ایک مجرم کو صرف مجرم کے طور پر لیا جانا چاہئے، مرد اور عورت کی تخصیص نہیں ہونی چاہئے ، اگر وہ عورت ہوتے ہوئے جرم کرنے سے نہیں چوکی تو اس کی حمایت میں بولنے والوں کو اس کے پلو اور دوپٹے کا استعمال کرنا بھی زیب نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرے میں ترسے ہوئے فرسٹریٹڈ لوگوں کی اکثریت ہے جو خوامخواہ کسی بھی خاتون کو دیکھ کر آہیں بھرنا شروع کردیتے ہیں، اب ایان کا جرم ان کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتا، لیکن ایان علی کے "حسن" پر مرے جارہے ہیں اور بائی دا وے، جن لوگوں کو ایان علی حسین لگتی ہے ان کو چشمہ بدلنے کی ضرورت ہے، چار من کی بھینس ہے اور تھوبڑا بھی کسی قابل نہیں۔ پتا نہیں کیسے ترسے ہوئے لوگ اس کو حسین کہہ دیتے ہیں۔