مرے دل مرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے نا شنائیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا ۔
جب ظلم کو حکومت ہوتی ہے تو گھروں میں الو بولتے ہیں اور ویرانے وجود میں اتے ہیں لوگ کوچ کر جاتے ہیں اور جانور مرنے کے لیے رہ جاتے ہیں
افسوس صد افسوس ہم تو ان بھوکے ننگے افغانو سے بھی کمتر ہیں جن کی عوام
مرے تو ناٹو معذرت کر لیتی ہے ہم تو اسقدر بےتوقیر ہیں حامدکرزئی ہم کو آنکھیں