آج سے دو دہائیاں پہلے میاں نواز شریف کی تقاریر سنیں تو وہ جنرل ضیا کو خراج عقیدت اور بینظیر کی مخالفت سے بھری ہوتی تھیں جبکہ آج کی تقاریر کا فوکس جمہوریت ہوچکا ھے۔
پیپلزپارٹی کی پرانی تقاریر سنیں تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی مظلومیت کی داستانوں سے بھری ہوتی تھیں اور آج وہ انہی کے ساتھ مفاہمت کا پرچار کرکے اپنا منہ کالا کررھے ہوتے ہیں۔
اسی طرح چوہدری برادران، شیخ رشید، الطاف حسین سمیت سب کے سب سیاستدانوں کی ماضی کی تقاریر آج کے بیانات سے نہیں ملتی۔
ابھی ابھی میں نے عمران خان کی 1996 کی ایک تقریر سنی جو انہوں نے مریدکے میں ایک چھوٹے سے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔
خان صاحب نے اس وقت بھی اپنی تقریر کا آغاز ایاک نعبد وایاک نستعین سے کیا تھا۔
اس وقت بھی خان صاحب نے روایتی سیاستدانوں کی مذمت کی تھی اور ان کی کرپشن کے خلاف جدوجہد کا عزم کیا تھا۔
آج سے 18 سال پرانی خان صاحب کی اس تقریر میں اور آج کی تقریروں میں صرف ایک فرق آیا ھے۔ اب خان صاحب پر بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ اب ان کے چہرے پر تھکاوٹ نظر آنے لگی ھے۔ ان کی آنکھوں میں تفکر بڑھتا جارھا ھے۔ اب ان کے اعتماد میں کچھ کمی آتی جارہی ھے۔
یہ سب اس لئے کہ ان کی نیت نیک تھی اور ھے، لیکن ابھی تک ہماری قوم نے اس طرح ان کا ساتھ نہیں دیا جس طرح یہ قوم کرپٹ سیاستدانوں کا ساتھ دیتی آئی ھے۔
ابھی بھی خان کو گالیاں دینے والوں کی کمی نہیں، ابھی بھی عوام اس کے مقابلے میں زرداری، نوازشریف، الطاف حسین اور فضل الرحمان کو ووٹ دے کر خوش ہوتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی پرانی تقاریر سنیں تو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی مظلومیت کی داستانوں سے بھری ہوتی تھیں اور آج وہ انہی کے ساتھ مفاہمت کا پرچار کرکے اپنا منہ کالا کررھے ہوتے ہیں۔
اسی طرح چوہدری برادران، شیخ رشید، الطاف حسین سمیت سب کے سب سیاستدانوں کی ماضی کی تقاریر آج کے بیانات سے نہیں ملتی۔
ابھی ابھی میں نے عمران خان کی 1996 کی ایک تقریر سنی جو انہوں نے مریدکے میں ایک چھوٹے سے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔
خان صاحب نے اس وقت بھی اپنی تقریر کا آغاز ایاک نعبد وایاک نستعین سے کیا تھا۔
اس وقت بھی خان صاحب نے روایتی سیاستدانوں کی مذمت کی تھی اور ان کی کرپشن کے خلاف جدوجہد کا عزم کیا تھا۔
آج سے 18 سال پرانی خان صاحب کی اس تقریر میں اور آج کی تقریروں میں صرف ایک فرق آیا ھے۔ اب خان صاحب پر بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ اب ان کے چہرے پر تھکاوٹ نظر آنے لگی ھے۔ ان کی آنکھوں میں تفکر بڑھتا جارھا ھے۔ اب ان کے اعتماد میں کچھ کمی آتی جارہی ھے۔
یہ سب اس لئے کہ ان کی نیت نیک تھی اور ھے، لیکن ابھی تک ہماری قوم نے اس طرح ان کا ساتھ نہیں دیا جس طرح یہ قوم کرپٹ سیاستدانوں کا ساتھ دیتی آئی ھے۔
ابھی بھی خان کو گالیاں دینے والوں کی کمی نہیں، ابھی بھی عوام اس کے مقابلے میں زرداری، نوازشریف، الطاف حسین اور فضل الرحمان کو ووٹ دے کر خوش ہوتے ہیں۔