Raaz
(50k+ posts) بابائے فورم
اللہ سبحانہ تعالیٰ کے نزدیک سٹیٹس کو کے تین سمبل: حمکران ، علما سو اور امرا

ہمارے معاشرے کے تین ناسور ہیں جو کہ ہمیں دیمک کی طرح چاٹ کر کھا گئے ہیں
اور یہ آج سے نہی ہیں ، یہ ہمیشہ سے چلے آئے ہیں
کبھی کسی قوم پر اللہ کا کرم ہوتا ہے تو یہ تینوں عناصر انڈر کنٹرول ہوتے ہیں
اور اورجب کبھی یہ بہت ہی بے قابو ہو جاتے ہے تو عوام پس جاتی ہے
اللہ تعالیٰ کا رزق جو اس دنیا میں موجود ہے وہ جب عوام تک آسانی سے پہنچتا ہے تو مخلوق خوش ہوتی ہے اور جب اس پر چند ہاتھوں کے پہرے لگ جاتے ہیں اور عوام بھوکی مرنے لگتی ہے
جس کے نتیجے میں جرائم پھلتے ہیں ، اور معاشرہ ڈی سٹیبلایز ہو جاتا ہے
اس سے اگل مرحلہ آتا ہے جب اس پر قابو بھی نہی رہتا
ہمیں ان کو قابو میں لانا ہے ، ان تینوں شیطانوں کا کھیل ابھی قوم نے سینٹ کے الیکشن میں بھی دیکھا تھا
یہ تین شیطانی عناصر کون سے ہیں ، یہ اللہ کریم نے سورہ توبہ میں بتایا ہے
آپ اس کی تفسیر بھی ضرور پڑھیں جو مولانا شبیر عثمانی نے کی ہے
سورة التوبة 34-35
اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (34) ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو
اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (34) ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو
اہل کتاب کے علماء کی بے دینی:
یعنی روپیہ لے کر احکام شرعیہ اور اخبار الہٰیہ کو بدل ڈالتے ہیں۔ ادھر عوام الناس نے انہیں جیسے پہلے گذرا خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے۔ جو کچھ غلط سلط کہہ دیں وہ ہی ان کے نزدیک حجت ہے ۔ اس طرح یہ علماء و مشائخ نذرانے وصول کرنے ، ٹکے بٹورنے اور اپنی سیادت و ریاست قائم رکھنے کے لئے عوام کو مکروفریب کے جال میں پھنسا کر راہ حق سے روکتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ عوام اگر ان کے جال سے نکل جائیں اور دین حق اختیار کر لیں تو ساری آمدنی بند ہو جائے ۔ یہ حال مسلمانوں کو سنایا تاکہ متنبہ ہو جائیں کہ امتوں کی خرابی اور تباہی کا بڑا سبب تین جماعتوں کا خراب و بے راہ ہونا اور اپنے فرائض کو چھوڑ دینا ہے علماء مشائخ اور اغنیاء و رؤسا ۔ ان میں سے دو کا ذکر تو ہو چکا۔ تیسری جماعت (رؤسا) کا آگے آتا ہے۔ ابن المبارکؒ نے خوب فرمایا وَھَلْ اَفْسَدَ الدِّیْنَ اِلَّا الملوکُ وَ اَحْبَا رُسُوْءٍ وَرُھْبَانُھَا ۔
[۳۴]جو لوگ دولت اکٹھی کریں خواہ حلال طریقہ سے ہو مگر خدا کے راستہ میں خرچ نہ کریں (مثلاً زکوٰۃ نہ دیں اور حقوق واجبہ نہ نکالیں) ان کی یہ سزا ہے تو اسی سے ان احبار و رہبان کا انجام معلوم کر لو جو حق کو چھپا کر یا بدل کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ اور ریاست قائم رکھنے کی حرص میں عوام کو خدا کے راستہ سے روکتے پھرتے ہیں۔ بہرحال دولت وہ اچھی ہے جو آخرت میں وبال نہ بنے۔
آج ہماری قوم کو ملا اورملٹری اتحاد اور کبھی ملا اور رؤسا و حکومت اتحاد نے لوٹ کھایا ہے
یہ آپس میں مدد گار ہیں ، کوئی ظلم ہو تو یہ تینوں کچھ نہی کریں گے
کسی زمانے میں ہوتے تھے علما حق ، جو حکومتوں سے لڑ جاتے تھے
آج سب چور اچکے اکٹھے ہو گئے ہیں کوئی حکمران کے روپ میں تو کوئی مخیر حضرات کے روپ میں تو کوئی عالم دین کے روپ میں
ان تینوں کے خلاف ہماری قوم کو جہاد کرنا ہو گا
Last edited: