Aik mamoli si tasweer

ustadjejanab

Chief Minister (5k+ posts)

ہماری آنکھیں ہمیں روزانہ بے شمار مناظر دکھاتی ہیں ،،،آنکھ کا کام صرف اتنا سا ہے کے منظر کی نشاندہی کرے اور دل و دماغ کو آگاہ کرے ...اب دل جانے اور دماغ جانے ...یہ دونوں موصوف اتنے لاپرواہ واقع ہوتے ہیں کہ نظارہ چاہے کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو ،،،بھولنے میں چند ساعتوں سے زیادہ نہیں لگاتے ..دل اور دماغ میں اکثر اس بارے میں بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ،،،،بلکل ایسے جیسے ہمارے پولیٹیکل شوز میں ہوتا ہے ،،کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے...اگلے دن ان دونوں سے پوچھا جاے کہ بزرگو کل کیا دیکھا تھا تو بڑے معصوم بن کر کہتے ہیں کہ جی کل تو میرا ڈے آف تھا،،،، پوری دھیارڑ بسترے تے ...ککھ یاد نہیں کی ویکھیا سی .............................................................
لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کوئی نظارہ دیکھنے کے بعد کچھ اور دیکھنے کا حوصلہ نہیں رہتا ،،دل اور دماغ منظر کی جزیات میں گم اور آپ کا تمام اعصابی نظام ہینگ ہو جاتا ہے ،،،اب چاہے جتنا مرضی آلٹ، کنٹرول ، ڈیل دباتے رہیں،،،دماغ اور دل بس یہی پکارے چلے جاتے ہیں کہ مجھے نہ چھیڑو میں نشے میں ہوں ......میں نے بھی غلطی سے ایک ایسی ہی تصویر دیکھ لی جس میں ایک شخص چادر اوڑھے سو رہا ہے ....پتا نہیں کیوں جب سے اس سوۓ ہوے شخص کو دیکھا ہے میری آنکھوں سے نیند کیوں غائب ہو گئی ہے ....دل کو بڑا بہلایا ، دماغ کو بڑا سمجھایا لیکن بلکل ہی راکٹ ہو گۓ ہیں ،،،آنکھیں کہتی ہیں مجھے ہاتھ نہ لگانا کرنٹ پڑے گا .....نیند پلکوں سے اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنی ایمانداری ہمارے محترم صدر صاحب سے .....یقین کریں بالکل عام سی تصویر ہے ،،،پہلے تو میں سمجھا کہ کوئی مزدور ہے ،،،بچارہ دن بھر مزدوری کر کے تھکا ہارا آیا اور جہاں جگہ ملی ،،چادر دھری اور بے فکر ہو کے سو گیا ....لیکن ماجھا کہتا ہے کہ یہ کوئی مزدور شزدور نہیں ہے ایک بہت بڑی شخصیت ہے ،،،،نہ جی نہ ،، میں نے کب ماجھے کی بات فوری مان لینی تھی ،،،،....ماجھا بسوں میں جنتریاں ہی تو بیچتا ہے کون سا کوئی اسسمبلی کا ممبر ہے جو میں اس کی صداقت پر آنکھیں بند کر کہ یقین کر لوں ....چھوڑو بھی ہے نہ .......میں نے اس سے بڑی جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن اپنی بات پر ڈٹ گیا اور چوتھی کے بچے کی طرح اپنی بات سنانے کی ضد کرنے لگا ....کہتا ہے کہ "یہ باغ میں سویا ہوا شخص کسی باہر کی یو نی ور سٹی کا چانسلر ہے ،،،،،کسی بہت بڑے ہسپتال کا کرتا دھرتا جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت میں علاج کیا جاتا ہے.....کسی بہت عظیم الشان تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھنے والا ......کرکٹ کے امور پر اتھارٹی اور ایک سیاسی تحریک کا سربراہ ........ "....میں نے ماجھے کو بہت روکا ،،،،،ہاتھ کو ڈور اکٹھی کرنے کے انداز میں گھمایا ،،،،،،،، اسے سائیں کوڈے شاہ کے واسطے دیے کہ بس کرو یار ،،،تمہارا آج لمبیاں لمبیاں چھوڑنے کا کوٹا پورا ہو گیا لیکن وہ ماجھا ہی کیا جس کا چراغ میری پھونکوں سے بھجتا ،،،،،،،مزید ارشاد فرمایا ،،،،" یہ وہ شخص ہے جو اگر چاہے تو ابھی اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک اسے اپنا شہری بنانے میں فخر محسوس کرے گا ،،،کر یڈ بیلٹی اتنی ہے کہ دشمن بھی کرپشن کا الزام لگانے سے پہلے اپنے پیر صاحب سے مشورہ کرے گا....مشھور اتنا کہ ابھی اگر ٹمبکٹو چلا جاے تو وہاں بھی کوئی نہ کوئی واقف نکل آے.. ....سچ اس طرح بولتا ہے جیسے سچ بولنے کا کوئی بونس لیتا ہو ،،،،،بہادر اتنا ہے کہ سب نے سمجھایا ہے کہ یہاں کسی بھی وقت بم دھماکہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح بے خوف سویا ہوا ہے کہ جیسے بم کو پٹاخہ سمجھتا ہو ......مجھے یقین ہے کہ نیند کی کوئی امپورٹڈ گولیاں کھاتا ہو گا ....لیکن سنا ہے کہ وہ تو ڈسپرین کی گولیاں بھی نہیں کھاتا حلا نکہ وہ جلد حل ہو جاتی ہیں ،،،،،".....آپ خود ہی بتائیں کہ میں ماجھے کی باتوں پر کس طرح یقین کروں کے ایک ایسا شخص جو ریشم و کم خواب کے بستروں میں سو سکتا ہو ،،،دولت جس کے گھر کی لونڈی اور شہرت در کی باندی ہو وہ اس طرح کیوں دن رات مضطرب و بے چین رہتا ہے ...کیوں اس نے اپنا آج دوسروں کے کل کے لئے وقف کر دیا ہے ،،کیوں کر اتنی جرات اس میں آ گئی کہ ان کو للکارنا شروع ہو گیا جن کے سامنے دوسرے کھانسنا بھی خلاف تہذیب جانتے ہیں .....امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ایسے ڈالتا ہے جیسے امریکا نے اس کا قرضہ دینا ہو ...........معاملہ یہ نہیں کہ میں کبھی اس طرح سڑک پر نہیں سویا ،،،،جی ہاں ایک دفعہ نو بجے والا شو دیکھنے کے بعد گھر والوں نے دروازہ نہیں کھولا تھا تو میں بھی ایسے ہی سویا تھا لیکن اس بندے کے ساتھ کیا مسلہ ہے .....اس طرح اپنا آرام اور سکوں یہ کیوں برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ......حیرت ہے کہ موجودہ دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے آرام کی خاطر اپنا سکوں برباد کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتے ،،،،مجھے عابد کشمیری کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے " کون لوگ ہو تسی ".................................................................
.....
 
Last edited:

lotaa

Minister (2k+ posts)
Is Film Ka Naam Ho Ga Namak Halal,,,,,,,
ہماری آنکھیں ہمیں روزانہ بے شمار مناظر دکھاتی ہیں ،،،آنکھ کا کام صرف اتنا سا ہے کے منظر کی نشاندہی کرے اور دل و دماغ کو آگاہ کرے ...اب دل جانے اور دماغ جانے ...یہ دونوں موصوف اتنے لاپرواہ واقع ہوتے ہیں کہ نظارہ چاہے کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو ،،،بھولنے میں چند ساعتوں سے زیادہ نہیں لگاتے ..دل اور دماغ میں اکثر اس بارے میں بحث و مباحثہ بھی ہوتا ہے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ،،،،بلکل ایسے جیسے ہمارے پولیٹیکل شوز میں ہوتا ہے ،،کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے...اگلے دن ان دونوں سے پوچھا جاے کہ بزرگو کل کیا دیکھا تھا تو بڑے معصوم بن کر کہتے ہیں کہ جی کل تو میرا ڈے آف تھا،،،، پوری دھیارڑ بسترے تے ...ککھ یاد نہیں کی ویکھیا سی .............................................................
لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ کوئی نظارہ دیکھنے کے بعد کچھ اور دیکھنے کا حوصلہ نہیں رہتا ،،دل اور دماغ منظر کی جزیات میں گم اور آپ کا تمام اعصابی نظام ہینگ ہو جاتا ہے ،،،اب چاہے جتنا مرضی آلٹ، کنٹرول ، ڈیل دباتے رہیں،،،دماغ اور دل بس یہی پکارے چلے جاتے ہیں کہ مجھے نہ چھیڑو میں نشے میں ہوں ......میں نے بھی غلطی سے ایک ایسی ہی تصویر دیکھ لی جس میں ایک شخص چادر اوڑھے سو رہا ہے ....پتا نہیں کیوں جب سے اس سوۓ ہوے شخص کو دیکھا ہے میری آنکھوں سے نیند کیوں غائب ہو گئی ہے ....دل کو بڑا بہلایا ، دماغ کو بڑا سمجھایا لیکن بلکل ہی راکٹ ہو گۓ ہیں ،،،آنکھیں کہتی ہیں مجھے ہاتھ نہ لگانا کرنٹ پڑے گا .....نیند پلکوں سے اتنے ہی فاصلے پر ہے جتنی ایمانداری ہمارے محترم صدر صاحب سے .....یقین کریں بالکل عام سی تصویر ہے ،،،پہلے تو میں سمجھا کہ کوئی مزدور ہے ،،،بچارہ دن بھر مزدوری کر کے تھکا ہارا آیا اور جہاں جگہ ملی ،،چادر دھری اور بے فکر ہو کے سو گیا ....لیکن ماجھا کہتا ہے کہ یہ کوئی مزدور شزدور نہیں ہے ایک بہت بڑی شخصیت ہے ،،،،نہ جی نہ ،، میں نے کب ماجھے کی بات فوری مان لینی تھی ،،،،....ماجھا بسوں میں جنتریاں ہی تو بیچتا ہے کون سا کوئی اسسمبلی کا ممبر ہے جو میں اس کی صداقت پر آنکھیں بند کر کہ یقین کر لوں ....چھوڑو بھی ہے نہ .......میں نے اس سے بڑی جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن اپنی بات پر ڈٹ گیا اور چوتھی کے بچے کی طرح اپنی بات سنانے کی ضد کرنے لگا ....کہتا ہے کہ "یہ باغ میں سویا ہوا شخص کسی باہر کی یو نی ور سٹی کا چانسلر ہے ،،،،،کسی بہت بڑے ہسپتال کا کرتا دھرتا جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت میں علاج کیا جاتا ہے.....کسی بہت عظیم الشان تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھنے والا ......کرکٹ کے امور پر اتھارٹی اور ایک سیاسی تحریک کا سربراہ ........ "....میں نے ماجھے کو بہت روکا ،،،،،ہاتھ کو ڈور اکٹھی کرنے کے انداز میں گھمایا ،،،،،،،، اسے سائیں کوڈے شاہ کے واسطے دیے کہ بس کرو یار ،،،تمہارا آج لمبیاں لمبیاں چھوڑنے کا کوٹا پورا ہو گیا لیکن وہ ماجھا ہی کیا جس کا چراغ میری پھونکوں سے بھجتا ،،،،،،،مزید ارشاد فرمایا ،،،،" یہ وہ شخص ہے جو اگر چاہے تو ابھی اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک اسے اپنا شہری بنانے میں فخر محسوس کرے گا ،،،کر یڈ بیلٹی اتنی ہے کہ دشمن بھی کرپشن کا الزام لگانے سے پہلے اپنے پیر صاحب سے مشورہ کرے گا....مشھور اتنا کہ ابھی اگر ٹمبکٹو چلا جاے تو وہاں بھی کوئی نہ کوئی واقف نکل آے.. ....سچ اس طرح بولتا ہے جیسے سچ بولنے کا کوئی بونس لیتا ہو ،،،،،بہادر اتنا ہے کہ سب نے سمجھایا ہے کہ یہاں کسی بھی وقت بم دھماکہ ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح بے خوف سویا ہوا ہے کہ جیسے بم کو پٹاخہ سمجھتا ہو ......مجھے یقین ہے کہ نیند کی کوئی امپورٹڈ گولیاں کھاتا ہو گا ....لیکن سنا ہے کہ وہ تو ڈسپرین کی گولیاں بھی نہیں کھاتا حلا نکہ وہ جلد حل ہو جاتی ہیں ،،،،،".....آپ خود ہی بتائیں کہ میں ماجھے کی باتوں پر کس طرح یقین کروں کے ایک ایسا شخص جو ریشم و کم خواب کے بستروں میں سو سکتا ہو ،،،دولت جس کے گھر کی لونڈی اور شہرت در کی باندی ہو وہ اس طرح کیوں دن رات مضطرب و بے چین رہتا ہے ...کیوں اس نے اپنا آج دوسروں کے کل کے لئے وقف کر دیا ہے ،،کیوں کر اتنی جرات اس میں آ گئی کہ ان کو للکارنا شروع ہو گیا جن کے سامنے دوسرے کھانسنا بھی خلاف تہذیب جانتے ہیں .....امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ایسے ڈالتا ہے جیسے امریکا نے اس کا قرضہ دینا ہو ...........معاملہ یہ نہیں کہ میں کبھی اس طرح سڑک پر نہیں سویا ،،،،جی ہاں ایک دفعہ نو بجے والا شو دیکھنے کے بعد گھر والوں نے دروازہ نہیں کھولا تھا تو میں بھی ایسے ہی سویا تھا لیکن اس بندے کے ساتھ کیا مسلہ ہے .....اس طرح اپنا آرام اور سکوں یہ کیوں برباد کرنے پر تلا ہوا ہے ......حیرت ہے کہ موجودہ دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے آرام کی خاطر اپنا سکوں برباد کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھاتے ،،،،مجھے عابد کشمیری کا ایک فقرہ یاد آ رہا ہے " کون لوگ ہو تسی "......................................................................