moazzamniaz
Chief Minister (5k+ posts)
ہمارا منافق اور ناکارہ ریڈار
عائشہ ٹیمی حق
پندرہ مئی،دو ہزار گیارہ.دی ایکسپریس ٹریبیون
دو مئی کو اسامہ بن لادن کی موت کے بعد سے یہ واقعہ ہر خبر، ٹاک شو، سوشل میڈیا اور تقریبات کا موضوع بن چکا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ واحد موضوع. شروع میں اسامہ کی موت پر اطمینان (کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے) کے فوراّ بعد، بات اس طرف چل نکلی کہ کیسے ہمارے ریڈارز (یھاں ملٹری پڑھا جاۓ) نے ہمیں ایک بار پھر ناکام اور مایوس کیا. اسی دوران 'نااہلی اور ملی بھگت' پر بھی بات ہوئی، اور ہمیشہ دونوں چیزوں کی موجودگی پر اتفاق پایا گیا. بہرحال، نااہلی ہو یا ملی بھگت یا کہ دونوں چیزیں، آخر میں ہمیشہ شرمندگی سے ہی پالا پڑا ہے کہ آخر کار یہ چیز کس طرح ہمارے ریڈار سے بچ نکلی؟؟؟؟
شرمندگی سے سوچتے ہوئے یہ خیال آیا کہ ، آخر کار ہم اتنے شرمندہ کس بات پر ہیں؟؟؟ کیا اسلئیے کہ امریکن رات کے اندھیرے میں سٹیون سیگل کی فلم کی طرح اسامہ کو لے اڑے اور جاتے ہوئے اپنی آمد کا مصدقہ ثبوت بھی اپنی دم کی صورت میں چھوڑ گئے. تا کہ پنڈی والوں کو زیادہ عرق ریزی سے محفوظ رکھا جا سکے. "جی ہاں" ہر کسی کا جواب یہی ہے ." جس طرح سے ہماری جغرافیائی سرحدوں اور خودمختاری کو پامال کیا گیا، بطور پاکستانی ہم شرمندہ ہیں"
یہ واقعی بہت پریشانی کی بات ہے.ہمارے قومی وقار اور نفسیاتی غیرت کو پہنچنے والے اس دھچکے سے کیسے نپٹا جاۓ؟؟ تو اب الزام کس کے سر ڈالا جاۓ،تا کہ ہمیں کچھ اطمینان ہو؟؟ تو لیں جناب؛ یہ سارا قصور ریڈارز کا ہے، جنہوں نے ہماری مسلح افواج کو خبردار نہ کیا. جب ہیلی کاپٹر ہماری عزت لوٹ کر ہمیں لٹاپٹا اور پامال چھوڑ کر جا رہے تھے تو ہمارے ریڈارز نے ملٹری کو کیوں خبردار نہ کیا؟؟؟؟؟
یہ ضرور ریڈار کا قصور ہے!!! لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ پچھلے تریسٹھ سال سے کیوں ہمارے ریڈار کچھ بھی پکڑ نہیں سکے؟؟؟ آخر کار اتنی ساری چیزیں ریڈار سے بچ کیسے گئیں؟؟؟مثلاّ ہمارا ریڈار یہ کیوں نہ پتہ چلا سکا کہ
- ہم دنیا کی سب سے زیادہ انپڑھ قوموں میں سے ایک ہیں
- ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے
- ہم اپنی تین چوتھائی آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی مہیا کرنے سے قاصر ہیں. نہ تو صحت عامہ کی سہولت میسر ہے، پینے کا صاف پانی نہیں، کروڑوں بچے سکول کی شکل بھی نہیں دیکھ پاتے اور امن و قانون کی حکمرانی تو ایک بھگوڑے فوجی کی مانند عید کا چاند بن چکی ہے
- ہر سال ہزاروں عورتیں چپ چاپ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور ہیں، عزت کے نام پر عورتوں کو قتل اور زندہ درگور کیا جاتا ہے
- ہم مذھب کے نام پر قتل عام کرنے والے وہ خون آشام بھیڑیے بن چکے ہیں کہ اب معاشرے کی اکثریت اپنی اپنی گردن بچاتی پھر رہی ہے. ہم نے مسلح جنونیوں اور ذہنی مریضوں کے جیش، جتھے اور لشکر پالے ہوئے ہیں جو روزانہ ہماری اور ہمسائیوں کی سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور ہماری مقدس سر زمین کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں
- نہ ہی یہ ریڈار یہ پتہ چلا سکا کہ کیسے ہم جنسی تلذز کیلیے بچوں کی تجارت میں مصروف ہیں
- اور نہ ہی یہ کہ کیسے کرپٹ جرنیل اور سیاستدان قومی خزانہ شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر رہے ہیں
اس سے کم از کم یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ریڈار شروع سے ہی خراب ہے. سوال یہ ہے کہ اوپر بیان کی گئی سب چیزوں کو ہمارا ریڈار کیوں نہ پکڑ سکا اور ہم ان چیزوں پر شرمندہ کیوں نہیں ہیں؟؟؟ ہمیں اپنی جہالت، ناخواندگی اور مذہبی جنونیت پر بھی امریکی ہیلی کاپٹروں جیسی 'بھاری بھرکم' شرمندگی اور غیرت محسوس کیوں نہیں ہوتی؟؟؟؟ شاید اس لیے کہ ہماری ترجیحات کی ترتیب ہی یکسر غلط ہے
ہم نے ہمیشہ اپنی ناکامیوں اور مشکلات پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. ہم نے سر اٹھا کر چلنے کی بجاۓ ہمیشہ غیر ملکی امداد اور قرضوں کے بل پر رینگنے کو ترجیح دی ہے. اس دوران جتنے بھی مسائل ہمارے ریڈار کی نظر سے بچ کر ہم میں سرایت کر گئے، ہم نے ان کے سد باب کیلیے کچھ نہ کیا. اب ہمیں اپنے وسائل سے اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا. اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ہم ایک باعزت قوم نہیں بن جاتے، ہمارے ریڈار ایسے ہی ہمیں دھوکہ دیتے رہیں گے. اور ہم سواۓ خالی ہاتھ ملنے کے کچھ بھی نہیں کر سکیں گے
عائشہ ٹیمی حق
پندرہ مئی،دو ہزار گیارہ.دی ایکسپریس ٹریبیون
دو مئی کو اسامہ بن لادن کی موت کے بعد سے یہ واقعہ ہر خبر، ٹاک شو، سوشل میڈیا اور تقریبات کا موضوع بن چکا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ واحد موضوع. شروع میں اسامہ کی موت پر اطمینان (کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے) کے فوراّ بعد، بات اس طرف چل نکلی کہ کیسے ہمارے ریڈارز (یھاں ملٹری پڑھا جاۓ) نے ہمیں ایک بار پھر ناکام اور مایوس کیا. اسی دوران 'نااہلی اور ملی بھگت' پر بھی بات ہوئی، اور ہمیشہ دونوں چیزوں کی موجودگی پر اتفاق پایا گیا. بہرحال، نااہلی ہو یا ملی بھگت یا کہ دونوں چیزیں، آخر میں ہمیشہ شرمندگی سے ہی پالا پڑا ہے کہ آخر کار یہ چیز کس طرح ہمارے ریڈار سے بچ نکلی؟؟؟؟
شرمندگی سے سوچتے ہوئے یہ خیال آیا کہ ، آخر کار ہم اتنے شرمندہ کس بات پر ہیں؟؟؟ کیا اسلئیے کہ امریکن رات کے اندھیرے میں سٹیون سیگل کی فلم کی طرح اسامہ کو لے اڑے اور جاتے ہوئے اپنی آمد کا مصدقہ ثبوت بھی اپنی دم کی صورت میں چھوڑ گئے. تا کہ پنڈی والوں کو زیادہ عرق ریزی سے محفوظ رکھا جا سکے. "جی ہاں" ہر کسی کا جواب یہی ہے ." جس طرح سے ہماری جغرافیائی سرحدوں اور خودمختاری کو پامال کیا گیا، بطور پاکستانی ہم شرمندہ ہیں"
یہ واقعی بہت پریشانی کی بات ہے.ہمارے قومی وقار اور نفسیاتی غیرت کو پہنچنے والے اس دھچکے سے کیسے نپٹا جاۓ؟؟ تو اب الزام کس کے سر ڈالا جاۓ،تا کہ ہمیں کچھ اطمینان ہو؟؟ تو لیں جناب؛ یہ سارا قصور ریڈارز کا ہے، جنہوں نے ہماری مسلح افواج کو خبردار نہ کیا. جب ہیلی کاپٹر ہماری عزت لوٹ کر ہمیں لٹاپٹا اور پامال چھوڑ کر جا رہے تھے تو ہمارے ریڈارز نے ملٹری کو کیوں خبردار نہ کیا؟؟؟؟؟
یہ ضرور ریڈار کا قصور ہے!!! لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ پچھلے تریسٹھ سال سے کیوں ہمارے ریڈار کچھ بھی پکڑ نہیں سکے؟؟؟ آخر کار اتنی ساری چیزیں ریڈار سے بچ کیسے گئیں؟؟؟مثلاّ ہمارا ریڈار یہ کیوں نہ پتہ چلا سکا کہ
- ہم دنیا کی سب سے زیادہ انپڑھ قوموں میں سے ایک ہیں
- ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے
- ہم اپنی تین چوتھائی آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولیات بھی مہیا کرنے سے قاصر ہیں. نہ تو صحت عامہ کی سہولت میسر ہے، پینے کا صاف پانی نہیں، کروڑوں بچے سکول کی شکل بھی نہیں دیکھ پاتے اور امن و قانون کی حکمرانی تو ایک بھگوڑے فوجی کی مانند عید کا چاند بن چکی ہے
- ہر سال ہزاروں عورتیں چپ چاپ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے پر مجبور ہیں، عزت کے نام پر عورتوں کو قتل اور زندہ درگور کیا جاتا ہے
- ہم مذھب کے نام پر قتل عام کرنے والے وہ خون آشام بھیڑیے بن چکے ہیں کہ اب معاشرے کی اکثریت اپنی اپنی گردن بچاتی پھر رہی ہے. ہم نے مسلح جنونیوں اور ذہنی مریضوں کے جیش، جتھے اور لشکر پالے ہوئے ہیں جو روزانہ ہماری اور ہمسائیوں کی سرحدوں کے تقدس کو پامال کرتے ہیں اور ہماری مقدس سر زمین کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں
- نہ ہی یہ ریڈار یہ پتہ چلا سکا کہ کیسے ہم جنسی تلذز کیلیے بچوں کی تجارت میں مصروف ہیں
- اور نہ ہی یہ کہ کیسے کرپٹ جرنیل اور سیاستدان قومی خزانہ شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر رہے ہیں
اس سے کم از کم یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ریڈار شروع سے ہی خراب ہے. سوال یہ ہے کہ اوپر بیان کی گئی سب چیزوں کو ہمارا ریڈار کیوں نہ پکڑ سکا اور ہم ان چیزوں پر شرمندہ کیوں نہیں ہیں؟؟؟ ہمیں اپنی جہالت، ناخواندگی اور مذہبی جنونیت پر بھی امریکی ہیلی کاپٹروں جیسی 'بھاری بھرکم' شرمندگی اور غیرت محسوس کیوں نہیں ہوتی؟؟؟؟ شاید اس لیے کہ ہماری ترجیحات کی ترتیب ہی یکسر غلط ہے
ہم نے ہمیشہ اپنی ناکامیوں اور مشکلات پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. ہم نے سر اٹھا کر چلنے کی بجاۓ ہمیشہ غیر ملکی امداد اور قرضوں کے بل پر رینگنے کو ترجیح دی ہے. اس دوران جتنے بھی مسائل ہمارے ریڈار کی نظر سے بچ کر ہم میں سرایت کر گئے، ہم نے ان کے سد باب کیلیے کچھ نہ کیا. اب ہمیں اپنے وسائل سے اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا. اور یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک ہم ایک باعزت قوم نہیں بن جاتے، ہمارے ریڈار ایسے ہی ہمیں دھوکہ دیتے رہیں گے. اور ہم سواۓ خالی ہاتھ ملنے کے کچھ بھی نہیں کر سکیں گے
Last edited by a moderator: