How state created a monster?

Sach Bolo

Senator (1k+ posts)
آج اس کہانی کو پورے تیس سال ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری 1994 کی ایک شام جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز سینئیر ایک ٹی وی شو میں مدعو تھے۔ انٹرویو کے دوران شہباز نے تھوڑا سا حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ان کے کیریر کا آخری سال ہے اور اس سال چیمپئینز ٹرافی اور ورلڈ کپ دونوں منعقد ہونا ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میری کپتانی میں یہ دونوں ٹورنامنٹ جیتے۔ جس نے بھی یہ فقرہ سنا وہ ہنس دیا۔ پاکستان کو آخری بار ورلڈ کپ جیتے بارہ سال اور چیمپئنز ٹرافی جیتے چودہ سال ہوچکے تھے۔ دنیا میں ہالینڈ جرمنی اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ اولمپکس میں کچھ عرصہ پہلے کافی مار پڑی تھی بلکہ ایشین گیمز میں ہمیں کوریا نے لمبا لٹا دیا تھا۔ ہاکی ٹیم کے حالات کافی برے تھے ایسے میں کپتان کی ایسی خواہش پر یہی کہا جاسکتا تھا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس کے بعد اگلے دس مہینے میں جو کچھ ہوا وہ دنیائے ہاکی کا ایک ایسا باب ہے جو کسی اچھے ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک اس پر درجن بھر فلمیں بن چکی ہوتیں۔ پاکستان نے شہباز کی قیادت میں دونوں ٹورنامنٹ جیتے اور ان مقابلوں میں پاکستان نے ایسی ہاکی کھیلی کہ بتانے اور دیکھنے میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ راقم ان تمام واقعات کا عینی شاہد ہے۔ شہباز کے انٹرویو کا بھی اور پھر دونوں بار اسے ٹرافیاں اٹھائے دیکھنے کا بھی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے کہ جسے سنانے کے لیے فلمیں ناول ڈرامے کم پڑ جائیں۔ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نویں پنلٹی سٹروک پر جیتا۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جرمنی کو اور فائنل میں ہالینڈ کو سٹروکس پر ہرایا۔ منصور نے بوولینڈر کا پنلٹی سٹروک روکا۔ شہباز کی مس ہٹ آہستہ آہستہ لڑکھتی گول میں چلی گئی۔ جرمنی کا گول ایمپائر نے ریجیکٹ کردیا۔ ایسی سنسنی خیز کہانیاں کہ بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے یہ کہانی کبھی پہلے سنی ہے؟ ۔ کیوں نہیں سنی۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کا ایک ایک لمحہ ہمیں یاد ہے لیکن یہ کہانی کسی نے کیوں نہیں سنائی۔ کسی نے اس پر کوئی ڈاکو منٹری کیوں نہیں بنائی۔ شہباز سینئیر، خواجہ جنید، وسیم فیروز، کامران اشرف یہ سب لوگ زندہ ہیں۔ یہ خود کیوں نہیں یہ کہانی سناتے؟ یہ اس ملک کی سب سے تھرلنگ سپورٹس سٹوری ہے لیکن اسکا کوئی کہیں ذکر نہیں۔ دنیا پروجیکشن کا کھیل ہے۔ یہاں جو خود کو اچھی طرح بیچ لے وہی کامیاب ہے۔ شہباز سینئیر ایک چھوٹے سے آفس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے۔ باقی لوگ کہیں کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم کو کوچ کرتے ہیں یا اب اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایڈمنسٹریشن لیول پر موو کرچکے ہیں۔ کوئی ذکر نہیں کرتا ایک ایسے سال کا جس کے شروع میں ایک آدمی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ وہ دنیا فتح کرنا چاہتا ہے اور پھر اس دھان پان سے آدمی نے جو کہا وہ کردکھایا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس انٹرویو کی وڈیو ملے تو پتہ چلے کہ ایگزیکٹ کس لمحے پر شہباز نے وہ بات کی تھی کیونکہ قبولیت کا ایسا لمحہ کم از کم میری نظر سے تو دوبارہ نہیں گزرا۔



GIpjq-Sr-Xw-AAClq-P.jpg
 
Last edited by a moderator:

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
آج اس کہانی کو پورے تیس سال ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری 1994 کی ایک شام جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز سینئیر ایک ٹی وی شو میں مدعو تھے۔ انٹرویو کے دوران شہباز نے تھوڑا سا حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ان کے کیریر کا آخری سال ہے اور اس سال چیمپئینز ٹرافی اور ورلڈ کپ دونوں منعقد ہونا ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میری کپتانی میں یہ دونوں ٹورنامنٹ جیتے۔ جس نے بھی یہ فقرہ سنا وہ ہنس دیا۔ پاکستان کو آخری بار ورلڈ کپ جیتے بارہ سال اور چیمپئنز ٹرافی جیتے چودہ سال ہوچکے تھے۔ دنیا میں ہالینڈ جرمنی اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ اولمپکس میں کچھ عرصہ پہلے کافی مار پڑی تھی بلکہ ایشین گیمز میں ہمیں کوریا نے لمبا لٹا دیا تھا۔ ہاکی ٹیم کے حالات کافی برے تھے ایسے میں کپتان کی ایسی خواہش پر یہی کہا جاسکتا تھا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس کے بعد اگلے دس مہینے میں جو کچھ ہوا وہ دنیائے ہاکی کا ایک ایسا باب ہے جو کسی اچھے ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک اس پر درجن بھر فلمیں بن چکی ہوتیں۔ پاکستان نے شہباز کی قیادت میں دونوں ٹورنامنٹ جیتے اور ان مقابلوں میں پاکستان نے ایسی ہاکی کھیلی کہ بتانے اور دیکھنے میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ راقم ان تمام واقعات کا عینی شاہد ہے۔ شہباز کے انٹرویو کا بھی اور پھر دونوں بار اسے ٹرافیاں اٹھائے دیکھنے کا بھی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے کہ جسے سنانے کے لیے فلمیں ناول ڈرامے کم پڑ جائیں۔ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نویں پنلٹی سٹروک پر جیتا۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جرمنی کو اور فائنل میں ہالینڈ کو سٹروکس پر ہرایا۔ منصور نے بوولینڈر کا پنلٹی سٹروک روکا۔ شہباز کی مس ہٹ آہستہ آہستہ لڑکھتی گول میں چلی گئی۔ جرمنی کا گول ایمپائر نے ریجیکٹ کردیا۔ ایسی سنسنی خیز کہانیاں کہ بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے یہ کہانی کبھی پہلے سنی ہے؟ ۔ کیوں نہیں سنی۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کا ایک ایک لمحہ ہمیں یاد ہے لیکن یہ کہانی کسی نے کیوں نہیں سنائی۔ کسی نے اس پر کوئی ڈاکو منٹری کیوں نہیں بنائی۔ شہباز سینئیر، خواجہ جنید، وسیم فیروز، کامران اشرف یہ سب لوگ زندہ ہیں۔ یہ خود کیوں نہیں یہ کہانی سناتے؟ یہ اس ملک کی سب سے تھرلنگ سپورٹس سٹوری ہے لیکن اسکا کوئی کہیں ذکر نہیں۔ دنیا پروجیکشن کا کھیل ہے۔ یہاں جو خود کو اچھی طرح بیچ لے وہی کامیاب ہے۔ شہباز سینئیر ایک چھوٹے سے آفس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے۔ باقی لوگ کہیں کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم کو کوچ کرتے ہیں یا اب اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایڈمنسٹریشن لیول پر موو کرچکے ہیں۔ کوئی ذکر نہیں کرتا ایک ایسے سال کا جس کے شروع میں ایک آدمی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ وہ دنیا فتح کرنا چاہتا ہے اور پھر اس دھان پان سے آدمی نے جو کہا وہ کردکھایا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس انٹرویو کی وڈیو ملے تو پتہ چلے کہ ایگزیکٹ کس لمحے پر شہباز نے وہ بات کی تھی کیونکہ قبولیت کا ایسا لمحہ کم از کم میری نظر سے تو دوبارہ نہیں گزرا۔



GIpjq-Sr-Xw-AAClq-P.jpg
بجلی کا بل جمع کروا دیا ہے؟
 

Azpir

MPA (400+ posts)
آج اس کہانی کو پورے تیس سال ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری 1994 کی ایک شام جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز سینئیر ایک ٹی وی شو میں مدعو تھے۔ انٹرویو کے دوران شہباز نے تھوڑا سا حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ان کے کیریر کا آخری سال ہے اور اس سال چیمپئینز ٹرافی اور ورلڈ کپ دونوں منعقد ہونا ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میری کپتانی میں یہ دونوں ٹورنامنٹ جیتے۔ جس نے بھی یہ فقرہ سنا وہ ہنس دیا۔ پاکستان کو آخری بار ورلڈ کپ جیتے بارہ سال اور چیمپئنز ٹرافی جیتے چودہ سال ہوچکے تھے۔ دنیا میں ہالینڈ جرمنی اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ اولمپکس میں کچھ عرصہ پہلے کافی مار پڑی تھی بلکہ ایشین گیمز میں ہمیں کوریا نے لمبا لٹا دیا تھا۔ ہاکی ٹیم کے حالات کافی برے تھے ایسے میں کپتان کی ایسی خواہش پر یہی کہا جاسکتا تھا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس کے بعد اگلے دس مہینے میں جو کچھ ہوا وہ دنیائے ہاکی کا ایک ایسا باب ہے جو کسی اچھے ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک اس پر درجن بھر فلمیں بن چکی ہوتیں۔ پاکستان نے شہباز کی قیادت میں دونوں ٹورنامنٹ جیتے اور ان مقابلوں میں پاکستان نے ایسی ہاکی کھیلی کہ بتانے اور دیکھنے میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ راقم ان تمام واقعات کا عینی شاہد ہے۔ شہباز کے انٹرویو کا بھی اور پھر دونوں بار اسے ٹرافیاں اٹھائے دیکھنے کا بھی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے کہ جسے سنانے کے لیے فلمیں ناول ڈرامے کم پڑ جائیں۔ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نویں پنلٹی سٹروک پر جیتا۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جرمنی کو اور فائنل میں ہالینڈ کو سٹروکس پر ہرایا۔ منصور نے بوولینڈر کا پنلٹی سٹروک روکا۔ شہباز کی مس ہٹ آہستہ آہستہ لڑکھتی گول میں چلی گئی۔ جرمنی کا گول ایمپائر نے ریجیکٹ کردیا۔ ایسی سنسنی خیز کہانیاں کہ بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے یہ کہانی کبھی پہلے سنی ہے؟ ۔ کیوں نہیں سنی۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کا ایک ایک لمحہ ہمیں یاد ہے لیکن یہ کہانی کسی نے کیوں نہیں سنائی۔ کسی نے اس پر کوئی ڈاکو منٹری کیوں نہیں بنائی۔ شہباز سینئیر، خواجہ جنید، وسیم فیروز، کامران اشرف یہ سب لوگ زندہ ہیں۔ یہ خود کیوں نہیں یہ کہانی سناتے؟ یہ اس ملک کی سب سے تھرلنگ سپورٹس سٹوری ہے لیکن اسکا کوئی کہیں ذکر نہیں۔ دنیا پروجیکشن کا کھیل ہے۔ یہاں جو خود کو اچھی طرح بیچ لے وہی کامیاب ہے۔ شہباز سینئیر ایک چھوٹے سے آفس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے۔ باقی لوگ کہیں کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم کو کوچ کرتے ہیں یا اب اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایڈمنسٹریشن لیول پر موو کرچکے ہیں۔ کوئی ذکر نہیں کرتا ایک ایسے سال کا جس کے شروع میں ایک آدمی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ وہ دنیا فتح کرنا چاہتا ہے اور پھر اس دھان پان سے آدمی نے جو کہا وہ کردکھایا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس انٹرویو کی وڈیو ملے تو پتہ چلے کہ ایگزیکٹ کس لمحے پر شہباز نے وہ بات کی تھی کیونکہ قبولیت کا ایسا لمحہ کم از کم میری نظر سے تو دوبارہ نہیں گزرا۔



GIpjq-Sr-Xw-AAClq-P.jpg
Chal be bhosray
 

Ozmate

Councller (250+ posts)
آج اس کہانی کو پورے تیس سال ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری 1994 کی ایک شام جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز سینئیر ایک ٹی وی شو میں مدعو تھے۔ انٹرویو کے دوران شہباز نے تھوڑا سا حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ان کے کیریر کا آخری سال ہے اور اس سال چیمپئینز ٹرافی اور ورلڈ کپ دونوں منعقد ہونا ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میری کپتانی میں یہ دونوں ٹورنامنٹ جیتے۔ جس نے بھی یہ فقرہ سنا وہ ہنس دیا۔ پاکستان کو آخری بار ورلڈ کپ جیتے بارہ سال اور چیمپئنز ٹرافی جیتے چودہ سال ہوچکے تھے۔ دنیا میں ہالینڈ جرمنی اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ اولمپکس میں کچھ عرصہ پہلے کافی مار پڑی تھی بلکہ ایشین گیمز میں ہمیں کوریا نے لمبا لٹا دیا تھا۔ ہاکی ٹیم کے حالات کافی برے تھے ایسے میں کپتان کی ایسی خواہش پر یہی کہا جاسکتا تھا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس کے بعد اگلے دس مہینے میں جو کچھ ہوا وہ دنیائے ہاکی کا ایک ایسا باب ہے جو کسی اچھے ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک اس پر درجن بھر فلمیں بن چکی ہوتیں۔ پاکستان نے شہباز کی قیادت میں دونوں ٹورنامنٹ جیتے اور ان مقابلوں میں پاکستان نے ایسی ہاکی کھیلی کہ بتانے اور دیکھنے میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ راقم ان تمام واقعات کا عینی شاہد ہے۔ شہباز کے انٹرویو کا بھی اور پھر دونوں بار اسے ٹرافیاں اٹھائے دیکھنے کا بھی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے کہ جسے سنانے کے لیے فلمیں ناول ڈرامے کم پڑ جائیں۔ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نویں پنلٹی سٹروک پر جیتا۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جرمنی کو اور فائنل میں ہالینڈ کو سٹروکس پر ہرایا۔ منصور نے بوولینڈر کا پنلٹی سٹروک روکا۔ شہباز کی مس ہٹ آہستہ آہستہ لڑکھتی گول میں چلی گئی۔ جرمنی کا گول ایمپائر نے ریجیکٹ کردیا۔ ایسی سنسنی خیز کہانیاں کہ بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے یہ کہانی کبھی پہلے سنی ہے؟ ۔ کیوں نہیں سنی۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کا ایک ایک لمحہ ہمیں یاد ہے لیکن یہ کہانی کسی نے کیوں نہیں سنائی۔ کسی نے اس پر کوئی ڈاکو منٹری کیوں نہیں بنائی۔ شہباز سینئیر، خواجہ جنید، وسیم فیروز، کامران اشرف یہ سب لوگ زندہ ہیں۔ یہ خود کیوں نہیں یہ کہانی سناتے؟ یہ اس ملک کی سب سے تھرلنگ سپورٹس سٹوری ہے لیکن اسکا کوئی کہیں ذکر نہیں۔ دنیا پروجیکشن کا کھیل ہے۔ یہاں جو خود کو اچھی طرح بیچ لے وہی کامیاب ہے۔ شہباز سینئیر ایک چھوٹے سے آفس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے۔ باقی لوگ کہیں کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم کو کوچ کرتے ہیں یا اب اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایڈمنسٹریشن لیول پر موو کرچکے ہیں۔ کوئی ذکر نہیں کرتا ایک ایسے سال کا جس کے شروع میں ایک آدمی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ وہ دنیا فتح کرنا چاہتا ہے اور پھر اس دھان پان سے آدمی نے جو کہا وہ کردکھایا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس انٹرویو کی وڈیو ملے تو پتہ چلے کہ ایگزیکٹ کس لمحے پر شہباز نے وہ بات کی تھی کیونکہ قبولیت کا ایسا لمحہ کم از کم میری نظر سے تو دوبارہ نہیں گزرا۔



GIpjq-Sr-Xw-AAClq-P.jpg
Lol....if Shahbaz Senior had been in politics today and especially if he has joined pti, you would never be his sympathiser... you are a hypocrite person.

BTW, fyi, Shahbaz Senior is PTI supporter and especially his family is very well in politics.
 

Sach Bolo

Senator (1k+ posts)
Lol....if Shahbaz Senior had been in politics today and especially if he has joined pti, you would never be his sympathiser... you are a hypocrite person.

BTW, fyi, Shahbaz Senior is PTI supporter and especially his family is very well in politics.


is that what you got out of this? no wonder you are a Dumb and Duffer cannibalizing yourself in search of "khamosh mujahideen" 🤣
 

Modest

Chief Minister (5k+ posts)
آج اس کہانی کو پورے تیس سال ہوگئے ہیں۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے فروری 1994 کی ایک شام جب پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان شہباز سینئیر ایک ٹی وی شو میں مدعو تھے۔ انٹرویو کے دوران شہباز نے تھوڑا سا حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ ان کے کیریر کا آخری سال ہے اور اس سال چیمپئینز ٹرافی اور ورلڈ کپ دونوں منعقد ہونا ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاکستان میری کپتانی میں یہ دونوں ٹورنامنٹ جیتے۔ جس نے بھی یہ فقرہ سنا وہ ہنس دیا۔ پاکستان کو آخری بار ورلڈ کپ جیتے بارہ سال اور چیمپئنز ٹرافی جیتے چودہ سال ہوچکے تھے۔ دنیا میں ہالینڈ جرمنی اور آسٹریلیا کا راج تھا۔ اولمپکس میں کچھ عرصہ پہلے کافی مار پڑی تھی بلکہ ایشین گیمز میں ہمیں کوریا نے لمبا لٹا دیا تھا۔ ہاکی ٹیم کے حالات کافی برے تھے ایسے میں کپتان کی ایسی خواہش پر یہی کہا جاسکتا تھا کہ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس کے بعد اگلے دس مہینے میں جو کچھ ہوا وہ دنیائے ہاکی کا ایک ایسا باب ہے جو کسی اچھے ملک میں ہوا ہوتا تو اب تک اس پر درجن بھر فلمیں بن چکی ہوتیں۔ پاکستان نے شہباز کی قیادت میں دونوں ٹورنامنٹ جیتے اور ان مقابلوں میں پاکستان نے ایسی ہاکی کھیلی کہ بتانے اور دیکھنے میں زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ راقم ان تمام واقعات کا عینی شاہد ہے۔ شہباز کے انٹرویو کا بھی اور پھر دونوں بار اسے ٹرافیاں اٹھائے دیکھنے کا بھی۔ یہ ایک ایسی داستان ہے کہ جسے سنانے کے لیے فلمیں ناول ڈرامے کم پڑ جائیں۔ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل نویں پنلٹی سٹروک پر جیتا۔ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جرمنی کو اور فائنل میں ہالینڈ کو سٹروکس پر ہرایا۔ منصور نے بوولینڈر کا پنلٹی سٹروک روکا۔ شہباز کی مس ہٹ آہستہ آہستہ لڑکھتی گول میں چلی گئی۔ جرمنی کا گول ایمپائر نے ریجیکٹ کردیا۔ ایسی سنسنی خیز کہانیاں کہ بت کدے میں بیاں کروں تو صنم پکارے ہری ہری۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے یہ کہانی کبھی پہلے سنی ہے؟ ۔ کیوں نہیں سنی۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کا ایک ایک لمحہ ہمیں یاد ہے لیکن یہ کہانی کسی نے کیوں نہیں سنائی۔ کسی نے اس پر کوئی ڈاکو منٹری کیوں نہیں بنائی۔ شہباز سینئیر، خواجہ جنید، وسیم فیروز، کامران اشرف یہ سب لوگ زندہ ہیں۔ یہ خود کیوں نہیں یہ کہانی سناتے؟ یہ اس ملک کی سب سے تھرلنگ سپورٹس سٹوری ہے لیکن اسکا کوئی کہیں ذکر نہیں۔ دنیا پروجیکشن کا کھیل ہے۔ یہاں جو خود کو اچھی طرح بیچ لے وہی کامیاب ہے۔ شہباز سینئیر ایک چھوٹے سے آفس میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ہے۔ باقی لوگ کہیں کسی ڈپارٹمنٹ کی ٹیم کو کوچ کرتے ہیں یا اب اپنے ڈپارٹمنٹ میں ایڈمنسٹریشن لیول پر موو کرچکے ہیں۔ کوئی ذکر نہیں کرتا ایک ایسے سال کا جس کے شروع میں ایک آدمی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ وہ دنیا فتح کرنا چاہتا ہے اور پھر اس دھان پان سے آدمی نے جو کہا وہ کردکھایا۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اس انٹرویو کی وڈیو ملے تو پتہ چلے کہ ایگزیکٹ کس لمحے پر شہباز نے وہ بات کی تھی کیونکہ قبولیت کا ایسا لمحہ کم از کم میری نظر سے تو دوبارہ نہیں گزرا۔



GIpjq-Sr-Xw-AAClq-P.jpg
Ok teri dihari lag gayi dangar patwari
 

Ozmate

Councller (250+ posts)
is that what you got out of this? no wonder you are a Dumb and Duffer cannibalizing yourself in search of "khamosh mujahideen" 🤣
I don't believe in khmosh Mujahideen... Mujahid is never quiet and never quit the hope...I know your standards so don't teach me..
 

pak_aus

Senator (1k+ posts)
ye begerat jhoot bol raha os waqat pk ki hockey apny peek per thi es se pechly cup mn pk ne holland se final mn shakast khai thi taq buhat mazboot team huva kerti thi hockey ki pk ki sabi supports a1 thi 90s mn