moazzamniaz
Chief Minister (5k+ posts)
ینگ ڈاکٹرز.... تنگ آمد، بجنگ آمد
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ
بڑی عجیب منطق ہے حکام کی۔ کہتے ہیں ڈاکٹروں کے مطالبات جائز ہیں مگر ہڑتال ناجائز ہے؟ اور تو اور ڈاکٹر سعید الٰہی بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر سعیدالہی پنجاب اسمبلی میں موجود ہوں گے جب کہ اسمبلی میں سرکاری ایم پی ایز تو ہوتے ہی نہیں۔ وہ باہر نہیں نکلے۔ کوئی آدمی نہ نکلا۔ راجہ ریاض، چودھری ظہیرالدین حتی کہ ڈاکٹروں کی بہت حامی ڈاکٹر سامعہ امجد بھی باہر نہ نکلی۔ صرف پنجاب پولیس کے شیر جوان لیڈی ڈاکٹروں سے خاص طور پر گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ انہیں یہ بھی غصہ ہوتا ہے کہ یہ ہم سے حسد کرتے ہیں۔ ہماری تنخواہ بڑھی ہے تو یہ بھی مطالبہ لے کے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پولیس والوں نے تو کوئی مطالبہ بھی نہ کیا تھا۔ نجانے ان کی کون سی ادا اور ادائیگی خوش آ گئی کہ خوش ہو کے کہ ان کی تنخواہیں دگنی کر دی گئیں۔ ان کی کارکردگی اس کے بعد مزید بڑھ گئی یعنی ان کا ظلم و تشدد، بے انصافی، فرعونیت اور نالائقیوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس کا اعتراف اور اعلان شہباز شریف نے بھی کیا کہ پولیس نے مجھے مایوس کیاہے۔ یہ کارکردگی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب وہ مایوس اور نہتے مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتے ہیں۔ تنخواہوں میں اضافہ کیلئے مظاہرے کرتے تھے اساتذہ کے جلوس میں شامل ایک لیڈی ٹیچرکو سڑک پر گرا لیا گیا اور بالوں سے پکڑ کے گھیسٹا گیا۔ تو اس نے بڑی بے بسی اور بے کسی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھا۔ اور کہا کہ اب حکومت کو پولیس والوں کی تنخواہیں مزید بڑھانا پڑیں گی حالانکہ پولیس کو تنخواہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ من خواہ کی صورت ہوتی ہے۔ مطلب کے تھانے میں بھیج دو اور تنخواہ بے شک نہ دو۔ جب کوئی ڈاکٹر صحت کے محکمے کا وارث بنتا ہے تو ڈاکٹروں کی توہین اور بے چارگی بڑھ جاتی ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر محمود چودھری نے تو اپنے قبیلے کے لوگوں سے زیادتی کی انتہا کر دی تھی۔ کمی تو ڈاکٹر طاہر علی جاوید نے بھی نہیں کی تھی۔ چودھری پرویزالہی نے کچھ عرصے بعد اسے وزارت صحت سے نکال دیا تھا۔ اس قربانی کے بدلے میں اب اسے وزیر صحت بنایا جا رہا تھا مگر گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے یونیفکیشن بلاک کے کسی آدمی سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
ینگ ڈاکٹرز اتنے تنگ ہوئے کہ بالآخر بے چارے جنگ پر مجبور ہو گئے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایف سی پی ایس کیا اور تنخواہ صرف 16 ہزار روپے۔ بیورو کریٹس اور حکمران ایم بی بی ایس کے پہلے سال کی کوئی کتاب اٹھا کر دکھا دیں۔ وہ سی ایس ایس کرنے کے بعد کتاب کے پاس نہیں پھٹکتے نہ خواب دیکھتے ہیں۔ نہ کسی انقلاب کی خواہش ان کے دل میں جاگتی ہے۔ ان کے وجود میں اختیارات کے نشے کی بدمستی اور عیش وعشرت حکومت اور دولت کا خمار ہوتا ہے۔ لوگوں کو ذلت اور اذیت سے دوچار کرنے کے لئے نت نئے منصوبے اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں سوائے بیورو کریٹس کے کسی محکمے کے ملازمین کے لئے کوئی سروس سٹرکچر نہیں۔ پروموشن کے لئے کوئی نظام نہیں بنایا گیا۔ حتی کہ پی سی ایس افسران کے لئے بھی کوئی سروس رولز نہیں نہ ان کی پروموشن کے لئے کوئی طریقہ کار اور ضابطہ ہے۔ ایک پی سی ایس افسر جو ڈپٹی کمشنر ہوتا تھا اس کے ماتحت اسسٹنٹ کمشنر اس کے اوپر کمشنر بن کے آ جاتا ہے۔ وہ بمشکل 20 گریڈ تک پہنچتے ہیں جب کہ اس سے بہت کم عرصے میں سی ایس پی 22 گریڈ میں چلے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں سیکرٹریٹ میں پی سی ایس افسران پر پولیس کو چھوڑ دیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ ایک اُستاد کالج میں 17 گریڈ میں گیا اور 17 گریڈ میں ریٹائر ہو گیا۔ 35 برس کی تدریسی خدمات کے بعد مجھے کالج میں جس دن 20 گریڈ ملا میں دوسرے دن ریٹائر ہو گیا جب کہ میرا بڑا بھائی پروفیسر اکبر نیازی پرنسپل ہو کے 19 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوا۔
میڈیکل کے شعبے میں کئی فارن کوالیفائیڈ اور ماہر ڈاکٹر پچھلے دس سال سے 20 گریڈ میں ہیں اور ان کی تنخواہ 70 ہزار روپے ہے۔ جب کہ کئی لوگ اس سے کم حیثیت میں لاکھوں روپے تنخواہ پا رہے ہیں۔ دوسری مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک ینگ ڈاکٹر جو پولیس والوں کی طرح 24 گھنٹے کا ملازم ہے۔ اس کی تنخواہ 16 ہزار اور سپاہی کی تنخواہ 21 ہزار ہے۔ وہ ہر وقت ایک فون کال کے فاصلے پر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان سے بہت امیدیں ہوتی ہیں انہیں دکھی لوگوں میں زندگی بانٹنا چاہئیں کبھی کبھی ڈاکٹروں کے رویئے سے بیزاری ہوتی ہے۔ مجھے پولیس والوں پر کوئی اعتراض نہیں مگر سپاہی میٹرک پاس ہے اور اس کا گریڈ چوتھا، پانچواں ہو گا۔ اس کے مقابلے میں 17 گریڈ کے ڈاکٹر کی توہین نہیں تو کیا ہے۔ مختلف محکموں میں تفریق کیوں ہے؟ ینگ ڈاکٹروں نے ہڑتال کی ہے کہ اس کے بغیر افسران اور حکمران پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ یہ ظالمانہ کلچر بن گیا ہے کہ پہلے بات نہیں مانی جاتی جب مظاہرے ہوتے ہیں لاٹھی چارج کیا جاتا ہے ایک ذلت اور اذیت کے بعد وہی باتیں مان لی جاتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ باتیں جائز تھیں تو پھر یہ تماشا کیوں لگایا جاتا ہے۔ اس ملک کو بیورو کریسی نے ذلیل کیا۔ میں نے بیورو کریسی کو براکریسی کہا تھا اور یہ نام زبان زدخاص وعام ہو گیا۔ ہڑتالی ڈاکٹروں نے اپنے سینئر پروفیسروں کی بات بھی کی ہے۔ نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو بھی ساتھ لے کے چل رہے ہیں۔ نرسوں سے زیادہ خدمت گزار عورتیں کہیں نہیں ہیں۔ بیماروں کو مایوسی اور مجبوری میں اپنی تھکن اپنی لگن میں ملا دیتی ہیں اور انہیں کبھی اس کا ایوارڈ بلکہ ریوارڈ بھی نہیں ملا۔ ان کی تنخواہ پچاس ہزار ہونا چاہئے۔ ڈاکٹروں کو 75 ہزار ملنے چاہئیں۔ وہ اپنے وطن میں خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خدمت سیاسی خدمت سے مختلف ہے اور بہت زیادہ ہے۔ اس بار ڈاکٹروں نے ایمرجنسی بند نہ کی تھی آﺅٹ ڈور کی بجائے کیمپ لگائے جو پولیس کے ذریعے اکھڑوا دیئے گئے تو مریضوں کا دشمن کون ہے ڈاکٹر بالکل نہیں ہیں۔ کوئی ذمہ داری ڈاکٹروں پر عائد ہوتی ہے تو بیورو کریسی اور حکومت پر بھی ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر سعیدالہی نے اپنے ڈاکٹروں کے لئے کیا کیا ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں ڈاکٹروں کے خلاف لگتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں کی تنظیموں سے وابستہ رہا ہے اور ڈاکٹروں کے لئے لڑتا بھی رہا ہے۔ اب وہ کس کے لئے لڑ رہا ہے؟ وہ تو ہیلتھ سیکرٹری کے خلاف ہے۔ اب اس کے لئے اپنے ڈاکٹروں کے خلاف برسرپیکار ہے بلکہ برسر سیاست ہے۔ کیا وہ ہمیشہ پارلیمانی سیکرٹری رہے گا؟ ڈاکٹر تو وہ ہمیشہ رہے گا۔ ہیلتھ سیکرٹری کے کریڈٹ میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے۔ روٹین کے کام تو ہر افسر کرتا ہے۔ میں نے اسے بم دھماکوں میں زخمیوںکے درمیان دیکھا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر وہ ڈاکٹروں کے پاس کھڑا ہونا بھی توہین سمجھتا ہے۔ جب کہ کسی بیورو کریسی کے نصیب توقیر نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے ملازمین کو ملزم سمجھ لیتے ہیں جو ملازم نوکر ہے تو ٹھیک ہے۔ کاغذوں میں سول سرونٹ ہیں مگر سول افسری کی رعونت اور خودمختای نے انہیں ہر بات سے لاپروا کر دیا ہے اور مستقل حکمران ہیں۔
ڈاکٹر بیرون ملک جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور برطانیہ زیادہ فیورٹ ہے۔ یہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ پھر ہسپتالوں کی ویرانیوں میں ڈاکٹر سعید الہی اور فواد حسن فواد مل کر بھنگڑا ڈالیں گے۔ کہتے ہیں کہ ہم اگلے بجٹ میں تنخواہیں بڑھائیں گے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں یہ بات لکھ کے دے دو۔ اس پر وہ تیار نہیں اور ہڑتال کو 29 دن ہو گئے ہیں۔ گرفتار ڈاکٹروں کی رہائی کا حکم شہباز شریف نے دیا ہے۔ کاش! اس کے ساتھ ان کے جائز مطالبات بھی مان لئے جاتے۔ تاخیر سے ساری قوم کا نقصان ہو رہا ہے۔ ڈیڑھ سال سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ....
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ
بڑی عجیب منطق ہے حکام کی۔ کہتے ہیں ڈاکٹروں کے مطالبات جائز ہیں مگر ہڑتال ناجائز ہے؟ اور تو اور ڈاکٹر سعید الٰہی بھی ہڑتالی ڈاکٹروں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر سعیدالہی پنجاب اسمبلی میں موجود ہوں گے جب کہ اسمبلی میں سرکاری ایم پی ایز تو ہوتے ہی نہیں۔ وہ باہر نہیں نکلے۔ کوئی آدمی نہ نکلا۔ راجہ ریاض، چودھری ظہیرالدین حتی کہ ڈاکٹروں کی بہت حامی ڈاکٹر سامعہ امجد بھی باہر نہ نکلی۔ صرف پنجاب پولیس کے شیر جوان لیڈی ڈاکٹروں سے خاص طور پر گتھم گتھا ہو رہے تھے۔ انہیں یہ بھی غصہ ہوتا ہے کہ یہ ہم سے حسد کرتے ہیں۔ ہماری تنخواہ بڑھی ہے تو یہ بھی مطالبہ لے کے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پولیس والوں نے تو کوئی مطالبہ بھی نہ کیا تھا۔ نجانے ان کی کون سی ادا اور ادائیگی خوش آ گئی کہ خوش ہو کے کہ ان کی تنخواہیں دگنی کر دی گئیں۔ ان کی کارکردگی اس کے بعد مزید بڑھ گئی یعنی ان کا ظلم و تشدد، بے انصافی، فرعونیت اور نالائقیوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس کا اعتراف اور اعلان شہباز شریف نے بھی کیا کہ پولیس نے مجھے مایوس کیاہے۔ یہ کارکردگی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب وہ مایوس اور نہتے مظاہرین پر لاٹھی چارج کرتے ہیں۔ تنخواہوں میں اضافہ کیلئے مظاہرے کرتے تھے اساتذہ کے جلوس میں شامل ایک لیڈی ٹیچرکو سڑک پر گرا لیا گیا اور بالوں سے پکڑ کے گھیسٹا گیا۔ تو اس نے بڑی بے بسی اور بے کسی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھا۔ اور کہا کہ اب حکومت کو پولیس والوں کی تنخواہیں مزید بڑھانا پڑیں گی حالانکہ پولیس کو تنخواہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ من خواہ کی صورت ہوتی ہے۔ مطلب کے تھانے میں بھیج دو اور تنخواہ بے شک نہ دو۔ جب کوئی ڈاکٹر صحت کے محکمے کا وارث بنتا ہے تو ڈاکٹروں کی توہین اور بے چارگی بڑھ جاتی ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر محمود چودھری نے تو اپنے قبیلے کے لوگوں سے زیادتی کی انتہا کر دی تھی۔ کمی تو ڈاکٹر طاہر علی جاوید نے بھی نہیں کی تھی۔ چودھری پرویزالہی نے کچھ عرصے بعد اسے وزارت صحت سے نکال دیا تھا۔ اس قربانی کے بدلے میں اب اسے وزیر صحت بنایا جا رہا تھا مگر گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے یونیفکیشن بلاک کے کسی آدمی سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
ینگ ڈاکٹرز اتنے تنگ ہوئے کہ بالآخر بے چارے جنگ پر مجبور ہو گئے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایف سی پی ایس کیا اور تنخواہ صرف 16 ہزار روپے۔ بیورو کریٹس اور حکمران ایم بی بی ایس کے پہلے سال کی کوئی کتاب اٹھا کر دکھا دیں۔ وہ سی ایس ایس کرنے کے بعد کتاب کے پاس نہیں پھٹکتے نہ خواب دیکھتے ہیں۔ نہ کسی انقلاب کی خواہش ان کے دل میں جاگتی ہے۔ ان کے وجود میں اختیارات کے نشے کی بدمستی اور عیش وعشرت حکومت اور دولت کا خمار ہوتا ہے۔ لوگوں کو ذلت اور اذیت سے دوچار کرنے کے لئے نت نئے منصوبے اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں سوائے بیورو کریٹس کے کسی محکمے کے ملازمین کے لئے کوئی سروس سٹرکچر نہیں۔ پروموشن کے لئے کوئی نظام نہیں بنایا گیا۔ حتی کہ پی سی ایس افسران کے لئے بھی کوئی سروس رولز نہیں نہ ان کی پروموشن کے لئے کوئی طریقہ کار اور ضابطہ ہے۔ ایک پی سی ایس افسر جو ڈپٹی کمشنر ہوتا تھا اس کے ماتحت اسسٹنٹ کمشنر اس کے اوپر کمشنر بن کے آ جاتا ہے۔ وہ بمشکل 20 گریڈ تک پہنچتے ہیں جب کہ اس سے بہت کم عرصے میں سی ایس پی 22 گریڈ میں چلے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں سیکرٹریٹ میں پی سی ایس افسران پر پولیس کو چھوڑ دیا گیا اور انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا۔ یہ بھی ہوا کہ ایک اُستاد کالج میں 17 گریڈ میں گیا اور 17 گریڈ میں ریٹائر ہو گیا۔ 35 برس کی تدریسی خدمات کے بعد مجھے کالج میں جس دن 20 گریڈ ملا میں دوسرے دن ریٹائر ہو گیا جب کہ میرا بڑا بھائی پروفیسر اکبر نیازی پرنسپل ہو کے 19 گریڈ میں ریٹائرڈ ہوا۔
میڈیکل کے شعبے میں کئی فارن کوالیفائیڈ اور ماہر ڈاکٹر پچھلے دس سال سے 20 گریڈ میں ہیں اور ان کی تنخواہ 70 ہزار روپے ہے۔ جب کہ کئی لوگ اس سے کم حیثیت میں لاکھوں روپے تنخواہ پا رہے ہیں۔ دوسری مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک ینگ ڈاکٹر جو پولیس والوں کی طرح 24 گھنٹے کا ملازم ہے۔ اس کی تنخواہ 16 ہزار اور سپاہی کی تنخواہ 21 ہزار ہے۔ وہ ہر وقت ایک فون کال کے فاصلے پر ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ان سے بہت امیدیں ہوتی ہیں انہیں دکھی لوگوں میں زندگی بانٹنا چاہئیں کبھی کبھی ڈاکٹروں کے رویئے سے بیزاری ہوتی ہے۔ مجھے پولیس والوں پر کوئی اعتراض نہیں مگر سپاہی میٹرک پاس ہے اور اس کا گریڈ چوتھا، پانچواں ہو گا۔ اس کے مقابلے میں 17 گریڈ کے ڈاکٹر کی توہین نہیں تو کیا ہے۔ مختلف محکموں میں تفریق کیوں ہے؟ ینگ ڈاکٹروں نے ہڑتال کی ہے کہ اس کے بغیر افسران اور حکمران پر اثر ہی نہیں ہوتا۔ یہ ظالمانہ کلچر بن گیا ہے کہ پہلے بات نہیں مانی جاتی جب مظاہرے ہوتے ہیں لاٹھی چارج کیا جاتا ہے ایک ذلت اور اذیت کے بعد وہی باتیں مان لی جاتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ باتیں جائز تھیں تو پھر یہ تماشا کیوں لگایا جاتا ہے۔ اس ملک کو بیورو کریسی نے ذلیل کیا۔ میں نے بیورو کریسی کو براکریسی کہا تھا اور یہ نام زبان زدخاص وعام ہو گیا۔ ہڑتالی ڈاکٹروں نے اپنے سینئر پروفیسروں کی بات بھی کی ہے۔ نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو بھی ساتھ لے کے چل رہے ہیں۔ نرسوں سے زیادہ خدمت گزار عورتیں کہیں نہیں ہیں۔ بیماروں کو مایوسی اور مجبوری میں اپنی تھکن اپنی لگن میں ملا دیتی ہیں اور انہیں کبھی اس کا ایوارڈ بلکہ ریوارڈ بھی نہیں ملا۔ ان کی تنخواہ پچاس ہزار ہونا چاہئے۔ ڈاکٹروں کو 75 ہزار ملنے چاہئیں۔ وہ اپنے وطن میں خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خدمت سیاسی خدمت سے مختلف ہے اور بہت زیادہ ہے۔ اس بار ڈاکٹروں نے ایمرجنسی بند نہ کی تھی آﺅٹ ڈور کی بجائے کیمپ لگائے جو پولیس کے ذریعے اکھڑوا دیئے گئے تو مریضوں کا دشمن کون ہے ڈاکٹر بالکل نہیں ہیں۔ کوئی ذمہ داری ڈاکٹروں پر عائد ہوتی ہے تو بیورو کریسی اور حکومت پر بھی ہے۔ پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر سعیدالہی نے اپنے ڈاکٹروں کے لئے کیا کیا ہے۔ وہ اپنی گفتگو میں ڈاکٹروں کے خلاف لگتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں کی تنظیموں سے وابستہ رہا ہے اور ڈاکٹروں کے لئے لڑتا بھی رہا ہے۔ اب وہ کس کے لئے لڑ رہا ہے؟ وہ تو ہیلتھ سیکرٹری کے خلاف ہے۔ اب اس کے لئے اپنے ڈاکٹروں کے خلاف برسرپیکار ہے بلکہ برسر سیاست ہے۔ کیا وہ ہمیشہ پارلیمانی سیکرٹری رہے گا؟ ڈاکٹر تو وہ ہمیشہ رہے گا۔ ہیلتھ سیکرٹری کے کریڈٹ میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہے۔ روٹین کے کام تو ہر افسر کرتا ہے۔ میں نے اسے بم دھماکوں میں زخمیوںکے درمیان دیکھا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر وہ ڈاکٹروں کے پاس کھڑا ہونا بھی توہین سمجھتا ہے۔ جب کہ کسی بیورو کریسی کے نصیب توقیر نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنے ملازمین کو ملزم سمجھ لیتے ہیں جو ملازم نوکر ہے تو ٹھیک ہے۔ کاغذوں میں سول سرونٹ ہیں مگر سول افسری کی رعونت اور خودمختای نے انہیں ہر بات سے لاپروا کر دیا ہے اور مستقل حکمران ہیں۔
ڈاکٹر بیرون ملک جا رہے ہیں۔ سعودی عرب اور برطانیہ زیادہ فیورٹ ہے۔ یہ ہو گیا تو کیا ہو گا۔ پھر ہسپتالوں کی ویرانیوں میں ڈاکٹر سعید الہی اور فواد حسن فواد مل کر بھنگڑا ڈالیں گے۔ کہتے ہیں کہ ہم اگلے بجٹ میں تنخواہیں بڑھائیں گے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں یہ بات لکھ کے دے دو۔ اس پر وہ تیار نہیں اور ہڑتال کو 29 دن ہو گئے ہیں۔ گرفتار ڈاکٹروں کی رہائی کا حکم شہباز شریف نے دیا ہے۔ کاش! اس کے ساتھ ان کے جائز مطالبات بھی مان لئے جاتے۔ تاخیر سے ساری قوم کا نقصان ہو رہا ہے۔ ڈیڑھ سال سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ ....
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک