
حامد میر پاکستانی میڈیا انڈسٹری کا نمایاں نام ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، دونوں میں ان کا نام اور کام، نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ 1987ء میں پرنٹ میڈیا سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ ڈیسک پر کام کیا، رپورٹنگ میں کئی معرکے سر کیے، بطور کالم نگار اپنے آپ کو منوایا، اور پھر کم عمری میں اخبار کا مدیر بن کر صحافتی حلقوں کو حیران کر دیا۔ ان کے کئی انٹرویوز نے تہلکہ مچایا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کے ساتھ انٹرویو ہو یا ملک کے اندر ہونے والی اہم ترین تبدیلیوں سے متعلق پیشگی خبریں، انہوں نے بہت سے مواقع پر سبقت حاصل کی۔ اُسامہ بن لادن کے ساتھ انٹرویوز نے عالمی سطح پر انھیں شہرت بخشی۔ 2006ء میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا تو حامد میر وہاں پہنچے اور گولیوں کی برسات میں خبریں دیں۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کا قیام عمل میں آیا تو ”کیپٹل ٹاک“ کے عنوان سے شو شروع کیا، جسے بےحد پذیرائی ملی، آغاز سے اس کا شمار پاکستان کے مقبول ترین ٹاک شوز میں ہوتا ہے۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ میں حادثاتی طور پر صحافت میں آیا، شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں بہت سے ”حادثات“ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 2014ء میں ان پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ انہیں دوسری زندگی ملی۔ ان کے مطابق پاکستان چھوڑنے کے لیے ان پر بےحد دباؤ تھا، لیکن انہوں نے اسے برداشت کیا۔ حامد میر نے بے شمار ایوارڈز وصول کیے، 2016ء میں انہیں most resilient journalist کا ایوارڈ ملا۔
”دلیل“ نے پاکستان کی اہم شخصیات کے ساتھ انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا۔ جناب حامد میر نے ہماری درخواست پر اس کےلیے طویل وقت دیا اور بہت سے اہم انکشافات کیے۔ ان کے اس اہم ترین انٹرویو کی پہلی قسط آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔
جمال عبداللہ عثمان انٹرویو کرتے ہوئے
دلیل: صحافت میں آج آپ ایک اہم مقام رکھتے ہیں، کیرئیر کا آغاز کب اور کیسے کیا؟
حامد میر: یوں سمجھ لیجیے کہ میں صحافی حادثاتی طور پر بنا۔ اس کی کہانی دلچسپ ہے، البتہ اس سے پہلے یہ بتا دوں کہ لکھنے پڑھنے کا شوق مجھے بچپن سے تھا۔ ”نوائے وقت“ میں میری پہلی تحریر اس وقت شائع ہوئی جب میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ باقی اخبارات کے لیے بھی وقتاً فوقتاً لکھ کر بھیجتا رہا اور تحریریں چھپتی رہیں۔ کالج پہنچا تو فرسٹ ائیر میں ”دی مسلم“ کے لیے ڈائری لکھنا شروع کر دی۔ یہ اخبار اسلام آباد سے نکلتا تھا اور اس وقت اس کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید تھے۔ اس کے علاوہ انھی دنوں ”پاکستان ٹائمز“ اور ”ڈان“ کے لیے بھی لکھنا شروع کیا۔
میں بنیادی طور پر کرکٹر تھا۔ صحافی حادثاتی طور پر بنا۔ والد مرحوم نے کبھی میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں صحافی بنوں۔ والد صاحب زندہ رہتے تو شاید میں صحافت میں نہ آتا
یہ الگ بات ہے کہ والد مرحوم نے کبھی میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی۔ دراصل وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں صحافی بنوں۔ انھوں نے کئی بار مجھے واضح الفاظ میں سمجھایا کہ پاکستان میں صحافت آسان پیشہ نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا دور تھا۔ صحافت کے لیے بہت ہی کٹھن اور مشکل وقت۔ والد صاحب کو بھی اپنی تحریروں کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ صحافت اچھا کیرئیر نہیں۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ خود صحافت کے استاذ بھی تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں جو صحافت یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے، اس کا معیار زیادہ اچھا نہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ماس کمیونی کیشن کے چیئرمین ہوتے ہوئے انہوں نے نصاب بدلنے اور اسے جدید بنانے کی کوشش کی، لیکن انہیں کافی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
”ہمارے ہاں ایم اے جرنل ازم اور میٹرک کا امتحان دونوں برابر ہیں۔“ مجھے ابھی تک اپنے والد کے الفاظ یاد ہیں۔
مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ میں بھی صحافت کا پیشہ اختیار نہ کرنے سے متعلق اپنا ذہن بناچکا تھا۔ البتہ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔
دلیل: لکھنے پڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ کیا والد صاحب بھی اس سلسلے میں راہنمائی کرتے تھے؟
حامد میر: جیسے میں نے عرض کیا کہ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، اس میں گھر کے ماحول کا اثر ہے۔ والد صاحب تربیت کرتے تھے۔ مختلف انداز سے مختلف اوقات میں بتاتے بھی تھے کہ کیا پڑھنا ہے اور کیسے؟ مثلاً: اگر میں ٹارزن کی کہانی پڑھ رہا ہوں تو وہ مجھے ٹیپو سلطان سے متعلق کوئی کتاب لا کر دیتے کہ یہ پڑھیں۔ ایسا نہیں کہ ٹارزن پڑھنے سے منع کیا ہو، البتہ اسی سے متعلق کوئی اور کتاب بھی لاکر دیتے کہ یہ بھی پڑھیں۔ اسی طرح اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ یاد ہے، میں سبط حسن کی کتاب ”ماضی کے مزار“ پڑھ رہا تھا۔ والد صاحب نے دیکھا تو اگلے دن مولانا عبیداللہ سندھی کی آپ بیتی لے کر آئے اور کہا کہ اسے بھی پڑھیں۔ پھر بتایا مجھے پتا ہے کہ یہ آپ جن کی کتاب پڑھ رہے تھے، بائیں بازو کے ہیں، لیکن درحقیقت اسلام کے بھی یہی نظریات ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہے، اس سے دونوں کا تناظر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
دلیل: آپ نے بتایا کہ حادثاتی طور پر صحافی بنا، اس کی کچھ تفصیل بتائیے گا۔
حامد میر: میں بنیادی طور پر کرکٹر تھا۔ 1986ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ تک پہنچ گیا۔ قائداعظم ٹرافی بھی کھیلی۔ اس دوران میں والد صاحب کا انتقال ہوا۔ والد صاحب کا انتقال 9 جولائی 1987ء کو ہوا۔ میرا بی اے کا نتیجہ نیا نیا آیا تھا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئیں۔ پوچھا: نوجوان! آپ کیا کرتے ہیں؟ میں اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں چوتھے سال کا طالب علم تھا۔ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو میں نے انہیں بتایا کہ میں کرکٹ کھیلتا ہوں۔ کرکٹ کی طرف میرا رجحان ویسے بھی زیادہ تھا اور میرا خیال بھی یہی تھا کہ مجھے اسی کو کیرئیر بنانا چاہیے۔
no no, you should follow the footstep of your father
یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔
”ہمارے ہاں ایم اے جرنل ازم اور میٹرک کا امتحان دونوں برابر ہیں۔“ مجھے ابھی تک اپنے والد کے الفاظ یاد ہیں۔
مجھے محسوس ہوتا تھا کہ وہ میری حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ شاید اسی کا نتیجہ تھا کہ میں بھی صحافت کا پیشہ اختیار نہ کرنے سے متعلق اپنا ذہن بناچکا تھا۔ البتہ لکھنے پڑھنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔
دلیل: لکھنے پڑھنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ کیا والد صاحب بھی اس سلسلے میں راہنمائی کرتے تھے؟
حامد میر: جیسے میں نے عرض کیا کہ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، اس میں گھر کے ماحول کا اثر ہے۔ والد صاحب تربیت کرتے تھے۔ مختلف انداز سے مختلف اوقات میں بتاتے بھی تھے کہ کیا پڑھنا ہے اور کیسے؟ مثلاً: اگر میں ٹارزن کی کہانی پڑھ رہا ہوں تو وہ مجھے ٹیپو سلطان سے متعلق کوئی کتاب لا کر دیتے کہ یہ پڑھیں۔ ایسا نہیں کہ ٹارزن پڑھنے سے منع کیا ہو، البتہ اسی سے متعلق کوئی اور کتاب بھی لاکر دیتے کہ یہ بھی پڑھیں۔ اسی طرح اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ یاد ہے، میں سبط حسن کی کتاب ”ماضی کے مزار“ پڑھ رہا تھا۔ والد صاحب نے دیکھا تو اگلے دن مولانا عبیداللہ سندھی کی آپ بیتی لے کر آئے اور کہا کہ اسے بھی پڑھیں۔ پھر بتایا مجھے پتا ہے کہ یہ آپ جن کی کتاب پڑھ رہے تھے، بائیں بازو کے ہیں، لیکن درحقیقت اسلام کے بھی یہی نظریات ہیں۔ تھوڑا سا فرق ہے، اس سے دونوں کا تناظر سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
دلیل: آپ نے بتایا کہ حادثاتی طور پر صحافی بنا، اس کی کچھ تفصیل بتائیے گا۔
حامد میر: میں بنیادی طور پر کرکٹر تھا۔ 1986ء میں فرسٹ کلاس کرکٹ تک پہنچ گیا۔ قائداعظم ٹرافی بھی کھیلی۔ اس دوران میں والد صاحب کا انتقال ہوا۔ والد صاحب کا انتقال 9 جولائی 1987ء کو ہوا۔ میرا بی اے کا نتیجہ نیا نیا آیا تھا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئیں۔ پوچھا: نوجوان! آپ کیا کرتے ہیں؟ میں اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں چوتھے سال کا طالب علم تھا۔ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو میں نے انہیں بتایا کہ میں کرکٹ کھیلتا ہوں۔ کرکٹ کی طرف میرا رجحان ویسے بھی زیادہ تھا اور میرا خیال بھی یہی تھا کہ مجھے اسی کو کیرئیر بنانا چاہیے۔
no no, you should follow the footstep of your father
یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔
پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازمت شروع کی۔ کیرئیر کی شروعات میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ میں وارث میر کا بیٹا تھا۔
میں گھر میں بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ دادا حیات تھے، لیکن وہ کافی بزرگ تھے، ان سے مشورہ نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی شش و پنج میں تھا کہ آگے کیا کرنا چاہیے۔ اسی دوران میں روزنامہ جنگ کے اندر اشتہار چھپا: ”ضرورت برائے سب ایڈیٹرز“۔ اپنے اسکول اور کالج کے زمانے کی آٹھ دس اُردو اور انگریزی کی تحریریں اکٹھی کیں اور اپنے کوائف کے ساتھ روانہ کر دیا۔ تحریری ٹیسٹ کے لیے مجھے بلا لیا گیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے اے پی پی انگریزی کی کوئی خبر تھی، اس کا ترجمہ کرنا تھا۔ میں نے ترجمہ کیا۔ پھر زبانی ٹیسٹ ہوا، وہ بھی دیا، اس میں بھی کامیاب قرار پایا۔ اس طرح پندرہ سو روپے ماہوار پر مجھے probationary period کے لیے رکھ لیا گیا۔
میں نے نیم دلی کے ساتھ ملازمت شروع کردی۔ ساتھ ہی یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے لیا۔ وہاں میرے والد صاحب کے ہم عصر اساتذہ کو پتا چلا تو انھوں نے پوری کوشش کی کہ میں صحافت نہ پڑھوں۔ مجھے ابھی تک یاد ہے ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب ہمارے چیئرمین تھے۔ انھوں نے مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کا داخلہ ایم بی اے میں کروا دیتا ہوں۔ آپ وہاں کیرئیر بنائیں، صحافت کو چھوڑ دیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں
آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ میں صحافت میں کیوں گیا؟ مجھے دراصل والد صاحب کی بات یاد تھی کہ صحافت میں ماسٹرز اور میٹرک کا امتحان برابر ہے۔ میں نے نوکری شروع کر لی تھی اور ساتھ میں اپنی تعلیم بھی مکمل کرنی تھی تو ذہن میں آیا کہ نوکری کے ساتھ آسانی سے ماسٹرز بھی کرلوں گا۔ چنانچہ اپنی آسانی کے لیے صحافت میں داخلہ لے لیا۔ اگر میرے والد صاحب زندہ رہتے تو شاید میں صحافت میں نہ آتا۔
میں نے نیم دلی کے ساتھ ملازمت شروع کردی۔ ساتھ ہی یونیورسٹی میں داخلہ بھی لے لیا۔ وہاں میرے والد صاحب کے ہم عصر اساتذہ کو پتا چلا تو انھوں نے پوری کوشش کی کہ میں صحافت نہ پڑھوں۔ مجھے ابھی تک یاد ہے ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب ہمارے چیئرمین تھے۔ انھوں نے مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ میں آپ کا داخلہ ایم بی اے میں کروا دیتا ہوں۔ آپ وہاں کیرئیر بنائیں، صحافت کو چھوڑ دیں، اس کا کوئی فائدہ نہیں
آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ میں صحافت میں کیوں گیا؟ مجھے دراصل والد صاحب کی بات یاد تھی کہ صحافت میں ماسٹرز اور میٹرک کا امتحان برابر ہے۔ میں نے نوکری شروع کر لی تھی اور ساتھ میں اپنی تعلیم بھی مکمل کرنی تھی تو ذہن میں آیا کہ نوکری کے ساتھ آسانی سے ماسٹرز بھی کرلوں گا۔ چنانچہ اپنی آسانی کے لیے صحافت میں داخلہ لے لیا۔ اگر میرے والد صاحب زندہ رہتے تو شاید میں صحافت میں نہ آتا۔
آٹھ کے بجائے سولہ گھنٹے کام کیا۔ جو بھی کام دیتا، بخوشی لے لیتا۔ ایک لحاظ سے آفس میں ”ریلو کٹا“ بن گیا۔
دلیل: آپ وارث میر کے صاحبزادے تھے، یقیناً کیریئر شروع کرنے کے بعد اس کا فائدہ ہوا ہوگا؟
حامد میر: کیرئیر کی شروعات میں سب سے بڑی مشکل ہی یہ تھی کہ میں وارث میر کا بیٹا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں لاہور ”جنگ“ نیوز روم میں گیا۔ وہاں جو لوگ تھے، ان میں جنرل ضیاء الحق کے کئی حامی تھے۔ بہت مزاحمت ہوئی۔ ان میں سے ایک سب ایڈیٹر تھے، انہوں نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ”ہم دیکھ لیں گے۔“ بعد میں ان کے ساتھ اچھی دوستی ہوگئی۔ اگرچہ ایسا بھی نہیں تھا کہ سارے ہی مخالف تھے، ان میں میرے ہمدرد بھی تھے۔ لیکن مزاحمت کا سامنا بہرحال زیادہ رہا۔
میں نے لیکن گھبرانے کے بجائے اپنی کارکردگی پر زیادہ توجہ دی۔ آٹھ کے بجائے سولہ گھنٹے کام کیا۔ ایسا بھی ہوا کہ نیوز روم میں آٹھ گھنٹے کام کیا، اس کے بعد دفتر میں بیٹھ کر یا گھر آکر میگزین کا کام شروع کردیا۔ میں ترجمہ کرتا تھا اور اس کی شہرت پورے دفتر میں پھیل چکی تھی۔ میگزین میں میری تحریریں چھپنا شروع ہوئیں۔ پھر ایک بات یہ بھی تھی کہ مجھے جو بھی کام دیتا، میں بخوشی لے لیتا۔
”آپ کا ترجمہ بہت اچھا ہے، یہ ذرا مضمون ہمیں ترجمہ کرکے دے دیں۔“ میگزین والے کسی بھی وقت کہہ دیتے۔
میں ان سے کام لے لیتا۔ اگلے دن کہا جاتا کہ اس موضوع پر لکھ کر بھی دے دیں، وہ بھی کردیتا۔ اس طرح تسلسل کے ساتھ میری تحریریں چھپنے لگیں۔ مثلاً: پیر کے دن سیاسی ایڈیشن میں تحریر چھپی ہے، منگل کے دن ملی ایڈیشن میں آگئی۔ خواتین ایڈیشن کی انچارج میرے والد صاحب کی سابقہ طالبہ تھیں۔ وہاں مرد کا نام نہیں چھپ سکتا تھا، ”ح م“ کے نام سے کسی مضمون کا ترجمہ آگیا۔ میں چونکہ کرکٹر بھی تھا۔ اسپورٹس انچارج شاہد شیخ صاحب مجھ سے اپنے ایڈیشن کے لیے کچھ لکھوالیتے۔ اس طرح میں ”ریلو کٹا“ بن گیا۔
حامد میر: کیرئیر کی شروعات میں سب سے بڑی مشکل ہی یہ تھی کہ میں وارث میر کا بیٹا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں لاہور ”جنگ“ نیوز روم میں گیا۔ وہاں جو لوگ تھے، ان میں جنرل ضیاء الحق کے کئی حامی تھے۔ بہت مزاحمت ہوئی۔ ان میں سے ایک سب ایڈیٹر تھے، انہوں نے اپنی ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: ”ہم دیکھ لیں گے۔“ بعد میں ان کے ساتھ اچھی دوستی ہوگئی۔ اگرچہ ایسا بھی نہیں تھا کہ سارے ہی مخالف تھے، ان میں میرے ہمدرد بھی تھے۔ لیکن مزاحمت کا سامنا بہرحال زیادہ رہا۔
میں نے لیکن گھبرانے کے بجائے اپنی کارکردگی پر زیادہ توجہ دی۔ آٹھ کے بجائے سولہ گھنٹے کام کیا۔ ایسا بھی ہوا کہ نیوز روم میں آٹھ گھنٹے کام کیا، اس کے بعد دفتر میں بیٹھ کر یا گھر آکر میگزین کا کام شروع کردیا۔ میں ترجمہ کرتا تھا اور اس کی شہرت پورے دفتر میں پھیل چکی تھی۔ میگزین میں میری تحریریں چھپنا شروع ہوئیں۔ پھر ایک بات یہ بھی تھی کہ مجھے جو بھی کام دیتا، میں بخوشی لے لیتا۔
”آپ کا ترجمہ بہت اچھا ہے، یہ ذرا مضمون ہمیں ترجمہ کرکے دے دیں۔“ میگزین والے کسی بھی وقت کہہ دیتے۔
میں ان سے کام لے لیتا۔ اگلے دن کہا جاتا کہ اس موضوع پر لکھ کر بھی دے دیں، وہ بھی کردیتا۔ اس طرح تسلسل کے ساتھ میری تحریریں چھپنے لگیں۔ مثلاً: پیر کے دن سیاسی ایڈیشن میں تحریر چھپی ہے، منگل کے دن ملی ایڈیشن میں آگئی۔ خواتین ایڈیشن کی انچارج میرے والد صاحب کی سابقہ طالبہ تھیں۔ وہاں مرد کا نام نہیں چھپ سکتا تھا، ”ح م“ کے نام سے کسی مضمون کا ترجمہ آگیا۔ میں چونکہ کرکٹر بھی تھا۔ اسپورٹس انچارج شاہد شیخ صاحب مجھ سے اپنے ایڈیشن کے لیے کچھ لکھوالیتے۔ اس طرح میں ”ریلو کٹا“ بن گیا۔
غداری کا الزام لگایا، گاڑی کے نیچے بم رکھ دیا، قاتلانہ حملہ ہو گیا، توہین رسالت کا جھوٹا الزام تک لگ گیا، میرے ساتھ اس سے زیادہ کیا کریں گے؟
مجھے یاد ہے جب بہت زیادہ نام چھپنا شروع ہوا تو معروف صحافی نثار عثمانی صاحب مرحوم نے مجھ سے کہا: یہ ٹھیک نہیں کہ ہر جگہ تمھارا نام چھپ رہا ہے۔ کم ازکم خواتین ایڈیشن میں تو نام چھپوانے سے گریز کرو۔ میں ان سے کہتا میں نہیں چاہتا کہ ہر جگہ میرا نام چھپے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھ سے انکار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا: اب کام کے ساتھ ”انکار“ بھی سیکھو۔ انکار نہیں کرسکتے تو کم ازکم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ نام کا مخفف بھی نہ چھپے۔ سارا شہر جانتا ہے کہ ”ح م“ کون ہے۔ اسپورٹس کے صفحے کے لیے بھی یہی کہا کہ نام نہیں آنا چاہیے۔ مجھ میں انکار کی ہمت نہیں تھی۔ یہ فن مجھے نثار عثمانی صاحب نے سکھایا۔ آہستہ آہستہ میں نے انکار بھی سیکھا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وارث میر کا بیٹا ہونے کے ناتے کچھ لوگوں کی ہمدردیاں ضرور تھیں، لیکن اس وجہ سے مشکلات بھی بہت آئیں۔ مجھے اس کا شدید احساس تھا اور اسی وجہ سے 1987ء سے 1992ء تک بہت محنت بھی کی۔ میں نے چھٹی بھی بہت کم ہی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس محنت میں میرا کرکٹ کا stamina بھی کام آ رہا تھا۔ میں کرکٹ میں اوپننگ بیٹسمین اور وکٹ کیپر تھا۔ پہلے بیٹنگ کرنا اور پھر 50 اوورز تک وکٹ کیپنگ، بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ مگر جسمانی مشقت کی عادت نے مجھے صحافت میں زیادہ دیر تک کام کرنے کا عادی بنایا۔ لوگ بہت حیران ہوتے تھے کہ یہ اکیلے اتنا کام کیسے کرلیتا ہے۔
دلیل: والد صاحب نے حوصلہ افزائی نہیں کی، لیکن پھر بھی صحافت میں آئے۔ کوئی ایسا موقع آیا کہ سوچا ہو کاش! والد صاحب کے مشورے پر عمل پیرا ہوتا؟
حامد میر: اگست 1990ء کی بات ہے۔ میں ایک نوجوان رپورٹر تھا۔ میں نے جنگ لاہور میں ایک شام خبر فائل کی کہ صدر غلام اسحق خان نے بے نظیر حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خبر نیوز ایڈیٹر خاور نعیم ہاشمی صاحب کے پاس پہنچی تو انہوں نے پڑھتے ہی اس پر دوسرے کاغذ رکھ دیے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے۔ یہ بہت بڑی خبر تھی۔ ہاشمی صاحب نے مجھ سے ”سورس“ پوچھا۔ مختلف سوالات کیے۔ جس طرح ایک نیوز ایڈیٹر اپنے رپورٹر سے کرتا ہے۔ کہنے لگے: اس میں فلاں کا ورژن بھی ڈالو۔ میں نے کہا: اس طرح تو خبر رُک جائے گی۔
”اچھا! تو مینوں سورس دس دے“۔
میں نے ان سے کہا: ”سورس“ دونوں طرف کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا۔ پوچھا: دونوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت جا رہی ہے؟ میں نے کہا: جی دونوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت برطرف ہو رہی ہے۔ انہوں نے ”حکومت کے سورس“ پر زیادہ زور دیا۔ کہنے لگے: حکومتی سورس خواجہ طارق رحیم تو نہیں؟ میں نے کہا: وہی ہیں!
میں طارق رحیم کی کافی خبریں فائل کرچکا تھا۔ وہ اس وقت وزیر پارلیمانی امور تھے۔ جمعہ کو لاہور چلے جاتے تھے۔ تین دن وہاں گزارتے۔ مجھے ان سے اہم خبریں مل جاتیں۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وارث میر کا بیٹا ہونے کے ناتے کچھ لوگوں کی ہمدردیاں ضرور تھیں، لیکن اس وجہ سے مشکلات بھی بہت آئیں۔ مجھے اس کا شدید احساس تھا اور اسی وجہ سے 1987ء سے 1992ء تک بہت محنت بھی کی۔ میں نے چھٹی بھی بہت کم ہی کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس محنت میں میرا کرکٹ کا stamina بھی کام آ رہا تھا۔ میں کرکٹ میں اوپننگ بیٹسمین اور وکٹ کیپر تھا۔ پہلے بیٹنگ کرنا اور پھر 50 اوورز تک وکٹ کیپنگ، بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ مگر جسمانی مشقت کی عادت نے مجھے صحافت میں زیادہ دیر تک کام کرنے کا عادی بنایا۔ لوگ بہت حیران ہوتے تھے کہ یہ اکیلے اتنا کام کیسے کرلیتا ہے۔
دلیل: والد صاحب نے حوصلہ افزائی نہیں کی، لیکن پھر بھی صحافت میں آئے۔ کوئی ایسا موقع آیا کہ سوچا ہو کاش! والد صاحب کے مشورے پر عمل پیرا ہوتا؟
حامد میر: اگست 1990ء کی بات ہے۔ میں ایک نوجوان رپورٹر تھا۔ میں نے جنگ لاہور میں ایک شام خبر فائل کی کہ صدر غلام اسحق خان نے بے نظیر حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خبر نیوز ایڈیٹر خاور نعیم ہاشمی صاحب کے پاس پہنچی تو انہوں نے پڑھتے ہی اس پر دوسرے کاغذ رکھ دیے تاکہ کوئی دیکھ نہ سکے۔ یہ بہت بڑی خبر تھی۔ ہاشمی صاحب نے مجھ سے ”سورس“ پوچھا۔ مختلف سوالات کیے۔ جس طرح ایک نیوز ایڈیٹر اپنے رپورٹر سے کرتا ہے۔ کہنے لگے: اس میں فلاں کا ورژن بھی ڈالو۔ میں نے کہا: اس طرح تو خبر رُک جائے گی۔
”اچھا! تو مینوں سورس دس دے“۔
میں نے ان سے کہا: ”سورس“ دونوں طرف کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا۔ پوچھا: دونوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت جا رہی ہے؟ میں نے کہا: جی دونوں کہہ رہے ہیں کہ حکومت برطرف ہو رہی ہے۔ انہوں نے ”حکومت کے سورس“ پر زیادہ زور دیا۔ کہنے لگے: حکومتی سورس خواجہ طارق رحیم تو نہیں؟ میں نے کہا: وہی ہیں!
میں طارق رحیم کی کافی خبریں فائل کرچکا تھا۔ وہ اس وقت وزیر پارلیمانی امور تھے۔ جمعہ کو لاہور چلے جاتے تھے۔ تین دن وہاں گزارتے۔ مجھے ان سے اہم خبریں مل جاتیں۔
بے نظیر حکومت کی برطرفی کی خبر دی تو سورس معلوم کرنے کے لیے کپڑے اتار کر بہیمانہ تشدد کیا گیا لیکن میں نے نام نہیں بتایا۔ اس کا نام آج آپ کو بتا دیتا ہوں، وہ تھے اعجاز الحق۔ ہمارا خاندان چونکہ ضیاء الحق مارشل لا کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور تھا، سو مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔
خیر! خبر فائل کرکے میں اپنے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد خبر دیگر اسٹیشنوں کے لیے چلی گئی۔ لاہور سے راولپنڈی اسٹیشن پہنچی تو ہلچل مچ گئی۔ تقریباً آٹھ، ساڑھے بجے رات کے وقت میں دفتر میں بیٹھا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی، ریسپشن سے بتایا گیا کہ کچھ لوگ آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں سمجھا میرا کوئی ”سورس“ ہوگا۔ میں نے استقبالیہ (reception) پر بتایا کہ انھیں اوپر بھیج دیں۔ دوسری طرف سے کہا گیا کہ وہ آپ سے نیچے ہی ملنا چاہ رہے ہیں۔ جب میں نیچے گیا تو ایک آدمی نے مجھ سے ہاتھ ملایا، گاڑی کا دروازہ یکدم سے کھلا اور مجھے کھینچ کر اس میں اندر پھینک دیا۔ مجھ پر کمبل ڈالا اور ”کمبل کٹ“ کا محاورہ مجھ پر صادق آنے لگا۔
اسی حال میں مجھے ایک جگہ لے جایا گیا۔ جتنا وقت لگا اور راستے میں جو بدبو آرہی تھی، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ظفرعلی روڈ کا علاقہ ہے۔ مجھے اندر کسی گھر یا دفتر میں لے گئے، مارنا شروع کر دیا۔ پوچھنے لگے: خبر کہاں سے ملی ہے؟ میں نے انجان بن کر کہا: کون سی خبر؟ کہنے لگے: ”بھولے بن رہے ہو!“ اور تھپڑ مارنے لگے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ایجنسی کے لوگ ہیں، البتہ یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ کس ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی اندر آیا۔ کہنے لگا: بتادو خبر کس نے دی ہے؟ ورنہ ہم بہت ماریں گے۔ جس طرح ایک نوجوان صحافی ہوتا ہے، اسے مار پڑتی ہے، سورس پوچھا جاتا ہے اور انکار میں وہ کہتا ہے: میں تمہیں سورس نہیں بتاؤں گا۔ میں نے بھی وہی انداز اختیار کیا اور صاف انکار کر دیا۔
”یہ ایسے نہیں مانے گا، اُتارو اس کے کپڑے۔“
یہ کہا اور زبردستی میرے کپڑے اُتارنے کے لیے جھپٹ پڑے۔
میں تشدد سہ سکتا تھا، لیکن یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
میں نے کہا: میں بتاتا ہوں میرا سورس کون ہے؟
دوسری طرف سے انکار ہوا اور کہا گیا اب تو کپڑے اُتریں گے۔ میرے کپڑے اُتارے گئے، لٹا کر مجھے مارنا شروع کردیا۔
خوب مار کے بعد کہا: اب بتاؤ سورس؟
میں نے کہا: اب تو بالکل نہیں بتاؤں گا۔
کہنے لگے: ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
میں نے کہا: اس سے زیادہ کیا کرلیں گے؟
کہنے لگے: اس کے علاوہ انڈروئیر بھی اُتاریں گے۔
میں پھر ہل گیا اور کہا: میں سورس بتاتا ہوں۔
میں نے طارق رحیم صاحب کا نام لیا۔ پھر بھی جان نہیں چھوٹی۔ کہنے لگے کہ تمھارا سورس ایک نہیں، دوسرے کا نام بھی بتا دو۔
”انہیں آخر کیسے پتا چلا کہ دوسرا سورس بھی ہے“ میری پریشانی مزید بڑھی۔
”تم نثار عثمانی کے پاس بہت اُٹھتے بیٹھتے ہو۔ وہ ہمیشہ نوجوان صحافیوں سے کہتے ہیں کہ خبر کو ڈبل چیک کرو۔ یقیناً دوسرا سورس بھی ہوگا۔“ انہوں نے وضاحت کی۔
”یہ عام لوگ تو نہیں۔ انہیں ہماری اندر کی باتیں تک معلوم ہیں۔ انہیں یہ بھی پتا ہے کہ میں نثار عثمانی صاحب کے پاس اُٹھتا بیٹھتا ہوں۔“ میں دل ہی دل میں پکار اُٹھا۔
میں نے ان سے کہا: نثار عثمانی صاحب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر ہیں اور میں ایک صحافی، ان کے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ ان کا اصرار مگر یہی تھا کہ دوسرا سورس بتاؤ۔ میں انہیں دوسرا سورس بتانا نہیں چاہ رہا تھا، اس لیے کہ وہ غیرمحفوظ اور حساس تھا۔ سیاست سے ہی ان کا تعلق تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ دوسرے سورس کا نام بتا دیا تو میں بدنام ہوجاؤں گا۔ اس کا نام آج آپ کو بتا ہی دیتا ہوں، وہ تھے اعجاز الحق۔ ہمارا خاندان چونکہ ضیاء الحق مارشل لا کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور تھا، سو مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ دراصل اس کی کہانی بھی کچھ یوں تھی کہ اعجاز الحق کسی تقریب میں ملے۔ حال احوال پوچھا، باتوں باتوں میں کہنے لگے: یہ حکومت جا رہی ہے۔ یہ ایک طرح سے ٹپ تھی، میں نے اس پر کام شروع کیا تو ایک بڑی خبر بن گئی۔
https://daleel.pk/2017/11/30/68047
اسی حال میں مجھے ایک جگہ لے جایا گیا۔ جتنا وقت لگا اور راستے میں جو بدبو آرہی تھی، اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ ظفرعلی روڈ کا علاقہ ہے۔ مجھے اندر کسی گھر یا دفتر میں لے گئے، مارنا شروع کر دیا۔ پوچھنے لگے: خبر کہاں سے ملی ہے؟ میں نے انجان بن کر کہا: کون سی خبر؟ کہنے لگے: ”بھولے بن رہے ہو!“ اور تھپڑ مارنے لگے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ ایجنسی کے لوگ ہیں، البتہ یہ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ کس ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی اندر آیا۔ کہنے لگا: بتادو خبر کس نے دی ہے؟ ورنہ ہم بہت ماریں گے۔ جس طرح ایک نوجوان صحافی ہوتا ہے، اسے مار پڑتی ہے، سورس پوچھا جاتا ہے اور انکار میں وہ کہتا ہے: میں تمہیں سورس نہیں بتاؤں گا۔ میں نے بھی وہی انداز اختیار کیا اور صاف انکار کر دیا۔
”یہ ایسے نہیں مانے گا، اُتارو اس کے کپڑے۔“
یہ کہا اور زبردستی میرے کپڑے اُتارنے کے لیے جھپٹ پڑے۔
میں تشدد سہ سکتا تھا، لیکن یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
میں نے کہا: میں بتاتا ہوں میرا سورس کون ہے؟
دوسری طرف سے انکار ہوا اور کہا گیا اب تو کپڑے اُتریں گے۔ میرے کپڑے اُتارے گئے، لٹا کر مجھے مارنا شروع کردیا۔
خوب مار کے بعد کہا: اب بتاؤ سورس؟
میں نے کہا: اب تو بالکل نہیں بتاؤں گا۔
کہنے لگے: ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
میں نے کہا: اس سے زیادہ کیا کرلیں گے؟
کہنے لگے: اس کے علاوہ انڈروئیر بھی اُتاریں گے۔
میں پھر ہل گیا اور کہا: میں سورس بتاتا ہوں۔
میں نے طارق رحیم صاحب کا نام لیا۔ پھر بھی جان نہیں چھوٹی۔ کہنے لگے کہ تمھارا سورس ایک نہیں، دوسرے کا نام بھی بتا دو۔
”انہیں آخر کیسے پتا چلا کہ دوسرا سورس بھی ہے“ میری پریشانی مزید بڑھی۔
”تم نثار عثمانی کے پاس بہت اُٹھتے بیٹھتے ہو۔ وہ ہمیشہ نوجوان صحافیوں سے کہتے ہیں کہ خبر کو ڈبل چیک کرو۔ یقیناً دوسرا سورس بھی ہوگا۔“ انہوں نے وضاحت کی۔
”یہ عام لوگ تو نہیں۔ انہیں ہماری اندر کی باتیں تک معلوم ہیں۔ انہیں یہ بھی پتا ہے کہ میں نثار عثمانی صاحب کے پاس اُٹھتا بیٹھتا ہوں۔“ میں دل ہی دل میں پکار اُٹھا۔
میں نے ان سے کہا: نثار عثمانی صاحب پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر ہیں اور میں ایک صحافی، ان کے پاس آنا جانا رہتا ہے۔ ان کا اصرار مگر یہی تھا کہ دوسرا سورس بتاؤ۔ میں انہیں دوسرا سورس بتانا نہیں چاہ رہا تھا، اس لیے کہ وہ غیرمحفوظ اور حساس تھا۔ سیاست سے ہی ان کا تعلق تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ دوسرے سورس کا نام بتا دیا تو میں بدنام ہوجاؤں گا۔ اس کا نام آج آپ کو بتا ہی دیتا ہوں، وہ تھے اعجاز الحق۔ ہمارا خاندان چونکہ ضیاء الحق مارشل لا کے خلاف مزاحمت کے لیے مشہور تھا، سو مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ دراصل اس کی کہانی بھی کچھ یوں تھی کہ اعجاز الحق کسی تقریب میں ملے۔ حال احوال پوچھا، باتوں باتوں میں کہنے لگے: یہ حکومت جا رہی ہے۔ یہ ایک طرح سے ٹپ تھی، میں نے اس پر کام شروع کیا تو ایک بڑی خبر بن گئی۔
https://daleel.pk/2017/11/30/68047
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/jkLWGfC.jpg
Last edited by a moderator: