ہماری ماند پڑتی قدریں۔۔۔۔

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

ہماری ماند پڑتی قدریں۔۔۔


اوئے ۔۔ آج پچاس سے کام نہیں چلے گا۔۔۔ سو کا نوٹ نکال۔۔۔
بڑا اور گول پیٹ لئے ٹریفک پولیس والا ایک ٹریفک سگنل پر اپنے شکار اورنگزیب سے کرخت آواز میں مُخاطب ہوا۔۔۔بغیر کسی شرم و مُروت کے ۔۔۔

ارے صاحب پیچھے بھی دیا ہے اب آگے بھی دینا ہوگا ۔۔۔جانے دو نا صاحب۔۔۔اورنگزیب نے عاجزی سے التجا کی۔۔۔۔جسے اُس بوری کے پیٹ والے نے سُنی ان سُنی کردی اور بولا۔۔
وہ میرا مسئلہ نہیں۔۔ اگر گاڑی بند کرانی ہے تو بتاو۔۔۔ آج اُوپر سے سختی ہے اور تمہارا مال بھی کُچھ زیادہ دکھ رہا ہے۔۔۔ اور۔۔۔

اورنگزیب کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے کہ وہ اوپر سے سختی کا مطلب سمجھ گیا تھا۔۔ ویسے بھی اُس کو گاڑی بند کرائےجانے کی دھمکی ہی کافی تھی ۔۔۔اوردل ہی دل میں ٹریفک والے کو گالیاں دیتا ہوا آگے بڑھا۔۔


اورنگزیب کا ٹرک اُس کا ذاتی نہیں تھا ۔۔۔بلکہ شراکت داری میں تھا۔۔۔ وہ کراچی کی سبزی منڈی سے اپنے علاقے میں مال سپلائی کرتا تھا۔۔۔

کراچی کی سبزی منڈی ۔۔ جو کہ تقریبا پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو مال سپلائی کی ذمے دار ہے۔۔ ۔میں نہ تو کوئی شیلٹر بناہوا تھا جہاں پر مزدُور جاکر کُچھ دیر آرام کر سکیں اور نہ ہی کوئی اور سہولت۔۔۔
کسی بھی موسم سے نمٹنے کے لئے آدمی کے پاس اپنا انتظام ہونا چاہیے۔۔نہیں تو ذلالت و خواری اُس کا مُقدر بن جاتی ہے۔۔۔

اورنگزیب کا کام صُبح آذان کے ساتھ ہی شُروع ہوجاتا ۔۔۔ پہلے ٹرک نکال کر سبزی منڈی جاتا۔۔ وہاں سے بڑی محنت سے اپنے علاقے کے سبزی و پھل فروشوں کا مال اُٹھواتا۔۔۔
پھر اُنہیں ٹرک میں لاد کر جب واپس اپنے علاقے کی طرف جاتا تو راستے میں پولیس والوں کی بھوکی نگاہوں اور خالی پیٹوں کی آگ کو کُچھ ایندھن فراہم کرکے ہی جا پاتا۔۔۔

اور اگر کہیں ایم کیو ایم والوں یا کسی نامعلُوم افراد کی طرف سے اچانک جلوس یا سڑکیں بند کرائی گئیں ہوتیں تو اُنہیں لمبا چکر کاٹ کر اور جان خطروں میں ڈال کر ہی واپس آنا پڑتا۔۔۔

اپنے علاقے پہنچ کر ایک ایک دُکاندار کو مال سپلائی کرنے کے بعد شام کو آخری چکر اُن سے کرایہ وصُولی کا لگاتا۔۔۔ اتنی محنت کے بعد وہ اس قابل ہوجاتا کہ اُس کے گھر کا چولہا جل سکے۔۔۔

بسا اوقات منڈی کے آرڈر کم آتے تو اُس کا وہ دن بس سمجھیں یوں ہی جاتا کہ۔۔۔ ڈیزل اور مزدُور کے خرچے کے علاوہ حرامخوار سنتری بادشاہوں کو بھی دو چارسو دینے پڑتے۔۔۔ اور اُسے تقریبا خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑتا۔۔۔ کم آرڈرز کے لئے بھی وہ منڈی اس لیے جاتا کہ وہ آرڈر کوئی اور لے جاتا اور ساتھ میں روز کا گاہک بھی۔۔۔

جب کھبی کام کم ہوتا تو وہ غم غلط کرنے اپنے ایک انجینئر دوست سے ملنے چلا جاتا۔۔۔ جو کہ اُسے کوئی بیس پچیس سال پہلےکرکٹ کے ایک میدان میں ملا تھا اور آج تک اس سے جان نہ چُھڑا پایا تھا ۔۔۔ کھبی وہ اُس کی رہائش گاہ پر ہی گپ شپ لگاتے تو کھبی انجینئر کی گاڑی میں باہر شہر میں گھومتے یا کھبی کھبار کوئی فلم وغیرہ دیکھ لیتے۔۔۔

وہ دوست ایک اٹھارہ گریڈ کا آفیسر تھا اور سرکاری گاڑی اور پیٹرول کے علاوہ اچھی تنخواہ ہونے اور پوزیشن میں واضح تبدیلی کے باوجود اپنے ان کم آمدنی والے دوستوں کی محفل میں خوش رہتا۔۔۔اور قدرت نے اُسے کھلے دل کا مالک بھی بنایا تھا۔۔

اکثر اوقات فلم یا کھانے کے بل میں وہ پہل کرتا اور اورنگزیب کی شام مُفت میں ہی رنگین ہوجاتی ایک دو چائے ایک کھانے اور ایک عدد فلم سے۔۔۔ ہفتے میں ایک آدھ بار یہی اُس کی عیاشی تھی۔۔۔

ایک دن اورنگزیب منڈی سے گھر کی طرف آرہا تھا کہ اُس کی نظر سڑک کنارے کھڑی ایک سُفید کار پر پڑی جو کہ اُسے جانی پہچانی لگی۔۔۔ جب غور سے دیکھا تو اُس میں اُس کا انجینئر دوست بیٹھا فون پر بات کررہا تھا اورکُچھ پریشان سا دکھ رہا تھا۔۔۔ اُس نے بھی اسے دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے رُکھنے کا کہا۔۔۔

اورنگزیب نے اپنا ٹرک سڑک کے کنارے لگایا ۔۔۔ اور اُتر کر دوست کی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔خیر ہے۔۔۔؟؟
ہاں وہ دفتر سے آتے ہوئے میری گاڑی کا ٹائر پنچر ہوگیا تھا۔۔اسی لئے رُکھنا پڑا۔۔۔
یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ابھی بدل دیتے ہیں۔۔تم نے کوشش کی ٹائر بدلنے کی۔۔۔
ہاں کوشش تو کی پر یہ نئے ماڈل کی گاڑی ہے اس کی سمجھ مُجھے بالکُل بھی نہیں۔۔۔ دوست نے کہا

وطن عزیز میں بندہ ایک بار افسر بن جائے تو اُس سے اس قسم کے کام ویسے بھی نہیں ہوپاتے۔۔۔ یہ تو اُس کی خوش نصیبی تھی کہ اُس کا وہ کھوٹا سکہ وقت پر کام آیا نہیں تو جو حالات شہر کے تھے ۔۔۔اُس میں اس کا موبائل پرس وغیرہ تو جاتا ہی ساتھ میں گاڑی اور جان کے جانے کا بھی ڈر تھا۔۔۔

ایک طرف وہ دوست اس پر تھوڑا بہت خرچہ کرتا تو دوسری طرف یہ اُس کے اسی قسم کے کاموں میں مدد گار ثابت ہوتا۔۔۔

کوئی بھی انسان چاہے جتنا بھی اُونچھے مقام پر پہنچ جائے وہ رہتا انسان ہی ہے۔۔۔اور انسان کھبی بھی مُکمل اور ضرُورتوں سے آزاد نہیں ہوسکتا۔۔۔یہ صفت صرف اللہ کی ہے۔۔۔

اپنے معاشرے میں ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو کہ تھوڑی سی پوزیشن یا پیسہ پانے کے بعد خُود کو اور اپنے ماضی کو فراموش کردیتے ہیں اور عام انسان کو انسان نہیں مانتے۔۔۔پھر اس قسم کے حالات میں اُنہیں شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔

ابھی تک ہمارا معاشرہ جو کہ تھوڑا بہت باقی ہے وہ شاید انہی بے لوث دوستیوں اور تعلُقات کی بُنیاد پر ہے۔۔
۔


 
Last edited by a moderator:

asadrehman

Chief Minister (5k+ posts)
انسان کے اندر انسانیت رہنی چاہیے۔ معاشرے کی مجموعی صحت ایسے لوگوں اور ایسے جذبوں سے ہی قائم رہتی ہے۔
 

saadmahhmood83

Minister (2k+ posts)
انسان کو سوشل اینیمل اسی لیے کہا جاتا ہے ۔۔کونکہ انسان تنہا زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔اگر آپ اپنے گرد سٹیٹس کے خول چڑھاتے جائیں اور انسانوں سے دور ہوتے جائیں تو اتنی ہی ڈپریشن بڑھتی جاتی ہے
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
انسان کے اندر انسانیت رہنی چاہیے۔ معاشرے کی مجموعی صحت ایسے لوگوں اور ایسے جذبوں سے ہی قائم رہتی ہے۔

ُجب انسان انسان نہیں رہتا تو اُس میں اور چوپایو میں کوئی فرق بھی نہیں رہتا۔۔۔
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
انسان کو سوشل اینیمل اسی لیے کہا جاتا ہے ۔۔کونکہ انسان تنہا زندہ نہیں رہ سکتا۔۔۔اگر آپ اپنے گرد سٹیٹس کے خول چڑھاتے جائیں اور انسانوں سے دور ہوتے جائیں تو اتنی ہی ڈپریشن بڑھتی جاتی ہے


اس تجربے سے میں خُود گُزرا ہوں۔۔

جب آسٹریلیا کے نارتھ میں ایک گھنٹہ پیدل چل کر صرف ایک آدمی کو پایا تو تنہائی سے وہشت ہونے لگی۔۔۔

 

jaanmark

Chief Minister (5k+ posts)
same when that man is nawaz hahah صرف ایک آدمی کو پایا تو تنہائی سے وہشت ہونے لگی۔۔۔
 

Foreigner

Senator (1k+ posts)
ہمارے معاشرے میں واضح طبقاتی فرق کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ اور احساس کمتری بہت عام ہے، زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو نیچہ دکھانے میں لگے رہتے ہیں. اگر اللہ کسی کو نواز دے تو کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچے.

مہذب معاشروں میں جہاں لوگوں کو کسی قسم کا عدم تحفظ نہیں، وہاں انسانیت کا مظاہرہ بھی سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
ہمارے معاشرے میں واضح طبقاتی فرق کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ اور احساس کمتری بہت عام ہے، زیادہ تر لوگ ایک دوسرے کو نیچہ دکھانے میں لگے رہتے ہیں. اگر اللہ کسی کو نواز دے تو کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچے.

مہذب معاشروں میں جہاں لوگوں کو کسی قسم کا عدم تحفظ نہیں، وہاں انسانیت کا مظاہرہ بھی سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے.

Agreed Sir G....
 

Salma Khan

Minister (2k+ posts)
Yeah well said, its a bitter reality. Values are changing by the time. People have become materialistic, selfish and and least concerned about values.
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
Yeah well said, its a bitter reality. Values are changing by the time. People have become materialistic, selfish and and least concerned about values.


اس تجربے سے میں خُود گُزرا ہوں۔۔

جب آسٹریلیا کے نارتھ میں ایک گھنٹہ پیدل چل کر صرف ایک آدمی کو پایا تو تنہائی سے وہشت ہونے لگی۔۔۔


ُجب انسان انسان نہیں رہتا تو اُس میں اور چوپایو میں کوئی فرق بھی نہیں رہتا۔۔۔

انسان کے اندر انسانیت رہنی چاہیے۔ معاشرے کی مجموعی صحت ایسے لوگوں اور ایسے جذبوں سے ہی قائم رہتی ہے۔


Jani aap kee tehreer perh ker aaj phir Allama Iqbal yaad aaye. Elementary school may Allama kee eik nazam perhi thee jo umar kay is hissay may bhi yaad hai aur abb bhi apnay pallay say baandh rakhkhi is guunahgaar nay!

Allama fermatay haein:

Tehnee pay kisi shajar kee tanhaa
Buulbuul thaa koee uudas baithaa

Kehtaa thaa keh raat sir pay aaee
Uurnay chuugnay may din guuzara

Pohounchoo kis tarah aashiaan tak
Her cheez pay chaa gaya andhairaa

Suun ker buulbuul kee aah o zaree
Juugnoo kowee paas hee say bolaa

Haazir hooun madad kow jaan o dil say
Keeraa hooun agarcheh maein zara saa

Kayaa ghamm hai jo raat hai andhairee
Maein raah may roshnee karooun gaa

Allah nay dee hai muujh kow mashal
Chamkaa kay muujhay banaa deeaa

Haein loug wohee jahaan may achchay
Aatay haein jo kaam doosroun kay.

I think it sums up the message given in your writing.

 
Last edited:

Two Stooges

Chief Minister (5k+ posts)
انسانوں سے پیار روح کے زندہ ھونے کی دلیل ھے، کوئی بھی اس روئیے کو چھوڑ کر زندہ نہیں کھلایا جا سکتا ،، صرف ایک چلتی پھرتی لاش بن جاتا ھے
Abdul-Sattar-Edhi26047222_201561815150.jpg
 

Sniper

Chief Minister (5k+ posts)
ماند پڑتی قدروں کی وجہ سے ہی تو قوم پر عزاب نازل ہیں۔
 

allahkebande

Minister (2k+ posts)
جن کو زندگی کا مفہوم معلوم ہوتا ہے انکے نزدیک مال سے زیادہ رشتوں کی اہمیت ہوتی ہے
 

Back
Top