azrana
MPA (400+ posts)
ایک تازہ عالمی سروے کے مطابق پاکستان کی چوالیس فیصد آبادی کو خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی غذا تبدیل کرنا پڑی ہے۔
برطانیہ کے غیر سرکاری امدادی ادارے آکسفیم کی جانب سے کرائے گئے اس سروے کے نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے ستاون فیصد افراد بوجوہ وہ خوراک نہیں کھا سکتے جو دو سال پہلے کھایا کرتے تھے۔
ہمارے نامہ نگار احمد رضا کے مطابق، اس سروے کے لیے پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے سترہ ملکوں میں سولہ ہزار چار سو اکیس افراد سے ان کی رائے معلوم کی گئی جس کے نتائج کی بنیاد پر یہ رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔
آکسفیم نے اس سروے کے لیے بین الاقوامی تحقیقی ادارے گلوب سکین کی خدمات حاصل کیں۔
سروے کے مطابق پاکستان میں پینتالیس فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سیر ہو کر کھاتے ہیں۔ بیالیس فیصد کے مطابق انہیں اکثر کافی خوراک دستیاب ہوتی ہے۔ نو فیصد کے بقول انہیں بعض اوقات پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے جبکہ دو فیصد کے مطابق انہیں شاذ و نادر ہی پیٹ بھر روٹی میسر آتی ہے۔
پاکستان کے ستاون فیصد افراد بوجوہ وہ خوراک نہیں کھا سکتے جو دو سال پہلے کھایا کرتے تھے: سروے رپورٹ
سروے کے مطابق اٹھائیس فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ قدرتی آفات مثلاً سیلاب، قحط اور طوفان وغیرہ خوراک کی دستیابی میں رکاوٹ کی بڑی وجہ ہیں جبکہ چھبیس فیصد کے بقول اس کی وجہ حکومتی پالیسیاں ہیں۔ نو فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ کاشتکاروں کو ضروری آلات، کھاد اور بیج نہ ملنے کے باعث خوراک ضرورت سے کم ہے جبکہ مزید نو فیصد کے خیال میں بڑے سرمایہ دار، زمیندار اور تاجر اس کے ذمہ دار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اکاون فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ان کی اور ان کے اہل خانہ کی پیٹ پوجا کے لیے ان کی سب سے بڑی تشویش خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ اٹھائیس فیصد کے بقول خوراک کی عدم دستیابی ان کے لیے سب سے بڑی فکر ہے۔
سروے میں ان ملکوں میں سب سے مقبول کھانوں کی تفصیل بھی بتائی گئی ہے جس کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ سبزیاں شوق سے کھائی جاتی ہیں اور اس کے بعد گوشت اور تیسرے نمبر پر چکن بریانی سب سے زیادہ مقبول ہے۔
سروے کے مطابق پاستا دنیا کی سب سے مقبول ترین غذا ہے۔
Zulfiqar Rana