canadian
Chief Minister (5k+ posts)

صدر آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے کے لیے ایک محفوظ سیاسی حلقے کا چناؤ
کیا ہے
فٹ بال، منشیات، پان، ابلتے گٹر، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور پینے کا پانی بھرنے کے لیے لبمی قطاروں کا جہاں بھی ذکر ہو تو لیاری کا نام ذہن میں آتا ہے۔
جی ہاں! یہ وہی لیاری ہے جہاں سے صدر آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو کے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
لیاری گزشتہ چار دہائیوں سے پیپلزپارٹی کا سیاسی گڑھ رہا ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنی شادی کے لیے بھی لیاری کا انتخاب کیا۔ کھارادر اور موسیٰ لین کے درمیاں واقع ککری گراؤنڈ میں انہوں نے شادی کی تقریب منعقد کی اور بعد میں وہاں سے انتخاب بھی لڑا۔
یہ وہی لیاری ہے جہاں سے آصف علی زرداری جیل میں ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اب وہاں سے بلاول بھٹو کو الیکشن لڑانے کا اعلان کیا ہے۔
بینظیر بھٹو جب سترہ اگست کو خود ساختہ جلاوطنی کے بعد کراچی پہنچیں تو ان کی حفاظت کے لیے ’جان نثاران بینظیر فورس‘ بنائی گئی جس میں زیادہ تر نوجوان لیاری کے بلوچ اور کچھی ہی تھے۔
ویسے تو لیاری میں بلوچ، کچھی، میمن، سندھی، نیازی، پٹھان اور مارواڑی آباد ہیں۔ لیکن اس علاقے کی ایک بڑی شناخت مکرانی بلوچ اور شیدی ہیں۔
اصل سوال تو یہ ہے کہ آئین کے تحت قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے عمر کی حد پچیس برس ہے جبکہ بلاول ابھی تئیس سال کے ہیں اور وہ اس حد کو اکیس ستمبر دو ہزار تیرہ کو پہنچیں گے
پیپلز پارٹی کے قیام سے لے کر اب تک ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور اب آصف علی زرداری کی لیاری ترجیحات میں رہا ہے لیکن وہاں آج تک سڑکوں کی حالت، نکاسی آب اور فراہمی آب جیسے تین بنیادی مسائل حل نہیں ہوسکے۔
موجودہ حکومت کہتی ہے کہ ان کے تین سالہ دور میں پونے تین ارب روپوں سے زیادہ لیاری کی ترقی پر خرچ ہوئے ہیں لیکن علاقے میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ صدر آصف علی زرداری نے بینظیر میڈیکل کالج کے قیام کا اعلان کیا اور رواں سیشن میں داخلے بھی وہاں شروع ہوگئے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے لیاری میں فٹ بال سٹیڈیم بھی بنائے ہیں لیکن ماڑی پور روڈ پر واقع پیپلز گراؤنڈ سمیت اکثر کھیل کے میدانوں میں طویل عرصے سے رینجرز کا پڑاؤ رہا ہے۔
لیاری میں ہسپتال اور تعلیمی ادارے تو ہیں لیکن وہاں صحت اور تعلیم کی انتہائی ناکافی اور ناقص سہولیات موجودہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب حیثیت لوگ یہاں رہنا پسند نہیں کرتے۔
لیاری کے اکثر منتخب نمائندوں کا بھی یہی حال ہے اور نبیل گبول سمیت اکثر ووٹ مانگنے تو لیاری آئے ہیں لیکن رہائش ڈفینس میں رکھی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی لیاری سے ہمیشہ پیپلز پارٹی ہی جیت جاتی ہے۔
ماضی میں مسلم لیگ (ن)، متحدہ قومی موومینٹ نے لیاری میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوششیں کیں لیکن ان کے تاحال تمام حربے ناکام ہی ثابت ہوئے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے کے لیے ایک محفوظ سیاسی حلقے کا چناؤ کیا ہے۔ لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ آئین کے تحت قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے لیے عمر کی حد پچیس برس ہے جبکہ بلاول ابھی تئیس سال کے ہیں اور وہ اس حد کو اکیس ستمبر دو ہزار تیرہ کو پہنچیں گے۔
پاکستان میں اگر عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے تو مارچ سنہ دو ہزار تیرہ میں ہوں گے اور بلاول زرداری بھٹو اس میں شرکت کے اہل نہیں ہوں گے۔
لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ ستمبر دو ہزار تیرہ میں جب وہ پچیس برس کے ہوجائیں تو ان کے لیے نشست خالی کر کے انہیں منتخب کروایا جاسکے۔
اگر بلاول بھٹو زرداری نے لیاری پر توجہ مرکوز کی اور ان کے تین بنیادی اور بڑے مسائل، سڑکیں، نکاسی اور فراہمی آب، حل کیے تو لیاری شاید بلاول کے بچوں کا بھی محفوظ حلقہ ثابت ہو۔
Last edited by a moderator: