Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
می ٹو کا مرکز وہی تہذیب ہے جسے اپنانے کی دعوت دی جا رہی ہے. گھوم پھر کر می ٹو تک پہنچنا ہے تو بہتر ہے رستہ اور منزل دونوں بدلی جائیں. شادی آسان اور کسی بھی قسم کے زنا پر سزا دی جائے
انصاری بھائی، خیر جو کچھ بھی ہے، یہ مسئلہ واقعی اب پاکستان میں سنگین نوعیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی استحصال اور بعد از قتل کے واقعات۔
خیر، میں مغربی دنیا کے دوغلے معیار سے کم عقل اور علم رکھنے کی وجہ سے کم ہی متاثر ہوسکا ہوں۔
ان کے ہاں بارہ سالہ لڑکی ماں بن جائے تو اسے بہت خوشی سے اخباروں میں شائع کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں اگر تیرہ یا چودہ سالہ لڑکی کا نکاح پڑھوا دیا جائے تو چائلڈ میرج اور سب اندر۔
ڈاکٹر صاحب کی بات بھی ٹھیک ہے کہ ہم نے بھی اپنے معاشرے میں بگاڑ اس مال و مطع کی حرص میں کیا ہے، کہ شادی کو نوکری سے مشروط کر دیا ہے۔
لیکن انصاری بھائی، ان واقعات کو دیکھیں تو یہ صرف شادی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہے۔ اس کے پیچھے اور بھی عوامل کارفرما ہیں۔
مثلاً ایک جگہہ ایک شخص کو بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ان کی ویڈیوز بنانے کا انکشاف ہوا تو پتہ یہ چلا کہ ان ویڈیوز کے خریدار مغرب میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ زینب کے کیس میں بھی یہی ہوا تھا۔
اگر زندہ رود کی بات مان لی جائے کہ جنسی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں تو پھر یہ سمجھ نہیں آتا کہ ان مغربی معاشروں میں ان ویڈیوز کے خریداروں کو کیا مسئلہ ہے؟ وہ لاکھوں روپے صرف ان ویڈیوز کے لیئے دیتے ہیں؟ ان کے دماغی حالات کہاں پہنچے ہوئے ہیں؟
اس خاص سلسلے میں، میں مودبانہ طور آپ سے تھوڑا سا اختلاف کرنا چاہوں گا۔ میرے خیال میں یہ واقعات بڑھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نام تو رکھ لیا اسلامی جمہوریہ پاکستان لیکن اسلامی نظام اور خاص کر اس سلسلے میں اسلامی سزاوٗں پر عمل پیرا نہ ہوئے۔
کچھ عرصہ پہلے بزرگ بتا رہے تھے کہ ضیاءالحق کے دور میں ایک بچے کے ساتھ ایسا واقع ہوا تھا تو مجرم کو سرِعام پھانسی لگادی گئی تھی اور اسکی لاش کو پتہ نہیں کتنے عرصے تک وہیں نشانِ عبرت کے طور لٹکایا گیا تھا۔ پھر دس سال تک دوبارہ کوئی ایسا واقع سننے میں نہیں آیا تھا۔
اسلام دراصل قدرت سے بہت قریب ہے۔ لوگوں کے اندر شیطانیت کو دبانے کے لیئے ایسی مثالیں نہیں ہونگی، تب تک ۔۔۔ معذرت اور افسوس کے ساتھ، مجھے ایسے جرائم میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔
بچوں کے ساتھ جنسی استحصال اور بعد از قتل کے واقعات۔
خیر، میں مغربی دنیا کے دوغلے معیار سے کم عقل اور علم رکھنے کی وجہ سے کم ہی متاثر ہوسکا ہوں۔
ان کے ہاں بارہ سالہ لڑکی ماں بن جائے تو اسے بہت خوشی سے اخباروں میں شائع کیا جاتا ہے۔
ہمارے یہاں اگر تیرہ یا چودہ سالہ لڑکی کا نکاح پڑھوا دیا جائے تو چائلڈ میرج اور سب اندر۔
ڈاکٹر صاحب کی بات بھی ٹھیک ہے کہ ہم نے بھی اپنے معاشرے میں بگاڑ اس مال و مطع کی حرص میں کیا ہے، کہ شادی کو نوکری سے مشروط کر دیا ہے۔
لیکن انصاری بھائی، ان واقعات کو دیکھیں تو یہ صرف شادی نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہو رہے۔ اس کے پیچھے اور بھی عوامل کارفرما ہیں۔
مثلاً ایک جگہہ ایک شخص کو بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ان کی ویڈیوز بنانے کا انکشاف ہوا تو پتہ یہ چلا کہ ان ویڈیوز کے خریدار مغرب میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ زینب کے کیس میں بھی یہی ہوا تھا۔
اگر زندہ رود کی بات مان لی جائے کہ جنسی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مسائل کھڑے ہو رہے ہیں تو پھر یہ سمجھ نہیں آتا کہ ان مغربی معاشروں میں ان ویڈیوز کے خریداروں کو کیا مسئلہ ہے؟ وہ لاکھوں روپے صرف ان ویڈیوز کے لیئے دیتے ہیں؟ ان کے دماغی حالات کہاں پہنچے ہوئے ہیں؟
اس خاص سلسلے میں، میں مودبانہ طور آپ سے تھوڑا سا اختلاف کرنا چاہوں گا۔ میرے خیال میں یہ واقعات بڑھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے نام تو رکھ لیا اسلامی جمہوریہ پاکستان لیکن اسلامی نظام اور خاص کر اس سلسلے میں اسلامی سزاوٗں پر عمل پیرا نہ ہوئے۔
کچھ عرصہ پہلے بزرگ بتا رہے تھے کہ ضیاءالحق کے دور میں ایک بچے کے ساتھ ایسا واقع ہوا تھا تو مجرم کو سرِعام پھانسی لگادی گئی تھی اور اسکی لاش کو پتہ نہیں کتنے عرصے تک وہیں نشانِ عبرت کے طور لٹکایا گیا تھا۔ پھر دس سال تک دوبارہ کوئی ایسا واقع سننے میں نہیں آیا تھا۔
اسلام دراصل قدرت سے بہت قریب ہے۔ لوگوں کے اندر شیطانیت کو دبانے کے لیئے ایسی مثالیں نہیں ہونگی، تب تک ۔۔۔ معذرت اور افسوس کے ساتھ، مجھے ایسے جرائم میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔