awan4ever
Chief Minister (5k+ posts)
کالعدم تنظیموں سے تعلق پر حاضر سروس بریگیڈیئر زیرِ حراست
آصف فاروقی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستانی فوج کے صدر دفاتر (جی ایچ کیو) میں تعینات ایک سینیئر فوجی افسر کو حراست میں لیا گیا ہے جن کے بارے میں، پاکستانی فوج کے مطابق، ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ روابط کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ڈیڑھ ماہ قبل اچانک لاپتہ ہونے والے بریگیڈئر علی خان جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ریگولیشن ڈائریکٹوریٹ میں قریباً دو برس سے تعینات تھے۔
پاکستانی فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے بی بی سی کے استفسار پر تصدیق کی ہے کہ مذکورہ بریگیڈیئر پاکستانی فوج کے زیرِ حراست ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ وہ زیرِ حراست ہیں اور ان کے ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ روابط کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس موقع پر اس بارے میں مزید تفصیلات ہماری تفتیش کو متاثر کر سکتی ہیں۔
بریگیڈیئر علی خان کے خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ چھ مئی کی شام گھر نہیں لوٹے اور اعلیٰ فوجی حکام سے رابطہ کرنے پر ان کے اہلِ خانہ کو بتایا گیا کہ بریگیڈیئر صاحب سے کچھ سوالات کی غرض سے انہیں روک لیا گیا ہے اور وہ بہت جلد گھر لوٹ آئیں گے۔
ایک اہم عہدے پر تعینات پاکستانی فوج کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تک بریگیڈیئر علی کے خلاف باضابطہ چارج شیٹ سامنے نہیں آئی ہے لیکن پاکستانی فوج کا اعلیٰ ترین تفتیشی ادارہ سپیشل انوسٹی گیشن برانچ (ایس آئی بی) بریگیڈیئر علی کے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ روابط کی تفتیش کر رہا ہے۔
ایس آئی بی فوج کے اندر بہت سنگین نوعیت کے جرائم کی تفتیش کے لیے جانی جاتی ہے۔
زیرِ تفتیش بریگیڈیئر کے اہلِ خانہ اس سارے معاملے پر میڈیا کو کسی قسم کا بیان جاری کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں اور ان کا معاملہ عدالت میں لے جانے سے بھی گریزاں ہیں۔
پاکستان فوج کے ساتھ اس خاندان کے تین نسلوں کے تعلق کی بنا پر بریگیڈیئر علی کے اہلِ خانہ کو امید ہے کہ انہیں جلد رہا کر دیا جائے گا۔
بریگیڈیئر علی کے والد پاکستانی فوج میں جونیئر کمیشنڈ افسر تھے، ان کے چھوٹے بھائی فوج میں کرنل ہیں اور ملک کے ایک اہم انٹیلیجنس ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ ان کے داماد اور صاحبزادے بھی فوج میں کپتان ہیں۔
بریگیڈئر علی کا پاکستانی فوج کے ساتھ دیرینہ تعلق ہی اصل میں پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ ان کے والد پاکستانی فوج میں جونئیر کمیشنڈ افسر تھے، ان کے چھوٹے بھائی فوج میں کرنل ہیں اور ملک کے ایک اہم انٹیلیجنس ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے داماد اور صاحبزادے بھی فوج میں کپتان ہیں۔
بریگیڈیئر علی کا پاکستانی فوج کے ساتھ یہ تعلق ہی اصل میں پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔
ایک اہم فوجی ذریعے کے مطابق پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت بریگیڈیئر علی جیسے شاندار اور فوج کے ساتھ تین نسلوں سے وفادار افسر کے بارے میں اس طرح کی اطلاعات پر خاصی پریشان رہی اور ان کی گرفتاری سے قبل فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دفتر میں اس معاملے پر بھی بات کی گئی۔
اس بات چیت سے باخبر ایک افسر کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بریگیڈیئر علی کی گرفتاری کا ذاتی طور پر حکم دیا تھا
آصف فاروقی بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستانی فوج کے صدر دفاتر (جی ایچ کیو) میں تعینات ایک سینیئر فوجی افسر کو حراست میں لیا گیا ہے جن کے بارے میں، پاکستانی فوج کے مطابق، ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ روابط کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ڈیڑھ ماہ قبل اچانک لاپتہ ہونے والے بریگیڈئر علی خان جنرل ہیڈ کوارٹر راولپنڈی میں ریگولیشن ڈائریکٹوریٹ میں قریباً دو برس سے تعینات تھے۔
پاکستانی فوج کے تعلقاتِ عامہ کے شعبے کے سربراہ میجر جنرل اطہر عباس نے بی بی سی کے استفسار پر تصدیق کی ہے کہ مذکورہ بریگیڈیئر پاکستانی فوج کے زیرِ حراست ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ وہ زیرِ حراست ہیں اور ان کے ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ روابط کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ لیکن اس موقع پر اس بارے میں مزید تفصیلات ہماری تفتیش کو متاثر کر سکتی ہیں۔
بریگیڈیئر علی خان کے خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ چھ مئی کی شام گھر نہیں لوٹے اور اعلیٰ فوجی حکام سے رابطہ کرنے پر ان کے اہلِ خانہ کو بتایا گیا کہ بریگیڈیئر صاحب سے کچھ سوالات کی غرض سے انہیں روک لیا گیا ہے اور وہ بہت جلد گھر لوٹ آئیں گے۔
ایک اہم عہدے پر تعینات پاکستانی فوج کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تک بریگیڈیئر علی کے خلاف باضابطہ چارج شیٹ سامنے نہیں آئی ہے لیکن پاکستانی فوج کا اعلیٰ ترین تفتیشی ادارہ سپیشل انوسٹی گیشن برانچ (ایس آئی بی) بریگیڈیئر علی کے اسلامی شدت پسندوں کے ساتھ روابط کی تفتیش کر رہا ہے۔
ایس آئی بی فوج کے اندر بہت سنگین نوعیت کے جرائم کی تفتیش کے لیے جانی جاتی ہے۔
زیرِ تفتیش بریگیڈیئر کے اہلِ خانہ اس سارے معاملے پر میڈیا کو کسی قسم کا بیان جاری کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں اور ان کا معاملہ عدالت میں لے جانے سے بھی گریزاں ہیں۔
پاکستان فوج کے ساتھ اس خاندان کے تین نسلوں کے تعلق کی بنا پر بریگیڈیئر علی کے اہلِ خانہ کو امید ہے کہ انہیں جلد رہا کر دیا جائے گا۔
بریگیڈیئر علی کے والد پاکستانی فوج میں جونیئر کمیشنڈ افسر تھے، ان کے چھوٹے بھائی فوج میں کرنل ہیں اور ملک کے ایک اہم انٹیلیجنس ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ ان کے داماد اور صاحبزادے بھی فوج میں کپتان ہیں۔
بریگیڈئر علی کا پاکستانی فوج کے ساتھ دیرینہ تعلق ہی اصل میں پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ ان کے والد پاکستانی فوج میں جونئیر کمیشنڈ افسر تھے، ان کے چھوٹے بھائی فوج میں کرنل ہیں اور ملک کے ایک اہم انٹیلیجنس ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے داماد اور صاحبزادے بھی فوج میں کپتان ہیں۔
بریگیڈیئر علی کا پاکستانی فوج کے ساتھ یہ تعلق ہی اصل میں پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔
ایک اہم فوجی ذریعے کے مطابق پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت بریگیڈیئر علی جیسے شاندار اور فوج کے ساتھ تین نسلوں سے وفادار افسر کے بارے میں اس طرح کی اطلاعات پر خاصی پریشان رہی اور ان کی گرفتاری سے قبل فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دفتر میں اس معاملے پر بھی بات کی گئی۔
اس بات چیت سے باخبر ایک افسر کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بریگیڈیئر علی کی گرفتاری کا ذاتی طور پر حکم دیا تھا