moazzamniaz
Chief Minister (5k+ posts)
Re: Brigadier detained for having links to banned organization - Infiltration of extremists in the Army...at the highest le
Although, Hizb ul Tehrir claims to be a non violent movement,but it is never known when majhools cross the line from theory into practical. Below is the news of Jan 2011
Although, Hizb ul Tehrir claims to be a non violent movement,but it is never known when majhools cross the line from theory into practical. Below is the news of Jan 2011
http://www.bollyaz.info/.php?link=92646024e9186c54//taliban-terrorists-slaughtering-ppl.htm
دو حاضر سروس کرنلز پر فرد جرم عائد
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: بدھ, 20 جنوری, 2010, 08:10 GMT 13:10 PST
چاروں ملزمان نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے فوجی عدالت کے کوٹلی میں منعقد کیے جانے کو چیلنج بھی کر دیا ہے
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں قائم فوجی عدالت کا سامنا کرنے والے دو فوجی افسروں اور دو سویلینز پر کالعدم تنظیم حزب التحریر کا رکن ہونے کے باضابطہ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
کوٹلی کی فوجی عدالت میں کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران چار میں سے دو فوجی ملزمان پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے اس کے مطابق کالعدم حزب التحریر کا رکن ہونے کے ناتے یہ لوگ اس تنظیم کو بعض فوجی تنصیبات کے بارے میں اہم اور حساس معلومات فراہم کر رہے تھے۔
دو سویلینز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ ان خفیہ معلومات کی بنیاد پر صوبۂ بلوچستان میں پاکستانی فضائیہ کے اڈے شمشی ایئر بیس پر تخریبی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو فوجی قوانین کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
چاروں ملزمان نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے فوجی عدالت کے کوٹلی میں منعقد کیے جانے کو چیلنج بھی کر دیا ہے۔
ایک شریک ملزم انجینئر اویس علی خان کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے وکلاء نے ایک برگیڈیئر کی زیرسربراہی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سامنے موقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا اور مبینہ سازش بھی اسی شہر میں کی گئی، لہذا یہ مقدمہ کوٹلی کی فوجی عدالت کے دائرے سے باہر ہے۔
ملزمان کے اس موقف کے بعد عدالت کی کارروائی ملتوی کر دی گئی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اس فوجی عدالت کی کارروائی کے بارے میں لا علم ہیں۔
کرنل شاہد بشیر اور ان کے ایک اور ساتھی کرنل، فضائیہ کے سابق پائلٹ ایڈووکیٹ ندیم احمد شاہ اور انجینئر اویس علی خان کو اس سال مئی میں راولپنڈی سے فوج کے انٹیلی جنس ادارے نے حراست میں لیا تھا۔
ابتدائی طور پر ان افراد پر پاکستانی فضائیہ کے بلوچستان میں واقع ہوائی اڈے شمشی ایئر بیس کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے اور فوجی افسران کو تخریب کاری پر اکسانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
اس ایئر بیس کے بارے میں سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون طیاروں سے ہونے والے حملوں میں اس فوجی ہوائی اڈے کو استعمال کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی میں مدد کے لیے پاکستان نے امریکہ کو جو سہولیات فراہم کر رکھی ہیں ان میں شمشی ایئر بیس بھی شامل ہے جسے امریکی فوج سپلائی بیس کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ دفاع کے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کر کے اس کے تحت عام شہری کا کورٹ مارشل کرنے سے متعلق شقوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ آرمی ایکٹ میں عام شہریوں کا کورٹ مارشل کرنے سے متعلق سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں شامل کی گئی تھی۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کی صدرات میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ اس ایکٹ میں کی گئی ترمیم سے متعلق وزارت قانون کی طرف سے جو رپورٹ آئی تھی اُس کے تحت یہ ترمیم ملک کے شہریوں کے حقوق سے متصادم ہے۔
اجلاس میں ماہر قانون اعتزاز احسن کو خصوصی طور پر شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ ملٹری کورٹ کے پینل کی منظوری ہائی کورٹ کو دینی چاہیے جبکہ ملٹری کورٹ سے ملنے والی سزا کے مجرم کو اپیل کا حق دیا جائے۔
*BBC Urdu - *پاکستان - *’دونوں کرنل، حزب التحریر کے رکن‘
دو حاضر سروس کرنلز پر فرد جرم عائد
آصف فاروقی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
آخری وقت اشاعت: بدھ, 20 جنوری, 2010, 08:10 GMT 13:10 PST

کوٹلی کی فوجی عدالت میں کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران چار میں سے دو فوجی ملزمان پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے اس کے مطابق کالعدم حزب التحریر کا رکن ہونے کے ناتے یہ لوگ اس تنظیم کو بعض فوجی تنصیبات کے بارے میں اہم اور حساس معلومات فراہم کر رہے تھے۔
دو سویلینز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ ان خفیہ معلومات کی بنیاد پر صوبۂ بلوچستان میں پاکستانی فضائیہ کے اڈے شمشی ایئر بیس پر تخریبی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ملزمان کو فوجی قوانین کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
چاروں ملزمان نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے فوجی عدالت کے کوٹلی میں منعقد کیے جانے کو چیلنج بھی کر دیا ہے۔
ایک شریک ملزم انجینئر اویس علی خان کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے وکلاء نے ایک برگیڈیئر کی زیرسربراہی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سامنے موقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان کو راولپنڈی سے حراست میں لیا گیا اور مبینہ سازش بھی اسی شہر میں کی گئی، لہذا یہ مقدمہ کوٹلی کی فوجی عدالت کے دائرے سے باہر ہے۔
ملزمان کے اس موقف کے بعد عدالت کی کارروائی ملتوی کر دی گئی ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ وہ اس فوجی عدالت کی کارروائی کے بارے میں لا علم ہیں۔
کرنل شاہد بشیر اور ان کے ایک اور ساتھی کرنل، فضائیہ کے سابق پائلٹ ایڈووکیٹ ندیم احمد شاہ اور انجینئر اویس علی خان کو اس سال مئی میں راولپنڈی سے فوج کے انٹیلی جنس ادارے نے حراست میں لیا تھا۔
ابتدائی طور پر ان افراد پر پاکستانی فضائیہ کے بلوچستان میں واقع ہوائی اڈے شمشی ایئر بیس کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے اور فوجی افسران کو تخریب کاری پر اکسانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
اس ایئر بیس کے بارے میں سابق فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ نے چند ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون طیاروں سے ہونے والے حملوں میں اس فوجی ہوائی اڈے کو استعمال کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوجی کارروائی میں مدد کے لیے پاکستان نے امریکہ کو جو سہولیات فراہم کر رکھی ہیں ان میں شمشی ایئر بیس بھی شامل ہے جسے امریکی فوج سپلائی بیس کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ دفاع کے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کر کے اس کے تحت عام شہری کا کورٹ مارشل کرنے سے متعلق شقوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ آرمی ایکٹ میں عام شہریوں کا کورٹ مارشل کرنے سے متعلق سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں شامل کی گئی تھی۔
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کی صدرات میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ اس ایکٹ میں کی گئی ترمیم سے متعلق وزارت قانون کی طرف سے جو رپورٹ آئی تھی اُس کے تحت یہ ترمیم ملک کے شہریوں کے حقوق سے متصادم ہے۔
اجلاس میں ماہر قانون اعتزاز احسن کو خصوصی طور پر شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ ملٹری کورٹ کے پینل کی منظوری ہائی کورٹ کو دینی چاہیے جبکہ ملٹری کورٹ سے ملنے والی سزا کے مجرم کو اپیل کا حق دیا جائے۔
*BBC Urdu - *پاکستان - *’دونوں کرنل، حزب التحریر کے رکن‘
Last edited: