے اس ویڈیو کو فیس بک پر مشتہر کیا اور اسے بڑے پیمانے پر پھیلا کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلایا گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ دراصل 2010ء میں سیال کوٹ پاکستان میں پیش آئے اس افسوس ناک واقعے کی ویڈیو ہے، جس میں مشتعل ہجوم نے دو بھائیوں کو ڈاکو باور کرتے ہوئے ان پر اتنا تشدد کیا کہ وہ جان سے چلے گئے۔ یہ ویڈیو یو ٹیوب پر موجود ہے، جسے شدت پسندوں نے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال دلانے کے لیے استعمال کیا۔
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر کسی تصویر یا ویڈیو کا غلط بل کہ دروغ گوئی کے ذریعے استعمال اور اس کی تشہیر کا یہ ایک نہایت افسوس ناک استعمال سامنے آیا ہے، جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف سماجی روابط کی ویب سائٹس آزادی اظہار کو بھرپور طریقے سے فروغ دے رہی ہیں تو دوسری طرف سماج دشمن عناصر انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے سماجی روابط سے جڑ ے تمام صارفین ایسے کسی بھی مواد پر رائے دینے اور اسے مشتہر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضرور کریں۔
http://www.express.pk/story/178414/