Aamir Malik
Councller (250+ posts)
Re: Hassan Nisar Real Face
اگر آپ مسلمان ہوتو ہرحال ميں آپکو اللہ اور اسکےرسول کے احکامات ماننے ہيں- اپنی توجيح نہيں دينی چاہيے-اور شاعروں کے بارے ميں قرآن کيا کہتا ہےذرا پڑھ ليں -
پہلے کہا گیا عرضِ مکرر ہے کہ حسن نِثار کی حضرت علامہ کے بارے رائے سے بندہ نہ صِرف کبھی مُتفق نہیں رہا بلکہ اِس کشمکش کا بھی شِکار ہے کہ آج جو باتیں حسن نثار کرتا ہے حضرتِ علامہ ایسے قلندر نے اکثر ایک صدی پہلے اپنے طریقے سے کہیں۔ مُلائیت، خانقاہیِ نطام، شہنشاہیت، اور جہالت کے جمود میں ٹھٹھرتی مِلت کو اور اُسکے کرتاؤں دھرتاؤں کو حسن نِثار سے کہیں زیادہ رگیدا۔ یہ ہمارا سماجی نقص ہے یا پرستش کی پُرانی خُو کہ ہم اپنے محبوب اِنسانوں کو فرشتہ دیکھنا چاہتے ہیں اور مخالفین کو شیطان جبکہ اِنسان اِن دونوں کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔
حسن نِثار کا قاری ہونے کے بِناء پر میں اُسکے کُچھ خیالات کی تائید نہیں کر سکتا لیکن خیالات کی اکثریت سے متفق ہوں جِس کی وجہ مدینۃ العلم کی حصولِ علم کیلئے چین تک چلے جانے اور باب العلم کی کہی اِس بات کو سینے کا تعویز سمجھتا ہوں کہ عِلم مومن کی میراث ہے جِس سے مِلے لے لو۔
جہاں تک عورت کے پردے کا تعلق ہے، میں اِس بارے میں اپنے ہاں مشرقی لباس کو جس میں عورت نے خود کو کافی حد تک ڈھانپا اوڑھا ہوتا ہے کافی سمجھتا ہوں۔ یہ بھی اُن خواتین کیلئے جن کا مُجھ سے کوئی رشتہ واسطہ ہے اور اگر وہ میری رائے کو مقدم سمجھیں تب نہ کہ دوسروں کی عورتوں پر اپنا ڈریس کوڈ مسلط کرتا پھروں۔ میں یہ حق عورت کو تفویض کرنے کا حامی بھی ہوں کہ وہ بھی میری طرح اپنے لِباس کا تعین خود کرے کیونکہ نہ میں اپنی بہنوں بیٹیوں کو کافر سمجھتا ہوں، بے دین اور نہ بے حیا کہ وہ ہمارے سامنے نامُناسب لباس میں گھومتی پھِریں گی۔
کِسی خاص تنبو نُما بُرقعے اور گھُٹن زدہ لباس کو اِسلامی لباس قرار دینے کو نہ صرف نامناسب سمجتا ہوں بلکہ ظُلم بھی۔ وہ تمام مرد جو اِس لباس کو عین اسلامی اور فطری سمجھتے ہیں اُنہیں جون کی اِس گرمی میں پہن کر ایک دِن پاکستان کی گلیوں میں گُزارنے کا مشورہ بھی دونگا تاکہ اُنکا دماغ پگھل کر ذرا دِل کے قریب آئے اور وہ اُس سزائے عُمر قید کا ایک دِن گُزاریں جو وہ اپنی رعیت (عورت) کو سُنا چُکے ہیں۔ اگر ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو پردے اور بُرقعے کا یہ نِظام نفس کُشی اور قربتِ اِلہی کا ایک ذریعہ ضرور ہو سکتا ہے لیکن وہ بھی صوفیوں میں تو جائز ہے مُلائیت میں ہر گِز نہیں۔
بد قسمتی سے جیسے ہماری نماز میں بھی خود سپردگی سے زیادہ ہاتھ کھولنے باندھنے کے مقامات اور دھوتی شلوار کے ٹخنوں کے فاصلے تک محدود ہو چُکی ہے زندگی کے بقیہ معاملات بھی اِسی بے درد چکی میں پِس رہے ہیں۔ میں چونکہ نماز پڑھنے کیلئے کِسی شیعہ سُنی مسجد کی تخصیص کا قائل نہیں اور دھڑلے سے کِسی بھی فِرقے کی مسجد میں اپنے پسندیدہ طریقے سے جماعت میں شامل ہو جاتا ہوں لِہٰذا شلوار اور ٹخنوں کا فاصلہ ناپنا بھوُل جاتا ہوں تو سلام پھیرتے ہی کِسی پڑوسی نمازی کی مُبلغانہ تقریر بھی سُنتا ہوُں جِس میں اِن فاصلوں کو سُنت سے مناسب کیا جاتا ہے جبکہ میں سوچ رہا ہوتا ہوں آپ تسبیح و تعظیم میں مشغول تھے یا دِل و دماغ میرے گُل رنگ ٹخنوں میں اُلجھا تھا؟
جب تک ہم ڈیڑھ ہزار سال سے حِلت و حُرمت، کراحت و قباحت کی آئے روز بدلتی حدوں میں اُلجھے رہیں گےاور فروعی فضولیات پر فتویٰ بازی پر دھیان رکھیں گے نہ ہماری شلوار کا سائز طے ہوگا نہ ستر کی حدود کا۔
لوگ چاند پر گئے
اور اب مریخ کے وہ ڈھونڈتے ہیں راستے
ہم ہیں جو نفاذ کا نظام ڈھونڈتے رہے
ہاتھ باندھنے کے مقام ڈھونڈتے رہے