scholar
Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے اہلخانہ سمیت گاڑی میں محصور سکندر حیات نامی مسلح شخص کو کئی گھنٹے تک مذاکرات کے بعد ہونے والے آپریشن میں زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا۔
یہ واقعہ جمعرات کی شام اس وقت پیش آیا جب ایک سیاہ گاڑی میں سوار اس شخص نے اپنی بیوی اور دو بچوں سمیت پارلیمنٹ ہاؤس جانے کی کوشش کی اور روکنے پر اُس نے وہاں پر موجود پولیس اہلکار پر فائرنگ کر دی تھی۔
کلِک ’ایک نہتا پولیس کے لیے فرشتہ‘
اس واقعے کے بعد ملزم نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم پولیس نے گاڑی کو روک لیا جس پر اس شخص نے اپنی گاڑی شہر کی مصروف شاہراہ جناح ایونیو پر کھڑی کر دی تھی اور وہاں وہ کئی گھنٹے تک اپنے اہلخانہ سمیت گاڑی میں بیٹھا رہا اور دو خودکار ہتھیاروں سے وقفے وقفے سے ہوائی فائرنگ بھی کرتا رہا۔
اس دوران اعلیٰ حکام بھی موقع پر پہنچے اور اس سے بارہا مذاکرات کیے تاہم وہ ہتھیار پھینکنے سے انکار کرتا رہا اور اپنی اہلیہ کے ذریعے اپنے مطالبات حکام تک پہنچاتا رہا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس کے ساتھ ملزم کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد ان کی بیوی پولیس افسر کے ساتھ مذاکرات کرتی رہیں اور وہ محفوظ راستہ دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اس واقعے کا ڈراپ سین رات گیارہ بجے کے قریب اس وقت ہوا جب پاکستان بیت المال کے چیئرمین زمرد خان نے سکندر کے بچوں سے ملاقات کی خواہش کی اور قریب جانے پر انہوں نے سکندر کو پکڑنے کی کوشش کی۔
اس پر سکندر نے گولی چلا دی تاہم قریب موجود کمانڈوز نے فوری طور پر اسے گولیاں مار کر زخمی کر دیا جس کے بعد اسے حراست میں لے لیا گیا۔
حراست میں لیے جانے کے بعد ملزم کو فوری طور پر پمز ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ رات گئے پمز ہسپتال کی ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ سکندر کو دو گولیاں لگی لیں اور اس کا آپریشن کیا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا وہ اسلام آباد کا ریڈ زون ہے
اس آپریشن کے دوران سکندر کی اہلیہ اور ان کے بچے محفوظ رہے اور انہیں بھی پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ خیال رہے کہ اس سارے وقت میں بظاہر نہ تو بچے اور نہ ہی ملزم کی بیوی پریشان دکھائی دیے۔
پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل کے مطابق اس سارے معاملے میں تاخیر کی وجہ سکندر کے ساتھ اس کی اہلیہ اور بچوں کی موجودگی تھی اور اسی وجہ سے احتیاط برتی گئی۔
پی ٹی وی کا کہنا ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے آپریشن کرنے والی پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ مسلح شخص کو زندہ گرفتار کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔
واضح رہے کہ یہ واقعہ جس علاقے میں پیش آیا وہ اسلام آباد کا ریڈ زون ہے جسے انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے اور یہاں سے ملک کی پارلیمان، ایوانِ صدر اور سپریم کورٹ چند سو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ سکندر حیات ہے کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر حافظ آباد سے ہے۔
کوہسار پولیس سٹیشن کے انچارج حاکم خان کے مطابق ملزم چند روز قبل ہی کراچی سے آیا تھا اور
اُس نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ آبپارہ میں ایک ہوٹل میں کرائے پر کمرہ حاصل کیا ہوا تھا۔
پولیس افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزم نے کرائے پر کمرہ لیتے ہوئے خود کو ایک اعلی سرکاری افسر ظاہر کیا تھا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/08/130815_islamabad_firing_rh.shtml
Last edited by a moderator: