QaiserMirza
Chief Minister (5k+ posts)
صدر کی روانگی پر صنعاء میں جشن، تعز میں جھڑپیں

جمعہ کو صدارتی محل پر ہونے والے حملے میں صدر علی عبداللہ صالح زخمی ہوگئے تھے۔
یمن کے صدر علی عبداللہ الصالح کی صدارتی محل پر گولہ باری کے نتیجے میں زخمی ہو کر سعودی عرب روانگی کے بعد دارالحکومت صنعاء میں جشن کا سا سماں ہے۔
ادھر یمن کے جنوبی شہر تعز میں مسلح افراد کے حملے میں چار سکیورٹی اہلکار اور ایک حملہ آور ہلاک ہوگیا ہے۔
اگرچہ یمنی صدر کی جانب سے وطن واپس نہ آنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے تاہم انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے خواہشمند عوام صدر کی روانگی کو ان کے اقتدار کے خاتمے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
تینتیس سال تک یمن پر حکمرانی کرنے والے صدر علی عبداللہ الصالح سنیچر کو حکومت مخالف قبائلیوں کی گولہ باری کے دوران زخمی ہوئے تھے اور اب سعودی عرب کے ایک فوجی ہسپتال میں ان کا علاج جاری ہے۔
یمن میں اس وقت اقتدار نائب صدر عبدالرب منصور ہادی کے پاس ہے اور انہوں نے ملکی صورتحال پر امریکی سفیر سے ملاقات کی ہے۔ العربیہ ٹی وی کے مطابق وہ صدر الصالح کے بیٹوں اور فوجی حکام سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔
ادھر یمن کے جنوبی شہر تعز میں مسلح افراد کے حملے میں چار سکیورٹی اہلکار اور ایک حملہ آور ہلاک ہوگیا ہے۔
اگرچہ یمنی صدر کی جانب سے وطن واپس نہ آنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے تاہم انہیں اقتدار سے الگ کرنے کے خواہشمند عوام صدر کی روانگی کو ان کے اقتدار کے خاتمے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
تینتیس سال تک یمن پر حکمرانی کرنے والے صدر علی عبداللہ الصالح سنیچر کو حکومت مخالف قبائلیوں کی گولہ باری کے دوران زخمی ہوئے تھے اور اب سعودی عرب کے ایک فوجی ہسپتال میں ان کا علاج جاری ہے۔
یمن میں اس وقت اقتدار نائب صدر عبدالرب منصور ہادی کے پاس ہے اور انہوں نے ملکی صورتحال پر امریکی سفیر سے ملاقات کی ہے۔ العربیہ ٹی وی کے مطابق وہ صدر الصالح کے بیٹوں اور فوجی حکام سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں۔
یمن میں اس وقت صدر کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لیے تحریک جاری ہے جس میں اب تک دو سو کے قریب افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ ملک خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق صدر الصالح کے بیرون ملک جانے سے ان کی پوزیشن مزید کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔
اگر علی الصالح ہمیشہ کے لیے یمن چھوڑ آئے ہیں تو وہاں اقتدار کی ایک نئی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔ اقتدار کی اس لڑائی میں نائب صدر، صدر صالح کے بڑے صاحبزادے، قبائلی رہنما اور اس تحریک کے لوگ شامل ہوں گے جو اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چلائی جا رہی ہے ۔
نامہ نگار بی بی سی
صدر الصالح کی سعودی عرب روانگی کے بعد اتوار کو یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نعرے بازی کی۔اس موقع پر شہر کے یونیورسٹی سکوائر میں جمع نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ بہت زیادہ خوش ہیں کیونکہ ایک پرامن انقلاب کی وجہ سے حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
تاہم شہر میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں اور نامہ نگاروں کے مطابق یمنی فوج اور صدر الصالح کے مخالف الاحمر قبیلے کے افراد کے درمیان جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئی ہیں۔
جنوبی شہر تعز میں بھی مسلح افراد اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی ہے جس میں چار فوجی اور ایک حملہ آور ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ادھر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سنیچر کی رات ریاض پہنچنے پر صدر صالح خود چل کر ہوائی جہاز سے باہر آئے اور ان کے سر گردن اور چہرے پر زخم نمایاں تھے۔ ان کے خاندان کے کچھ لوگوں نے بھی ان کے ساتھ ملک چھوڑ دیا ہے اور وہ بھی سعودی عرب گئے ہیں۔
مشرقِ وسطی کے بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر علی الصالح ہمیشہ کے لیے یمن چھوڑ آئے ہیں تو وہاں اقتدار کی ایک نئی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق اقتدار کی اس لڑائی میں نائب صدر، صدر صالح کے بڑے صاحبزادے، قبائلی رہنما اور اس تحریک کے لوگ شامل ہوں گے جو اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔
تاہم شہر میں دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں اور نامہ نگاروں کے مطابق یمنی فوج اور صدر الصالح کے مخالف الاحمر قبیلے کے افراد کے درمیان جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئی ہیں۔
جنوبی شہر تعز میں بھی مسلح افراد اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی ہے جس میں چار فوجی اور ایک حملہ آور ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ادھر عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سنیچر کی رات ریاض پہنچنے پر صدر صالح خود چل کر ہوائی جہاز سے باہر آئے اور ان کے سر گردن اور چہرے پر زخم نمایاں تھے۔ ان کے خاندان کے کچھ لوگوں نے بھی ان کے ساتھ ملک چھوڑ دیا ہے اور وہ بھی سعودی عرب گئے ہیں۔
مشرقِ وسطی کے بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر علی الصالح ہمیشہ کے لیے یمن چھوڑ آئے ہیں تو وہاں اقتدار کی ایک نئی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔
نامہ نگار کے مطابق اقتدار کی اس لڑائی میں نائب صدر، صدر صالح کے بڑے صاحبزادے، قبائلی رہنما اور اس تحریک کے لوگ شامل ہوں گے جو اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چلائی جا رہی ہے۔