جمہور پسند
Minister (2k+ posts)
مجھے اس وقت جنرل ضیا الحق کے عقوبت خانے کے تین کردار یاد آرہے ہیں۔
ملیر کا ناصر بلوچ ۔۔۔آخری رات کال کوٹھڑی میں 'چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ' گاتا رہا۔ جب تختہ دار پر لے جایا جارہا تھا تو اس نے باقی قیدیوں کو قسم دی کہ اگر جئے بھٹو کے نعرے کا جواب نہ دیا تو یہاں تو میں تمہارا کچھ نہیں کرسکوں گا لیکن اوپر تم سب کا گریبان پکڑ کر خوب ماروں گا ۔ناصر بلوچ ایک قدم بڑھاتا، رقص کرتا، جئے بھٹو کا نعرہ لگاتا پھر دوسرا قدم بڑھاتا۔۔۔۔۔
لیاری کا ایاز سموں۔۔۔۔۔جب پھانسی سے پہلے آخری ملاقات آئی تو اسکی بھاوج نے اسے گھونگھرو دئیے۔ پھانسی گھاٹ پر روانگی سے پہلے جیل حکام نے آخری خواہش پوچھی تو کہا گھونگھرو باندھنے دو۔ جب تک رات کے سناٹے میں آگے بڑھتے قدموں سے گھونگھرو بجنے کی آواز آتی رہی کوٹھڑیوں میں بند قیدی جئے بھٹو کے نعرے لگاتے رہے۔ جب گھونگھرو کی آواز تھم گئی تو قیدی بھی اپنی اپنی سسکیوں میں ڈوب گئے۔۔۔۔۔
لاہور کا عثمان غنی۔۔۔۔۔آخری ملاقات میں عثمان نے اپنی بہنوں سے کہا۔کوئی نہیں روئے گا۔میرا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ کھلی چارپائی پر گھر تک جائے گا۔عثمان کی لاش گھر پہنچی تو بینڈ باجے کی دھمک نے استقبال کیا۔ بہنیں چارپائی کو کندھا دے کر گھر میں لے گئیں۔
یقین نہیں آتا کہ ایک ڈکٹیٹر کے منہ پر تھوکنے والے ایسے پاگل دیوانے عشاق کی پارٹی ایک اور ڈکٹیٹر کے دئیے گئے این آر او کی زنجیر ٹوٹنے پر ملول ہے ؟
یقین نہیں آتا کہ پھانسی کے بعد تیسری دفعہ اقتدار میں آنے والی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کے ری ٹرائیل میں ناکام ہوگئی۔
یقین نہیں آتا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے دو برس بعد بھی ایف آئی آر کےنامعلوم 'معلوم' میں تبدیل نہ ہو سکے۔
کاش ناصر بلوچ کا نام رحمان ملک، ایاز سموں بابر اعوان اور عثمان غنی کا نام فاروق نائیک ہوتا!!
Source:
ملیر کا ناصر بلوچ ۔۔۔آخری رات کال کوٹھڑی میں 'چل اڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ' گاتا رہا۔ جب تختہ دار پر لے جایا جارہا تھا تو اس نے باقی قیدیوں کو قسم دی کہ اگر جئے بھٹو کے نعرے کا جواب نہ دیا تو یہاں تو میں تمہارا کچھ نہیں کرسکوں گا لیکن اوپر تم سب کا گریبان پکڑ کر خوب ماروں گا ۔ناصر بلوچ ایک قدم بڑھاتا، رقص کرتا، جئے بھٹو کا نعرہ لگاتا پھر دوسرا قدم بڑھاتا۔۔۔۔۔
لیاری کا ایاز سموں۔۔۔۔۔جب پھانسی سے پہلے آخری ملاقات آئی تو اسکی بھاوج نے اسے گھونگھرو دئیے۔ پھانسی گھاٹ پر روانگی سے پہلے جیل حکام نے آخری خواہش پوچھی تو کہا گھونگھرو باندھنے دو۔ جب تک رات کے سناٹے میں آگے بڑھتے قدموں سے گھونگھرو بجنے کی آواز آتی رہی کوٹھڑیوں میں بند قیدی جئے بھٹو کے نعرے لگاتے رہے۔ جب گھونگھرو کی آواز تھم گئی تو قیدی بھی اپنی اپنی سسکیوں میں ڈوب گئے۔۔۔۔۔
لاہور کا عثمان غنی۔۔۔۔۔آخری ملاقات میں عثمان نے اپنی بہنوں سے کہا۔کوئی نہیں روئے گا۔میرا جنازہ بینڈ باجے کے ساتھ کھلی چارپائی پر گھر تک جائے گا۔عثمان کی لاش گھر پہنچی تو بینڈ باجے کی دھمک نے استقبال کیا۔ بہنیں چارپائی کو کندھا دے کر گھر میں لے گئیں۔
یقین نہیں آتا کہ ایک ڈکٹیٹر کے منہ پر تھوکنے والے ایسے پاگل دیوانے عشاق کی پارٹی ایک اور ڈکٹیٹر کے دئیے گئے این آر او کی زنجیر ٹوٹنے پر ملول ہے ؟
یقین نہیں آتا کہ پھانسی کے بعد تیسری دفعہ اقتدار میں آنے والی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کے ری ٹرائیل میں ناکام ہوگئی۔
یقین نہیں آتا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے دو برس بعد بھی ایف آئی آر کےنامعلوم 'معلوم' میں تبدیل نہ ہو سکے۔
کاش ناصر بلوچ کا نام رحمان ملک، ایاز سموں بابر اعوان اور عثمان غنی کا نام فاروق نائیک ہوتا!!
Source:
Last edited by a moderator: