بصیرت افروز خیالات ہیں ۔ ہم جیسے کُج ذھن معرفت کی باتیں کہاں سمجھ سکتے ہیں ۔ میرا اسٹوو تو مٹی کے تیل سے جلتا ہے جو آجکل میری محنت کی کمائ کا منہ چڑاتا ہے ۔
یہی ہے قسمت صحرا ، یہی کرم تیرا
کہ بوند بوند عطا کر، گھٹا گھٹا لے جا
اب یہ تو عرفانِ بصیرت ہی رکھنے والے سمجھتے ہیں۔ ہمیں تو خود اپنی کہی باتیں سمجھ نہیں آئیں۔
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
مگر یہ جو اسٹوو اور محنت کی کمائی کی آہ نکلی، یہ تو سیدھی ہمارے چوّنی کے چراغ کا بھی سینہ چاک کر گئی۔ تب ہی ہمارا چوّنی کا چراغ اس اندھیر نگری میں سے چھوٹا سا حل ضرور ڈھونڈھ لایا ہے، جو اگر بہت نہ سہی، تو تھوڑا بہت تو کار آمد ہو ہی سکتا ہے۔
جناب، ڈیزل اور مٹی کے تیل میں بہت کم فرق ہوتا ہے، بلکہ اگر کبھی کہیں مسئلہ آجائے تو ڈیزل کے انجن کو مٹی کے تیل پر اسٹارٹ کیا جاسکتا ہے اور چلایا بھی جاسکتا ہے۔ بس مٹی کے تیل میں کاربن زیادہ ہونے کی وجہ سے دھواں زیادہ کالا نکلتا ہے اور آپکا انجن ٹیوننگ جلدی مانگتا ہے۔
روڈولف ڈیزل نے بھی جب ڈیزل انجن بنایا تھا تو شروع میں اسے مونگ پھلی کے تیل سے بھی چلا کر دکھایا تھا۔
کہنے کا مقصد ہے ڈیزل، مٹی کا تیل اور کوکنگ آئل، تینوں میں بطور ایندھن استعمال ہونے کے خواص قریباً ایک جیسے ہی پائے جاتے ہیں۔
بلکہ یہ نمونہ دیکھیئے
ویسے تو خیر استعمال شدہ تیل کو صرف فلٹر کر لینے سے بھی کام چل جاتا ہے، لیکن اگر آپکا دل کچھ نفاست پسندی کے اوپر مائل ہو تو اسطرح کے بائیوڈیزل کو بہ آسانی صاف بھی کیا جاسکتا ہے۔
بہترین نتائج کے لیئے ایسا استعمال شدہ کوکنگ آئل استعمال کیجیئے جس میں گوشت وغیرہ فرائی نہ ہوا ہو، کیونکہ گوشت وغیرہ کی اپنی چربی اس تیل میں گھل جاتی ہے اور اس سے یہ تیل زیادہ گاڑھا ہوجاتا ہے۔ جل پھر بھی جاتا ہے لیکن مسائل بھی کرسکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کسی پکوڑے سموسے تلنے والے یا کسی چپس والے کی دکان سے رابطہ کرلیں، اور مزے کریں۔
مگر دیکھیئے گا، کہیں آپکا اسٹوو اسے نسخے سے چراغ پا نہ ہوجائے، کہ کل کو موئے کو منہہ چڑانے کا دوسرا بہانہ نہ ڈھونڈھنا پڑے؟