[TABLE="align: center"]
[TR]
[TD][/TD]
[TD="align: center"][/TD]
[/TR]
[TR]
[TD][TABLE="align: center"]
[TR]
[TD="colspan: 2"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD]
[/TD]
[TD="width: 3%"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: date_txt, colspan: 2, align: right"]2/3/2010[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"] تیر و نشتر کی طرح دلوں کو چیرتی خبروں کے ہجوم میں لاہور کی ایک تقریب کے حوالے سے دو پاکستانیوں کے تاثرات تازہ گلاب کی سی خوشبو چھوڑ گئے۔
”میرا نام منور علی ہے۔ میں ساہیوال میں موٹر سائیکلوں کو پنکچر لگانے کا کام کرتا ہوں۔ میں خود صرف مڈل پاس ہوں اور میری بیوی انپڑھ ہے۔ میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ ایک دن میرا بیٹا، بڑے امیر لوگوں کے بچوں کے ساتھ لمز (LUMS) جیسے ادارے میں پڑھے گا۔ میں پانچ لاکھ روپے کہاں سے لاتا؟“
”
میرا نام فرخ ممتاز ہے میں 28سال سے میو ہسپتال لاہور میں درزی کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ میں خود تعلیم حاصل نہ کر سکا لیکن بڑی خواہش تھی کہ میرے بچے پڑھ لکھ کر نام پیدا کریں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ آج میرے لئے کتنی خوشی کا دن ہے کہ میرا بیٹا لمز (LUMS) میں داخل ہو رہا ہے اور اس کا سارا خرچہ پنجاب حکومت برداشت کرے گی اللہ شہباز کو اجر دے۔“
جب بھی میں ایسی خبر دیکھتا ہوں کہ ایک ہونہار نوجوان اپنے غریب والدین کی ناداری کے باعث اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ گیا تو ایک چوٹ سی لگتی ہے اس کے برعکس جب پتہ چلتا ہے کہ کچھ اہل خیر یا فلاحی تنظیمیں ایسے بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے اخراجات کا اہتمام کر رہی ہیں تو دل آسودگی کے احساس سے چھلکنے لگتا ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے ایک کم وسیلہ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میٹرک تک کی تعلیم تقریباً مفت تھی سو کسی نہ کسی طور چلتی رہی لیکن غربت نے آگے کی راہیں بند کر دیں۔ مجھے اٹھارہ سال کی عمر میں نوکری کے کولہو میں جتنا پڑا۔ لیکن ماں باپ نے تعلیم کے شوق کا چراغ میرے قلب و دماغ میں روشن رکھا اور دعاؤں کی رسد میں کبھی کمی نہ آنے دی۔ آٹھ برس بعد اپنی جدوجہد سے ایم اے اور پھر بی ایڈ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد جس دن میں نے وفاقی حکومت کے ایک کالج میں اردو کی لیکچرر شپ سنبھالی۔ وہ دن شاید میرے والدین کی زندگی کا سب سے جمیل دن تھا مجھے اپنی ماں کی آنکھوں میں تیرتے وہ آنسو آج بھی دکھائی دے رہے ہیں جن میں تکمیل آرزو کی سرشاری اور اللہ تعالیٰ کے بے پایاں تشکر کے کتنے ہی رنگ جھلملا رہے تھے۔
منور علی اور فرخ ممتاز خوش نصیب ہیں کہ آج ان کے ہونہار بچوں کی انگلی تھامنے اور سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھنے والا کوئی ہے انہوں نے اپنے بے لاگ تاثرات کا اظہار لاہور کی اس تقریب میں کیا جو پنجاب سے تعلق رکھنے والے ہونہار طلبہ و طالبات کے ملک کی معروف درس گاہ، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں داخلے کے حوالے سے منعقد ہوئی۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
”غربت، غلامی اور بھکاری پن کا طوق اتارنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قوم کے نوجوانوں کو ایسی معیاری تعلیم سے آراستہ کیا جائے جس سے وہ بابو بننے کے بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دے کر ملک کو تیزی سے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکیں۔ اس ملک پر غریبوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا مٹھی بھر اشرافیہ کا۔ نوجوان نسل نہ صرف ہمارا قیمتی سرمایہ ہے بلکہ ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مالی مشکلات سے دوچار ہونہار طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور ان کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے لئے پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ جیسا انقلابی پروگرام شروع کیا ہے۔ اب انشاء اللہ پنجاب کا کوئی باصلاحیت طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔ پنجاب حکومت کے ”دانش اسکول منصوبے“ پر صرف اس لئے تنقید کی جاتی ہے کہ اس سے غریب کے بچے مستفید ہوں گے جبکہ ایچی سن، گرامر اسکول، کیڈٹ کالج اور ایسے ہی دیگر تعلیمی اداروں کے قیام پر اسلئے اعتراض نہیں کیا جاتا کہ وہاں دولت مند اشرافیہ کے بچے پڑھتے ہیں۔“
شہباز کے اندر کلبلاتا انقلابی اکثر بلبلاتا رہتا ہے۔ وہ ”یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک“ قسم کا جنونی ہے۔ وہ مشکل حالات، مرکز کے نامہربان رویئے، مالی مشکلات، مخلوط حکومت کے مسائل اور ہر آن فتنہ و فساد پہ آمادہ گورنر کے باوجود اپنی صحت اور ڈاکٹروں کی تلقین کی پروا کئے بغیر برسرعمل رہتا ہے۔ سنگلاخ چٹانوں سے جوئے شیر بہا لانے کا دور لد گیا لیکن شہباز کی کارکردگی محسوس کی جاسکتی ہے خصوصاً اس نے تعلیم اور صحت عامہ جیسے شعبوں میں نمایاں کام کیا ہے۔ ہمارے ہاں ہر دامن پر حریفانہ ہاتھ ڈالنے اور ہر کسی کی پگڑی اچھالنے کو ہی کمال ہنر سمجھا جاتا ہے۔ کیڑے نکالے بغیر خبر میں نکھار نہیں آتا اور تبریٰ بھیجے بغیر کالم میں ”پیغمبرانہ بانکپن“ پیدا نہیں ہوتا۔ ہم سب کا دامن فرشتوں کے پروں کی طرح اجلا ہے اور ہمارے قلم کی زد میں آیا ہر شخص گناہوں کی پوٹ ہے سو ہر خوبی سمٹ کر رائی اور ہر کمزوری پھیل کر پہاڑ بن جاتی ہے۔
حکومت پنجاب نے گزشتہ برس دو ارب روپے سے ایک خصوصی فنڈ قائم کیا اس فنڈ کا مقصد ان کم وسیلہ طلبہ و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وسائل فراہم کرنا ہے جو بورڈ کے امتحانات میں اعلیٰ کارکردی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے منصوبے کے مطابق اس فنڈ میں ہر سال 2ارب روپے کا اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔ اس وقت انڈومنٹ فنڈ کا حجم 4ارب ہو چکا ہے موجودہ حکومت کی میعاد پوری ہونے تک یہ رقم دس ارب روپے تک پہنچ جائیگی۔ معروف یونیورسٹی لمز کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق جتنے ہونہار اور نادار طلبہ کی کفالت حکومت پنجاب کرے گی اتنے ہی بچوں کی مفت تعلیم کا اہتمام یونیورسٹی خود کرے گی گزشتہ برس ساہیوال، لاہور، راولپنڈی، گجرات، رحیم یار خان، وہاڑی، ملتان، خانیوال اور سرگودھا سے بیس طلبہ و طالبات کو لمز میں داخلہ دلایا گیا۔ اگلے برس یہ تعداد 50کی جا رہی ہے۔ لمز کے چیئرمین سید بابر علی نے مساوی تعداد میں بچوں کی کفالت کا عہد کیا ہے۔ اسی طرح کا اہتمام فاسٹ سے بھی کیا جا رہا ہے۔ ان غریب طلبا کے لئے بیرون ملک تعلیم کا دروازہ بھی کھولا جا رہا ہے۔
قوم کے جوہر قابل کو معاشرے کے کوڑا دان کا رزق ہونے سے بچانا انتہائی لائق تحسین کام ہے تعلیم کے شعبے میں شہباز شریف کا ایک اور بڑا قدم یہ ہے کہ اساتذہ کا دیرینہ مسئلہ حل کرتے ہوئے چالیس ہزار ایجوکیٹرز تعینات کئے گئے اور حتی الامکان سخت میرٹ کی پاسداری کی گئی۔
اس دوران بے یقینی کے شکار ایک لاکھ نو ہزار کنٹریکٹ اساتذہ کو مستقل کر دیا گیا۔ پنجاب کے 36 اضلاع کے 4286 سکولوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی لیبارٹریز قائم کی گئیں جہاں کمپیوٹرز، انٹرنیٹ اور پرنٹر کی سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر سال تقریباً 34لاکھ بچے ان آئی ٹی لیبز سے استفادہ کریں گے۔ آئی ٹی اساتذہ کی تربیت کیلئے حکومت پنجاب کا معروف کمپنی ”مائیکرو سافٹ“ سے معاہدہ بھی طے پایا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پنجاب نے 117 ارب روپے تعلیم کے لئے مختص کئے ہیں جو صوبے کے مجموعی بجٹ کا بیس فیصد ہے۔ یہ قابل قدر تناسب ہے کیونکہ وفاقی حکوت عملاً 2فیصد کے لگ بھگ تعلیم کو دے رہی ہے۔قوم کے ہونہار طلبہ و طالبات کی ہمہ پہلو حوصلہ افزائی پر خصوصی توجہ شہباز کے وسیع تر مشن کا ایک پہلو ہے وہ ان بچوں کو ملکی اور غیرملکی دورے کرا رہے ہیں۔ ان کے لئے گارڈ آف آنر کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیم کی سہولتیں دے رہے ہیں۔ شہباز نے بجا طور پر اس نکتے کو سمجھ لیا ہے کہ تعلیم کے میدان مں انقلاب لائے بغیر قوم کے امراض کہن کی چارہ گری نہیں ہو سکتی۔
ان کلمہ ہائے تحسین کے ساتھ ساتھ تعلیم ہی سے متعلق بعض اہم پہلوؤں کی نشاندہی بھی ضروری ہے جو کسی اگلے کالم میں۔ فی الحال میں نادار بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی تمام سہولتیں فراہم کرنے پر شہباز کو شاباش دینا چاہتا ہوں کہ یہ میری ماں کی آنکھوں میں جھملاتے آنسوؤں کے قرض کی ایک چھوٹی سی قسط ہے۔
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: date_txt, colspan: 2, align: center"][/TD]
[/TR]
[/TABLE]
[/TD]
[TD="width: 93, align: center"][/TD]
[/TR]
[/TABLE]