مخدوم سے خادم ہو اور خادم سے بنا وزیر
رفیق ڈوگر
ان میڈیا والوں کی تعلیم و آگہی کے لئے بھی خادم اعلیٰ نظام و استحکام کو کوئی تعلیمی آگہی کا پروگرام شروع کرنا چاہئے۔ کون ہے چیئرمین اس پارلیمنٹیرین پارٹی کا جس کی جمہوریت کی حکمرانی ہے وطن عزیز و غریب پر؟ وہی تو ہیں جو اس جمہوریت کے عشق میں مخدوم سے خادم ہو چکے ہیں۔ وہی جو مخدوم امین فہیم سے خادم امین ذہین ہو چکے ہیں اور یہ میڈیا والے نہ ان کی ذہانت سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور نہ ہی اس سے کہ حکمران پارٹی کے اصل چیئرمین تو وہ ہیں کیا یہ ممکن ہے کہ انہوں نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ہلیری ہالبروک کا تیار کردہ حکمنامہ پڑھا ہی نہ ہو اور اس کے فضائل سے آگاہ کرنے کے پروگرام میں جت گئے ہوں؟ یہ میڈیا والے ان کے بارے میں اسی طرح کی غلط فہمیاں پھیلاتے رہے جس طرح یہ پھیلاتے رہتے ہیں کہ حکمران پارٹی کے مالک و مختار این آر او جمہوریت کے مخدوم آصف علی زرداری ہوتے ہیں:۔
نہ یہ سمجھے نہ ہلیری سمجھی نہ زرداری کی آرزو سمجھی
محو حیرت ہوں کہ جمہوریت کیا سے کیا ہو جائے گی
ہلیری اور ہالبروک جب بھی تشریف وغیرہ لاتے ہیں سب سے پہلے آصف علی زرداری کے دربار میں حاضری دیتے ہیں ان میڈیا والوں کی پھیلائی اور چلائی غلط شلط فہمیوں کی وجہ سے کہ پاکستانی حکومت اور جمہوریت کے اصل مالک و مختار آصف علی زرداری ہوتے ہیں آصف علی زرداری کی آرزو بھی یہی ہے کہ سب اسے ہی سب کچھ مانیں اور جانیں اگر اس طرح ہو گیا یعنی اس پارلیمنٹیرین پارٹی کے چیئرمین خادم امین فہیم کے منصب و حکمرانی کے بارے میں ان بلاول ہاﺅس تا وائٹ ہاﺅس پائی جانے والی تہ در تہ غلط فہمیوں کے جالے صاف نہ کئے گئے تو ان کے پلے میں تو ایک آدھ ہلیری خوردہ وزارت کے علاوہ کچھ رہ ہی نہیں جائے گا ان میڈیا والوں کو اس تلخ حقیقت اور ترش خدشات کا کچھ تو احترام کرنا چاہئے۔ سارے ہی اہل میڈیا کیوں گاتے بجاتے رہتے ہیں کہ:۔
جمہوریت آئی زرداری لائی ٹھیک ہے آصف علی زرداری ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کی گدی کے نشین ہوتے ہیں مگر ان کی اس نشینی کی عمر غریب ہے کتنی؟ اور امین فہیم کی گدی فہمی کی عمر؟ ہے کوئی مقابلہ ان دونوں میں؟ یہ امریکہ والے بھی بڑے طوطا بلکہ طوطا طوطی چشم واقع ہوئے ہیں کہاں ہوتے تھے آصف علی زرداری ان دنوں جب وہ یعنی طوطا طوطی چشم امریکہ والے باوردی آمر مطلق پرویز مشرف اور باجمہوریت بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او کرا رہے تھے؟ ہوتے تھے وہ اس لین دین میں شرکت کرنے کے قابل؟ سوئٹزرلینڈ سے لندن تک کی عدالتوں میں ان امریکیوں کے اپنے ڈاکٹروں کے جاری کردہ درجنوں سرٹیفکیٹ موجود ہیں کہ وہ یعنی بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار تو کسی سفر اور حاضری کے قابل ہی نہیں۔ بے نظیر بھٹو بھی تو باہر والوں سے مذاکرات وغیرہ ہی کر سکتی تھیں کہ وردی شاہ اعلان جاری کیا کرتا تھا کہ ملک اور قوم کے مفاد کی خاطر میں تو بے نظیر بھٹو کو واپس آنے ہی نہیں دوں گا ملک اور قوم کے مفاد کی خاطر اندرون ملک سب مذاکرات تو مخدوم جہاں امین فہیم کرتے رہے تھے اس وردی والے شاہ کے ساتھ اور اب وہی امریکہ والے بے وردی این آر او شاہ کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کی حکمران پارٹی کے بلاچیئر خادم کے ہاتھ میں لکھا لکھوایا کاغذ ہی تھما دیتے ہیں کہ منظور کرو اور وزارت کی چوسنی پر گزارا کرو۔ اس ہال مال بروک کے اس خطاب خاص کا بھی تو یہی مطلب تھا جس میں انہوں نے انکشاف فرمایا تھا کہ جمہوریت نے بیس ماہ میں پاکستان میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں یہی کہ زرداری آیا جمہوریت لایا اس جمہوریت کے اصل خادم و مخدوم امین فہیم کو انہوں نے کوئی اشاراتی اہمیت بھی نہیں دی تھی کتنی طوطا طوطی چشمی ہے یہ؟ مگر خیر طوطے طوطیوں کی صدر مکرم کے ساتھ چشما چشمی کو چھوڑیں اور اس کی سنیں جو:۔
مخدوم سے خادم ہوا اور خادم سے بنا وزیر
دیکھو میری عقل شقل اور سمجھو میری تدبیر
گاتا بجاتا پھر رہا ہے اور ہماری حکومت جو چاہے بھارت سے معاہدہ کر سکتی ہے کی دھمکیاں دیتا سنا گیا ہے۔ ان بلاچیئر کے مین کی حکومت؟ ہلیری سے کون منوائے گا؟ اور آصف علی زرداری کو کون سمجھائے گا کہ اس مخدوم کی حکومت کو بھی کچھ کرنے دو جسے ہلیری خوردہ وزارت کا بھی نشہ چڑھنے لگا ہے اگر حکومت ان کی یا ان کی پارٹی کی ہے وزارت تجارت کے وہ خود ہی وزیر ہیں تو معاہدہ جو بھی تھا وہ خود ہی کیوں نہیں کر سکے تھے؟ جس کے بارے میں اب انکشافات کئے جا رہے ہیں کہ وہ تو ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ تھا ہی نہیں وہ تو امین فہیم کی حکومت خود کر نہیں سکی تھی اور جو چاہیں وہ معاہدے وہ کر سکتی ہے؟ کون مانے گا بھٹو گدی کے مریدوں کے سوا؟ معلوم نہیں این آر او شاہی کے مخدوم و خادم سب ہمارے خلاف اس Great Game میں ایک ہی کیوں ہیں؟ ووٹ ہمارے، خرچہ ہمارا اور Great Game وہی پرانے والی اس فرق کے ساتھ کہ اب یہ ہمارے خلاف ہے اور اس میں وہ سب پورے خلوص سے شامل ہیں جو امریکہ کی خدمات عالیہ کے بھاری اخراجات بھی ہم سے وصول کرتے ہیں۔
مسلم لیگی صفروں کا ملاپ
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
جتنی صفریں مرضی اکٹھی کر لو تو اس کا نتیجہ صفر ہی ہوگا۔ مسلم لیگ کے تین ٹکڑے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے ٹکڑ ے کہا ہے، دھڑے نہیں کہا۔ ان میں ایک بھی آدمی دھڑے کا نہیں ہے۔ دھڑلے کا آدمی بھی نہیں۔ سیاست میں لوٹوں نے لٹیا ڈبو دی ہے۔ ایک خورشید محمود قصوری بھی ہمارا دوست ہے۔ وہ محمود علی قصوری کا بیٹا ہے۔ نواز شریف سے الگ ہونے کی بات تو سمجھ آتی ہے، اپنی اہمیت کیلئے ان سے الگ ہونا ضروری تھا۔ ایسی ہی جرات سیاست چودھری برادران نے بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں نواز شریف نے نکالا ہے۔ قصوری کو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی کیا ضرورت تھی جبکہ قصوری صاحب نماز وغیرہ نہیں پڑھتے حالانکہ ان کے خاندان کی پہچان ہی علمی اور دینی روایات کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس مسلم لیگ کو مسلم لیگ کشمالہ گروپ کہا گیا ہے، اسے ہمایوں اختر نے بھی مشکوک کر دیا ہے۔ اب بھی اس کے وزیراعظم بننے کا کوئی امکان نہیں مگر اس کا کہنا ہے کہ مجھے چودھری برادران نے وزیراعظم نہیں بننے دیا۔ اس نے تب جرات کی ہوتی اور مسلم لیگ ق کو چھوڑ دیا ہوتا۔ اس کی کامیابی صرف یہ ہے کہ کشمالہ طارق نے اسے جائن کر لیا ہے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا موذن بننے کیلئے ہمایوں اختر نے اذان یاد کرنا شروع کر دی ہے، امام مسجد کیلئے ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ خورشید قصوری نے کیوں جائن کیا؟ قصوری صاحب نے یہ سوچا کہ یہ اتحاد اگر ہو بھی گیا تو کیا ہو جائے گا۔
مسلم لیگ فنکشنل یعنی پگارہ لیگ مسلم لیگ چٹھہ گروپ یعنی کشمالہ لیگ، مسلم لیگ ضیاءیعنی جنرل ضیاءگروپ۔ اعجاز الحق نے کسی بات پر قصوری صاحب کو وضاحت پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اکیلے آدمی کی مسلم لیگ ضیاءوالے کا کیا حق ہے کہ وہ وضاحت طلب کرے؟ یہ درست ہے کہ مسلم لیگ زیڈ میں جنرل ضیاءکے بیٹے کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔ کوئی پوچھے کہ پگارہ لیگ میں پیر صاحب پگارا کے علاوہ کون ہے؟ اس کے باوجود سیاستدان پیر صاحب سے جا جا کے ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں شخصیت اہم ہے پارٹی نہیں۔ یہ جو کشمالہ لیگ ہے اس میں تین چار آدمی ہیں جن کے نام وغیرہ اخبارات میں آتے رہتے ہیں۔ حامد ناصر چٹھہ، انور سیف اللہ اور خورشید محمود قصوری۔ چوتھے آدمی کیلئے کشمالہ طارق اور ہمایوں اختر خان دونوں کو جمع کرنا پڑے گا۔ ان میں لیڈر ایک ہی ہے اور وہ قصوری ہے۔ یہ چٹھہ لیگ یعنی مسلم لیگ چ کبھی مسلم لیگ جونیجو یعنی ج تھی۔ اس میں تھوڑی دیر کیلئے وٹو لیگ آئی پھر یہ مسلم لیگ ق میں جا ملی۔ ابھی تک مسلم لیگ ج موجود ہے، فضا جونیجو صدر ہیں۔ چٹھہ لیگ کبھی کبھی کشمالہ لیگ ہوتی ہے، ہمایوں اختر خوش ہو جاتا ہے۔ خورشید محمود قصوری کو قصوری لیگ بنانا چاہئے مگر یہ بھی ق لیگ ہوگی۔ وہ ق لیگ میں تھا تو وزیر خارجہ بنا، اب اسے ہمایوں اختر وزیراعظم نہیں بننے دے گا اور خود تو وہ کبھی نہ بن سکے گا۔ مسلم لیگ کی تقسیم کیلئے حروف تہجی ابھی پورے نہیں ہوئے۔ اس میں کبھی انگریزی اور کبھی اردو حروف تہجی کا جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ مخلص سچے اور سرپھرے نوید خان نے بھی ایک مسلم لیگ بنا ڈالی ہے۔ یہ مسلم لیگ نوید بھی ہو سکتی تھی۔ اس کا مخفف چونکہ ن بنتا ہے۔ نوید خان نے یہ گوارا نہیں کیا کہ مسلم لیگ نواز شریف سے کسی شراکت کا گماں بھی گزرے۔ اس نے اپنی مسلم لیگ کیلئے مسلم لیگ ایچ پسند کیا ہے۔ اس نے یہ نام ہزارہ کے صوبے کی تحریک سے متاثر ہو کر رکھا تھا مگر اب وہ ہزارہ کو صوبہ بنانے کی سوچ کے خلاف ہو گیا ہے۔ اب یہ مسلم لیگ ہزارہ گروپ کی بجائے مسلم لیگ حقیقی ہے۔ یہ دونوں ایچ ہیں۔ جس طرح مہاجر قومی موومنٹ ایم کیو ایم متحدہ قومی موومنٹ بن کر بھی ایم کیو ایم ہے۔
مسلم لیگ ایچ کے بعد مسلم لیگوں کی تعداد پوری بارہ ہو گئی ہے۔ اصل مسلم لیگ تو وہ تھی جس نے پاکستان بنایا، آل انڈیا مسلم لیگ۔ اس کا پہلا دھڑا پاکستان مسلم لیگ تھا، آخری بھی یہی ہے۔ پھر پاکستان مسلم لیگ کے کئی ٹکڑے ہوئے۔ جو بھی جرنیل آیا حکومت پر قبضہ کیا تو اس نے اپنی طاقت کیلئے اپنی مسلم لیگ بنائی۔ صدر جنرل ایوب کی کنونشن مسلم لیگ کے مقابلے میں قائداعظمؒ کی عظیم المرتبت بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی الیکشن لڑا تو وہ بھی مسلم لیگ کی امیدوار تھیں اور وہی جینوئن مسلم لیگ تھی۔ مسلم لیگ کو آمرانہ جمہوریت کیلئے جرنیلوں نے استعمال کیا۔ سیاستدانوں نے جمہوری آمریت کیلئے یہ کام کیا۔ پھر صدر جنرل ضیاءکے لئے مسلم لیگ جونیجو بنائی گئی۔ اسی میں سے مسلم لیگ نواز نکلی ہے اور اب مسلم لیگ ضیاءبھی نکل آئی ہے۔ جنرل ضیاءکے زمانے میں اعجاز الحق پاکستان میں خاص طور پر نہ آیا تھا۔ جمہوریت کے متوالوں نے جرنیلوں کے بیٹوں کو وزارتیں دیں۔ جنرل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب کو بھی نواز شریف نے وزیر بنایا تھا۔
چودھری برادران مسلم لیگ چودھری گروپ یعنی چودھری لیگ بھی بنا سکتے تھے مگر انہوں نے مسلم لیگ قائداعظم کا نام پسند کیا جسے لوگ مسلم لیگ ق کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری مسلم لیگ شریف برادران کی ہے مسلم لیگ نواز جسے مسلم لیگ ن کہتے ہیں۔ یہی دو مسلم لیگیں ہیں جن کی اہمیت ہے۔ ان کا اتحاد ہی مسلم لیگوں کا اتحاد ہے۔ اس کے لئے مجید نظامی نے خواہش کی ہے اور کوشش بھی کی ہے۔ دونوں مسلم لیگوں کی لیڈرشپ نظامی صاحب کی عزت کرتی ہے۔ہمایوں اختر خان ابھی بیرسٹر سیف اور جنرل راشد قریشی کو مسلم لیگ میں شامل نہیں کر سکا اور وہ جنرل مشرف کو تین برائے نام مسلم لیگوں کی نام نہاد متحدہ مسلم لیگ کا سربراہ بنانے نکلا ہے۔ ڈاکٹر شیر افگن سے وہی کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ق لیگ میں جنرل مشرف نے لیا تھا۔ جنرل مشرف جب آرمی چیف صدر پاکستان تھا تو اس نے مسلم لیگ کی سربراہی نہ کی تھی۔ وہ آرمی چیف نہ رہا تو صدر بھی نہ رہا۔ ریٹائرڈ ہو کر کوئی جرنیل وزیر شذیر تو بن سکتا ہے، وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ آرمی چیف جنرل (ر) اسلم بیگ اپنی سیاسی پارٹی فرینڈز بنا کے بھی سیاست کو نہ اپنا سکے۔ اب کبھی کبھی کالم لکھ دیتے ہیں۔ جنرل حمید گل بھی دانشوری کی خوشبو پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کی گفتگو عسکری اور سیاسی دانشوری کا امتزاج لئے ہوئے ہوتی ہے۔ پھر جنرل مشرف کس باغ کی مولی ہے؟ اس کی حیثیت اب پاکستانی سیاست میں گاجر مولی کی ہے۔ سنا ہے گاجریں ہمایوں اختر کو بڑی پسند ہیں۔ جنرل (ر) مشرف دبئی تک آگئے ہیں۔ پاکستان سے 246 لوگ اسے ملنے گئے ہیں۔ نوائے وقت کے ادارتی صفحے پر سرراہے میں آل پاکستان مشرف لیگ کو آل پاکستان دبئی لیگ کہا گیا ہے۔ دبئی کی بڑی اہمیت پاکستان میں ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت کا تبصرہ اس حوالے سے بامعنی اور سیاسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے پارٹی چھوڑ کر جانے والے واپس آئیں پھر بات ہوگی۔ تمام مسلم لیگوں والے اصل میں ایک ہی مسلم لیگ کے لوگ ہیں۔ انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ ملک میں دال کا بحران آنے والا ہے۔ چودھری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے ہیں دال میں کچھ کالا ہے۔ اب تو یہ کالک بن گئی ہے۔ کئی سیاست دانوں نے آئینہ دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ آئین اور آئینہ میں فرق نہیں رہا۔ حیرت ہے کہ آئینہ جب میں دیکھتا ہوں کالا سا کوئی اور نظر آتا ہے۔