abidhassan
Voter (50+ posts)
ہم سب غدار ہیں؟
تحریر: عابد حسن
بیٹے نے اپنے سیاستدان باپ سے پوچھا غدار کس کو کہتے ہیں؟ جواب ملا جو ہماری پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلا جائے۔بیٹے نے دوبارہ پوچھا ، اور جو دوسری پارٹی چھوڑ کر ہماری پارٹی میں آئے اس کوکیا کہتے ہیں۔ اصول پسندباپ نے اطمینان سے کہا۔پاکستانی سیاست میں یہ سنہری اصول کافی عرصہ سے رائج ہے۔جس کے تحت پارٹی چھوڑ کر جانے والے کو پہلی پارٹی میں غدارجبکہ نئی پارٹی میں اصول پسند کاخطاب دیا جاتا ہے۔اس اصول کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان ہوگا جو کبھی غداریا اصول پسند کہلایا گیا ہوگا۔یہ سلسلہ سیاست تک محدود نہیں ہے۔ میڈیا اینکرزاور کالم نگاروں سے لے کر،
ٹی وی چینلز اور اب کرکٹ کے کھلاڑیوں تک سب کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا جانے لگا ہے، محب وطن اور غدار۔ان کے درمیان میں کوئی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تیسری کیٹیگری بنائی گئی ہے۔کرکٹ جو کچھ عرصہ پہلے تک قوم کو متحد کر دیتی تھی اب اس پر بھی قوم تقسیم ہو چکی ہے۔ ہر کوئی اپنے من پسند کھلاڑیوں کومحب وطن اور وسروں کوغدار کہنے پر تلا ہوا ہے۔ حالیہ کرکٹ میچز میں ٹیم کی بد ترین کار کردگی سب کے سامنے ہے۔کچھ لوگ اس کی وجہ ٹیم کے اندرونی اختلافات کو بتاتے ہیں
جبکہ کچھ لوگ اس سے تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے کچھ کھلاڑیوں کو غدارہونے کا سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں جو جان بوجھ کر خراب کارکردگی سے ٹیم کو ہروا رہے ہیں۔کچھ حضرات انٹرنیٹ پر سراغ ر ساں بن کرمیچز کے دوران لی گئی کھلاڑیوں کی تصاویر کے ذریعے ان کے باہمی اختلافات کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔شاہد آفریدی نے بھی اپنے ایک بیان سے اس تاثر کو تقویت دی کہ ٹیم میں سازش اور دھڑے بندی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ ان کی اپنی کارکردگی کیوں ٹھیک نہیں رہی۔کیا اس کے پیچھے بھی قندیل بلوچ اور عرشی خان جیسی سازشیں ہیں؟
بوم بوم آفریدی جو کہ 20سال کرکٹ کھیل کر ہر درجن بھر میچز کے بعد ایک اچھی کارکردگی دکھا کرمسلسل ٹیم کا حصہ بنے ہوئے تھے اب بھی ریٹائیرمنٹ کاصرف سوچرہے ہیں۔شاید انہوں نے وہ فقرہ نہیں سنا ہوگا کہ اچھے وقت پر ہیرو کی طرح ریٹائر ہونا برے وقت پر ولن کی طرح ریٹائرڈہونے سے بہتر ہے۔ شرجیل خان نے دو اچھی اننگز کھیلیں لیکن ان کو ابھی مزید تجربے اور ٹیمپرامنٹ کی ضرورت ہے۔ شعیب ملک، احمد شہزاد اور عمر اکمل نے آخری دو میچوں میں اپنے تمام تر تجربہ کے ساتھ کوشش تو بہت کی لیکن یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ان سے نہیں ہو پائے گا۔محمد سمیع جن کو کرکٹ کھیلتے ہوئے 15 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں
لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو شازونادر ہی اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ کبھی کبھار اچھی پرفارمنس ان سے سرزد ہو جاتی ہے۔ہر بیٹسمین ان کی خوب دھلائی کرتا ہے اور وہ اب کے مارکے دکھاکا ورد کرتے ہوئے اور تیز گیند کر کے اور زیادہ زور سے شاٹ کھاتے ہیں۔باقی کھلاڑی بھی ڈرے سہمے سے محسوس ئے، ان کا زیادہ دھیان اسی بات پر نظر آیا کہ اگر ہار گئے تو کیا ہوگا۔
ٹی وی چینلز پر ایسے ایسے کھلاڑی تجزیہ اور تبصرہ دے رہے ہیں جنہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر میں گنتی کے میچز کھیلے اور ان کی کارکردگی اس قابل نہیں تھی کے وہ کبھی مستقل طور پر ٹیم کا حصہ بن سکتے۔بات یہاں تک رہتی تو کچھ قابل فہم تھی۔ حد تو یہ ہے کہ عامر لیاقت، عمر شریف اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے خواتین وحضرات بھی کرکٹ ایکسپرٹ بن کر کھلاڑیوں کو کھیلنے کے گربتا رہے ہیں۔عامر لیاقت کو تو ویسے بھی سو خون معاف ہیں۔ وہ سیاسی شو زمیں سیاسی تجزیہ کار،
رمضان میں اسلامی سکالر، انعام گھر میں چائنا کے طارق عزیز، بوقت ضرورت اداکار(میرے خیال میںیہ اپنی اداکاری کی وجہ سے ہی دوسرے کاموں میں بھی کامیاب ہیں)وغیرہ وغیرہ کے بعد اب کرکٹ ایکسپرٹ بھی ہیں۔ان سب کا مقصدکرکٹ میچز پر ہیجان پیدا کرکے ریٹنگ حاصل کرنا تھا۔ تقریبا تمام ٹی وی چینلز نے پاک بھارت میچ سے پہلے پاکستانی اور بھارتی کھلاڑیوں کو بٹھا کر ان میں گالی گلوچ کے مقابلے کا بھی انعقاد کیا۔جس کو عوامی سطح پر خوب پزیرائی ملی۔
اس سارے ماحول میں خواتین کی کرکٹ ٹیم نے غیر متوقع طور پر اچھی کارکردگی دکھا کر سب کو حیران کر دیا۔ اسی لیئے آج کل خواتین کرکٹ ٹیم کے گن گائے جا رہے ہیں، ان کی کارکردگی اس کی مستحق بھی ہے ۔ انہوں نے کسی بھی طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں تک کے پاکستان کی خاطر سب لڑکیوں نے ایک جیسے کپڑے تک پہنے ہوتے ہیں جو کے عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا۔ ہماری خواتین کرکٹرز میک اپ کے بغیر گراؤنڈ میں جانے پر بھی عار محسوس نہیں کر رہیں۔ جو ان کی وطن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، تو کامیاب خواتین کرکٹرز کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ یقیناًپاکستان کرکٹ بورڈ کا نہیں، کیونکہ اگر پی سی بی کا ہاتھ ہوتا تو خواتین کرکٹرز کی کارکردگی بھی مرد کرکٹرز کی طرح شاندار ہوتی۔ میری دعا ہے کہ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ جا ری رہے ۔ بصورت دیگر ان کو بھی غداری کا میڈل ملنے میں دیر نہیں لگے گی۔
ہمیں غدار یا محب وطن کے پیمانے کو کم از کم کرکٹ سے دور رکھنا چاہئے۔ ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھا کھیل پیش کرے اورپیسے کے ساتھ ساتھ عزت بھی حاصل کرے۔ ماضی میں کچھ کھلاڑی سپاٹ فکسنگ کے مرتکب ہوئے (اب بھی بہت سے لوگوں کے خیال میں وہ بے قصور تھے اور ان کو سازش کے تحت پھنسایا گیا)۔ لیکن تمام کھلاڑیوں کو محب وطن ہی سمجھنا چاہئے ۔ میچ میں ہار پرغصہ آنا فطری بات ہے۔بری پرفارمنس سے کھلاڑی کی صلاحیت پر تو شک کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو غداری سے تشبیح دینا درست نہیں۔اس وجہ سے کھلاڑیوں پر اضافی پریشر بنتا ہے جس سے وہ بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
اپنی ٹیم کو سپورٹ کریں اور اس کی اچھی اور بری پرفارمنس دونوں کو قبول کریں۔میری بیگم اکثر چڑ کر کہتی ہے کہ جب آپ کو پتا ہے کی ٹیم ہارے گی، لیکن پھر بھی آپ ڈھیٹ بن کر ہر میچ کیوں دیکھتے ہیں۔ میرا جواب یہی ہوتا ہے، کہ یہ میرے ملک کی ٹیم ہے اور مجھے اس کو سپورٹ کرنا ہے۔
کرکٹ میں ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ کیسی بھی ٹیم کو جیتنے اور اس کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیئے محنت اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کومسلسل جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ جیسی ٹیمیں آج اسی لیئے کامیاب ہیں کہ وہ کھلاڑیوں کوصرف ماضی کی کارکردگی ہی نہیں موجودہ کارکردگی ،گراؤنڈ کی کنڈیشنز اور فٹنس کو مدنظر رکھ کر ہی کھلاتی ہیں۔کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے
کہ وہ ٹیم میں بہتری کے لیئے پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرے جوذاتی پسند ناپسند کے بجائے میرٹ پرہوں۔جب تک ہم ان خطوط پر ٹیم سیلیکٹ نہیں کریں گے، کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط نہیں بنا ئیں گے، ہماری ہار اور مایوسیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
Source
تحریر: عابد حسن
بیٹے نے اپنے سیاستدان باپ سے پوچھا غدار کس کو کہتے ہیں؟ جواب ملا جو ہماری پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلا جائے۔بیٹے نے دوبارہ پوچھا ، اور جو دوسری پارٹی چھوڑ کر ہماری پارٹی میں آئے اس کوکیا کہتے ہیں۔ اصول پسندباپ نے اطمینان سے کہا۔پاکستانی سیاست میں یہ سنہری اصول کافی عرصہ سے رائج ہے۔جس کے تحت پارٹی چھوڑ کر جانے والے کو پہلی پارٹی میں غدارجبکہ نئی پارٹی میں اصول پسند کاخطاب دیا جاتا ہے۔اس اصول کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا سیاستدان ہوگا جو کبھی غداریا اصول پسند کہلایا گیا ہوگا۔یہ سلسلہ سیاست تک محدود نہیں ہے۔ میڈیا اینکرزاور کالم نگاروں سے لے کر،
ٹی وی چینلز اور اب کرکٹ کے کھلاڑیوں تک سب کو دو کیٹیگریز میں تقسیم کیا جانے لگا ہے، محب وطن اور غدار۔ان کے درمیان میں کوئی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی تیسری کیٹیگری بنائی گئی ہے۔کرکٹ جو کچھ عرصہ پہلے تک قوم کو متحد کر دیتی تھی اب اس پر بھی قوم تقسیم ہو چکی ہے۔ ہر کوئی اپنے من پسند کھلاڑیوں کومحب وطن اور وسروں کوغدار کہنے پر تلا ہوا ہے۔ حالیہ کرکٹ میچز میں ٹیم کی بد ترین کار کردگی سب کے سامنے ہے۔کچھ لوگ اس کی وجہ ٹیم کے اندرونی اختلافات کو بتاتے ہیں
جبکہ کچھ لوگ اس سے تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے کچھ کھلاڑیوں کو غدارہونے کا سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں جو جان بوجھ کر خراب کارکردگی سے ٹیم کو ہروا رہے ہیں۔کچھ حضرات انٹرنیٹ پر سراغ ر ساں بن کرمیچز کے دوران لی گئی کھلاڑیوں کی تصاویر کے ذریعے ان کے باہمی اختلافات کو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔شاہد آفریدی نے بھی اپنے ایک بیان سے اس تاثر کو تقویت دی کہ ٹیم میں سازش اور دھڑے بندی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ ان کی اپنی کارکردگی کیوں ٹھیک نہیں رہی۔کیا اس کے پیچھے بھی قندیل بلوچ اور عرشی خان جیسی سازشیں ہیں؟
بوم بوم آفریدی جو کہ 20سال کرکٹ کھیل کر ہر درجن بھر میچز کے بعد ایک اچھی کارکردگی دکھا کرمسلسل ٹیم کا حصہ بنے ہوئے تھے اب بھی ریٹائیرمنٹ کاصرف سوچرہے ہیں۔شاید انہوں نے وہ فقرہ نہیں سنا ہوگا کہ اچھے وقت پر ہیرو کی طرح ریٹائر ہونا برے وقت پر ولن کی طرح ریٹائرڈہونے سے بہتر ہے۔ شرجیل خان نے دو اچھی اننگز کھیلیں لیکن ان کو ابھی مزید تجربے اور ٹیمپرامنٹ کی ضرورت ہے۔ شعیب ملک، احمد شہزاد اور عمر اکمل نے آخری دو میچوں میں اپنے تمام تر تجربہ کے ساتھ کوشش تو بہت کی لیکن یہ صاف نظر آرہا تھا کہ ان سے نہیں ہو پائے گا۔محمد سمیع جن کو کرکٹ کھیلتے ہوئے 15 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں
لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو شازونادر ہی اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں، بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ کبھی کبھار اچھی پرفارمنس ان سے سرزد ہو جاتی ہے۔ہر بیٹسمین ان کی خوب دھلائی کرتا ہے اور وہ اب کے مارکے دکھاکا ورد کرتے ہوئے اور تیز گیند کر کے اور زیادہ زور سے شاٹ کھاتے ہیں۔باقی کھلاڑی بھی ڈرے سہمے سے محسوس ئے، ان کا زیادہ دھیان اسی بات پر نظر آیا کہ اگر ہار گئے تو کیا ہوگا۔

ٹی وی چینلز پر ایسے ایسے کھلاڑی تجزیہ اور تبصرہ دے رہے ہیں جنہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر میں گنتی کے میچز کھیلے اور ان کی کارکردگی اس قابل نہیں تھی کے وہ کبھی مستقل طور پر ٹیم کا حصہ بن سکتے۔بات یہاں تک رہتی تو کچھ قابل فہم تھی۔ حد تو یہ ہے کہ عامر لیاقت، عمر شریف اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے خواتین وحضرات بھی کرکٹ ایکسپرٹ بن کر کھلاڑیوں کو کھیلنے کے گربتا رہے ہیں۔عامر لیاقت کو تو ویسے بھی سو خون معاف ہیں۔ وہ سیاسی شو زمیں سیاسی تجزیہ کار،
رمضان میں اسلامی سکالر، انعام گھر میں چائنا کے طارق عزیز، بوقت ضرورت اداکار(میرے خیال میںیہ اپنی اداکاری کی وجہ سے ہی دوسرے کاموں میں بھی کامیاب ہیں)وغیرہ وغیرہ کے بعد اب کرکٹ ایکسپرٹ بھی ہیں۔ان سب کا مقصدکرکٹ میچز پر ہیجان پیدا کرکے ریٹنگ حاصل کرنا تھا۔ تقریبا تمام ٹی وی چینلز نے پاک بھارت میچ سے پہلے پاکستانی اور بھارتی کھلاڑیوں کو بٹھا کر ان میں گالی گلوچ کے مقابلے کا بھی انعقاد کیا۔جس کو عوامی سطح پر خوب پزیرائی ملی۔
اس سارے ماحول میں خواتین کی کرکٹ ٹیم نے غیر متوقع طور پر اچھی کارکردگی دکھا کر سب کو حیران کر دیا۔ اسی لیئے آج کل خواتین کرکٹ ٹیم کے گن گائے جا رہے ہیں، ان کی کارکردگی اس کی مستحق بھی ہے ۔ انہوں نے کسی بھی طرح کے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں تک کے پاکستان کی خاطر سب لڑکیوں نے ایک جیسے کپڑے تک پہنے ہوتے ہیں جو کے عام حالات میں ممکن نہیں ہوتا۔ ہماری خواتین کرکٹرز میک اپ کے بغیر گراؤنڈ میں جانے پر بھی عار محسوس نہیں کر رہیں۔ جو ان کی وطن سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، تو کامیاب خواتین کرکٹرز کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ یقیناًپاکستان کرکٹ بورڈ کا نہیں، کیونکہ اگر پی سی بی کا ہاتھ ہوتا تو خواتین کرکٹرز کی کارکردگی بھی مرد کرکٹرز کی طرح شاندار ہوتی۔ میری دعا ہے کہ ان کی کامیابیوں کا سلسلہ جا ری رہے ۔ بصورت دیگر ان کو بھی غداری کا میڈل ملنے میں دیر نہیں لگے گی۔
ہمیں غدار یا محب وطن کے پیمانے کو کم از کم کرکٹ سے دور رکھنا چاہئے۔ ہر کھلاڑی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھا کھیل پیش کرے اورپیسے کے ساتھ ساتھ عزت بھی حاصل کرے۔ ماضی میں کچھ کھلاڑی سپاٹ فکسنگ کے مرتکب ہوئے (اب بھی بہت سے لوگوں کے خیال میں وہ بے قصور تھے اور ان کو سازش کے تحت پھنسایا گیا)۔ لیکن تمام کھلاڑیوں کو محب وطن ہی سمجھنا چاہئے ۔ میچ میں ہار پرغصہ آنا فطری بات ہے۔بری پرفارمنس سے کھلاڑی کی صلاحیت پر تو شک کیا جا سکتا ہے لیکن اس کو غداری سے تشبیح دینا درست نہیں۔اس وجہ سے کھلاڑیوں پر اضافی پریشر بنتا ہے جس سے وہ بہتر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں۔
اپنی ٹیم کو سپورٹ کریں اور اس کی اچھی اور بری پرفارمنس دونوں کو قبول کریں۔میری بیگم اکثر چڑ کر کہتی ہے کہ جب آپ کو پتا ہے کی ٹیم ہارے گی، لیکن پھر بھی آپ ڈھیٹ بن کر ہر میچ کیوں دیکھتے ہیں۔ میرا جواب یہی ہوتا ہے، کہ یہ میرے ملک کی ٹیم ہے اور مجھے اس کو سپورٹ کرنا ہے۔
کرکٹ میں ہار جیت کھیل کا حصہ ہے۔ کیسی بھی ٹیم کو جیتنے اور اس کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیئے محنت اور کھلاڑیوں کی کارکردگی کومسلسل جانچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ جیسی ٹیمیں آج اسی لیئے کامیاب ہیں کہ وہ کھلاڑیوں کوصرف ماضی کی کارکردگی ہی نہیں موجودہ کارکردگی ،گراؤنڈ کی کنڈیشنز اور فٹنس کو مدنظر رکھ کر ہی کھلاتی ہیں۔کرکٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے
کہ وہ ٹیم میں بہتری کے لیئے پروفیشنلز کی خدمات حاصل کرے جوذاتی پسند ناپسند کے بجائے میرٹ پرہوں۔جب تک ہم ان خطوط پر ٹیم سیلیکٹ نہیں کریں گے، کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط نہیں بنا ئیں گے، ہماری ہار اور مایوسیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔
Source
- Featured Thumbs
- http://s30.postimg.org/u6fv1q9xt/image.jpg
Last edited by a moderator: