ابابیل
Senator (1k+ posts)
دروس حدیث ۔۔۔ ابو کلیم فیضی
ہلکے اور وزنی کلمے
حدیث نمبر :11
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃ رضی اللّہُ عنہ قال :قَالَ رسولُ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ،کَلِمَتَا نِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَان ِ، سُبْحانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔
(صحیح البخاری:۶۴٠۶الدعواتصحیح مسلم:۲۶۹۴الذکر)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو کلے رحمن کو بہت پیارے ہیں، زبان پر بہت ہلکے ہیں اور ترازو میں بہت بھاری ہیں ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
]بخاری ومسلم[
تشریح : ذکر الٰہی ایک بہت اہم عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمام اعمال میں سب سے زیادہ محبوب ہے ، اللہ تبارک تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور مدد و تائید کے ذریعہ ذکر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ، ذکر میں مشغول بندوں کا ذکر وہ اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتا ہے ۔ ذکر الٰہی بندے کے زندہ دل ہونے کی دلیل ہے ، ذکر الٰہی میں مشغولیت اس بات کی علامت ہے کہ بندہ اپنے مالک، اپنے خالق ، اپنے رازق، اپنے محسن اور اپنے مربی کے احسانات و عطاءات کو یاد رکھتا ہے ، اور اس کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ اسیلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو کثرت سے ذکر کی ترغیب دیا کرتے تھے چنانچہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امور اسلام بہت زیادہ ہیں مجھے کوئی ایسا عمل بتلایئے جس پر میں جم جاؤں، آپ نے فرمایا :لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللہ. تمہاری زبان پر ہر وقت اللہ کا ذکر جاری رہے۔
(سنن ترمذی بروایت عبد اللہ بن بسر)
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ
فإن مثل ذلک کمثل رجل خرج العدو فی أثرہ سراعا حتى إذا أتى على حصن حصین فأحرز نفسہ منہم کذلک العبد لا یحرز نفسہ من الشیطان إلا بذکر اللہ قال النبی صلى اللہ علیہ و سلم
ذکر الٰہی کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کا پیچھا دشمنوں نے کیا اور وہ ان سے بھاگ کر کسی مضبوط قلعے میں داخل ہو گیا اور اپنے آپ کو محفوظ کر لیا، بعینہ اسی طرح بند ہ اپنے دشمن شیطان سے ذکر الٰہی کے ذریعہ محفوظ رہتا ہے۔
(سنن ترمذی)
مذکورہ حدیث میں بھی بعض انہیں کلمات کے ذکر کا بیان ہے جن کے اہتمام کی ترغیب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم، اس ذکر عظیم پر ابھارتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اولاً : یہ کلمے رحمن کو بہت پیا رے ہیں لہذااس کا اہتمام کر نے والے سے بھی اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ اس طرح ان دونوں کلموں کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ان کے اہتمام سے بندے کو اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
ثانیاً : یہ کلمے زبان پر اسقدر آسان ہیں کہ ان کے پڑھنے میں نہ دیر لگتی ہے اور نہ کوئی مشقت محسوس ہوتی ہے ، بلکہ ہر چھوٹا بڑا عالم و جاہل اور عربی و عجمی ان کلمات کو آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور تھوڑی سی مدت میں کئی بار ادا کر سکتا ہے۔
ثالثاً : ان کلموں کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب بندوں کے اعمال و نامہ ء اعمال تو لے جائیں گے تو یہ کلمے اگر چہ مختصر اور زبان پر ہلکے ہیں لیکن ترازو میں بفضلہ تعالیٰ بہت وزنی ثابت ہوں گے ، اور معلوم ہے کہ اس دن جس کا پلڑا بھاری ہو گیا وہ کامیاب ہو ا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گیا وہ نا کام و نا مراد رہا
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِیْنُہ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَاَمَّامَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہ فَاُمُّہ ھَاوِیَہ [القارعۃ] پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے ، وہ تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہو گا ، اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے ، اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے ۔
اس لئے ہر مسلمان کو جا ہئے کہ اس کلمے کا اہتمام کرے اور صبح و شام دن و رات اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھر تے اس کا ورد کرتا رہے۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
اس کلمے کا معنی سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم اللہ پاک ہے اپنی تعریفوں اور خوبیوں کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ پاک ہے عظمتوں والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہے وہ ہر اعتبار سے کامل ہے ، نہ اس کی ذات میں نقص ہے اور نہ اس کی صفات میں کسی قسم کا نقص ہے ، نہ اس کے کسی کام میں کوئی نقص ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فیصلہ نقص و عیب کا شکار ہے ،
وہ تمام خوبیوں کا حامل اور تمام صفات علیا کا منبع ہے ، لہذا وہی ہماری تمام حمدو ثنا کا سزاوار ہے۔ وہ اپنی ذات کے لحاظ سے بھی قابل تعریف ہے ، اپنی صفات کے لحاظ سے بھی قابل تعریف ہے اور اپنے افعال کے لحاظ سے بھی قابل ستائش ہے ، اس نے مخلوق پر اپنے احسانات کئے ہیں انہیں اپنی بے پایا ں نعمتوں سے نوازا ہے ، اس لئے وہی قابل حمد و ثنا ہے اور وہی ہے جو ہماری تمام محبتوں ، رغبتوں اور التجاؤں کاسزاوار ہے ،
وہ بہت عظمت و جلال والا ہے وہ اپنی ذات کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنی سلطنت کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنی بے پایاں خوبیوں کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنے علم کے بھی لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنی حکمت و عدل کے بھی لحاظ سے بھی ہے اور اپنے احسانات و انعامات کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اس کی عظمت و شان کا مقابلہ کوئی دوسری ذات نہیں کر سکتی ، سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
فائدے
۱ : سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد اللہ تعالیٰ کا بہترین ذکر ہے۔
۲ : اللہ تعالیٰ کی ایک صفت محبت کرنا ہے۔ ۳ : قیا مت کے دن بندوں کے اعمال اور ان کے اجر و ثواب تولے جائیں گے۔
۳ : اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان کہ وہ معمولی عمل پر بہت بڑے اجر سے نوازتا ہے۔
٭٭٭
ہلکے اور وزنی کلمے
حدیث نمبر :11
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃ رضی اللّہُ عنہ قال :قَالَ رسولُ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ،کَلِمَتَا نِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَان ِ، سُبْحانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔
(صحیح البخاری:۶۴٠۶الدعواتصحیح مسلم:۲۶۹۴الذکر)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو کلے رحمن کو بہت پیارے ہیں، زبان پر بہت ہلکے ہیں اور ترازو میں بہت بھاری ہیں ، سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
]بخاری ومسلم[
تشریح : ذکر الٰہی ایک بہت اہم عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کو تمام اعمال میں سب سے زیادہ محبوب ہے ، اللہ تبارک تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور مدد و تائید کے ذریعہ ذکر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے ، ذکر میں مشغول بندوں کا ذکر وہ اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتا ہے ۔ ذکر الٰہی بندے کے زندہ دل ہونے کی دلیل ہے ، ذکر الٰہی میں مشغولیت اس بات کی علامت ہے کہ بندہ اپنے مالک، اپنے خالق ، اپنے رازق، اپنے محسن اور اپنے مربی کے احسانات و عطاءات کو یاد رکھتا ہے ، اور اس کا شکریہ ادا کر رہا ہے۔ اسیلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو کثرت سے ذکر کی ترغیب دیا کرتے تھے چنانچہ ایک صحابی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم امور اسلام بہت زیادہ ہیں مجھے کوئی ایسا عمل بتلایئے جس پر میں جم جاؤں، آپ نے فرمایا :لا یزال لسانک رطبا من ذکر اللہ. تمہاری زبان پر ہر وقت اللہ کا ذکر جاری رہے۔
(سنن ترمذی بروایت عبد اللہ بن بسر)
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ
فإن مثل ذلک کمثل رجل خرج العدو فی أثرہ سراعا حتى إذا أتى على حصن حصین فأحرز نفسہ منہم کذلک العبد لا یحرز نفسہ من الشیطان إلا بذکر اللہ قال النبی صلى اللہ علیہ و سلم
ذکر الٰہی کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کا پیچھا دشمنوں نے کیا اور وہ ان سے بھاگ کر کسی مضبوط قلعے میں داخل ہو گیا اور اپنے آپ کو محفوظ کر لیا، بعینہ اسی طرح بند ہ اپنے دشمن شیطان سے ذکر الٰہی کے ذریعہ محفوظ رہتا ہے۔
(سنن ترمذی)
مذکورہ حدیث میں بھی بعض انہیں کلمات کے ذکر کا بیان ہے جن کے اہتمام کی ترغیب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے یعنی سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم، اس ذکر عظیم پر ابھارتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اولاً : یہ کلمے رحمن کو بہت پیا رے ہیں لہذااس کا اہتمام کر نے والے سے بھی اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔ اس طرح ان دونوں کلموں کا پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ ان کے اہتمام سے بندے کو اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔
ثانیاً : یہ کلمے زبان پر اسقدر آسان ہیں کہ ان کے پڑھنے میں نہ دیر لگتی ہے اور نہ کوئی مشقت محسوس ہوتی ہے ، بلکہ ہر چھوٹا بڑا عالم و جاہل اور عربی و عجمی ان کلمات کو آسانی سے ادا کر سکتا ہے اور تھوڑی سی مدت میں کئی بار ادا کر سکتا ہے۔
ثالثاً : ان کلموں کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ قیامت کے دن جب بندوں کے اعمال و نامہ ء اعمال تو لے جائیں گے تو یہ کلمے اگر چہ مختصر اور زبان پر ہلکے ہیں لیکن ترازو میں بفضلہ تعالیٰ بہت وزنی ثابت ہوں گے ، اور معلوم ہے کہ اس دن جس کا پلڑا بھاری ہو گیا وہ کامیاب ہو ا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گیا وہ نا کام و نا مراد رہا
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوازِیْنُہ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ وَاَمَّامَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہ فَاُمُّہ ھَاوِیَہ [القارعۃ] پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے ، وہ تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہو گا ، اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے ، اس کا ٹھکانا ہاویہ (جہنم) ہے ۔
اس لئے ہر مسلمان کو جا ہئے کہ اس کلمے کا اہتمام کرے اور صبح و شام دن و رات اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھر تے اس کا ورد کرتا رہے۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
اس کلمے کا معنی سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم اللہ پاک ہے اپنی تعریفوں اور خوبیوں کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ پاک ہے عظمتوں والا اللہ تبارک و تعالیٰ ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہے وہ ہر اعتبار سے کامل ہے ، نہ اس کی ذات میں نقص ہے اور نہ اس کی صفات میں کسی قسم کا نقص ہے ، نہ اس کے کسی کام میں کوئی نقص ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فیصلہ نقص و عیب کا شکار ہے ،
وہ تمام خوبیوں کا حامل اور تمام صفات علیا کا منبع ہے ، لہذا وہی ہماری تمام حمدو ثنا کا سزاوار ہے۔ وہ اپنی ذات کے لحاظ سے بھی قابل تعریف ہے ، اپنی صفات کے لحاظ سے بھی قابل تعریف ہے اور اپنے افعال کے لحاظ سے بھی قابل ستائش ہے ، اس نے مخلوق پر اپنے احسانات کئے ہیں انہیں اپنی بے پایا ں نعمتوں سے نوازا ہے ، اس لئے وہی قابل حمد و ثنا ہے اور وہی ہے جو ہماری تمام محبتوں ، رغبتوں اور التجاؤں کاسزاوار ہے ،
وہ بہت عظمت و جلال والا ہے وہ اپنی ذات کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنی سلطنت کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنی بے پایاں خوبیوں کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنے علم کے بھی لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اپنی حکمت و عدل کے بھی لحاظ سے بھی ہے اور اپنے احسانات و انعامات کے لحاظ سے بھی عظیم ہے ، اس کی عظمت و شان کا مقابلہ کوئی دوسری ذات نہیں کر سکتی ، سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔
فائدے
۱ : سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد اللہ تعالیٰ کا بہترین ذکر ہے۔
۲ : اللہ تعالیٰ کی ایک صفت محبت کرنا ہے۔ ۳ : قیا مت کے دن بندوں کے اعمال اور ان کے اجر و ثواب تولے جائیں گے۔
۳ : اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان کہ وہ معمولی عمل پر بہت بڑے اجر سے نوازتا ہے۔
٭٭٭
Last edited by a moderator: