کیا سارے گورے ایماندار، سچے،اور بڑے اچھے ہوتے ہیں؟

Noworriesbehappy

Councller (250+ posts)
اسلام علیکم
میں نے ایک دوسرے فورم میں پاکستانی معاشرے اور مغربی معاشرے میں جو بنیادی فرق ہے اس کو اجاگر کرنے کیلئے کچھ چیزیں بیان کی ۔
میں نے اپنے زندگی کے پہلے 19 سال پاکستان میں اور باقی 22 سال یورپ ملک میں گزارے ہے۔ ہم پاکستانیوں میں ایک غلط فہمی ہے کہ پاکستانی سوسائٹی کا بنیادی مسلہ منافقت اور جھوٹ ہے۔ اور مغربی ممالک اس لیے روسی یافتہ ہے کہ وہاں پر لوگ ایمان دار ہیں۔

حالانکہ یہ بلکل غلط ہے۔ دونوں معاشروں میں فرق لاقانونیت اور دولت،وسائل کی تقسیم برابر نہ ہونا ہے۔ پنجابی کی کہاوت ہے۔ جنا دے گھر دانے، آوناں دے کملے وی سیانے۔ اس کا مطلب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ غربت کسی بھی معاشرے میں کافی برائیوں کی جڑ ہے۔ پاکستان معاشرے کی یہ حالت، اس لیے نہیں ہے کہ ہم منافق اور جھوٹے ہیں۔ بلکہ غریبی کی وجہ سے لوگ مجبور ہو کر جھوٹ ۔منافقت چوری۔جسم فروشی پر مجبور ہوتے ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لالچ کی وجہ سے جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیتے ہیں۔

مغربی معاشرے میں کسی بھی غریب سے غریب تر فیملی کو بھوک سے نہیں مرنا پڑتا ۔ ہر فیملی کو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسے حکومت مفت میں دیتی ہیں۔ 90 فیصد عوام میں جو امیر ترین بھی ہیں ان کی آمدنی 5.گماہ تک ہوتی ہے اس فیملی کے جو غریب ہوتی ہے۔
اگر کسی فرد کی آمدنی ایک حد سے اوپر جائے تو اس پر 50-65 فیصد۔ تک ٹیکس لگتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی زیادہ کمانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں تو پھر بھی کام کرنے کا فایدہ ہی نہیں ہوتا جب اس کی ایک بڑ اس کے حصہ ٹیکس میں گورنمنٹ کے پاس چلا جائے۔
اس سے معاشرے میں کافی برائیوں پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور کسی کو بھی وسائل کا ضیائع نہی کرنے دیا جاتا۔ اور جب امیر سے ٹیکس لےکر غریب کو دیا جاتا ہے تو اس کا ایک فائیدہ یہ بھی یہ ہوتا ہے کہ غریب ان پیسوں سے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہوئے وہی پیسے مقامی اکانومی میں خرچ کرتا ہے جس سے روزگار کے اور مواقع پیدا ہوتے ہیں بنسبت اس کے وہی پیسے کسی امیر کے بینک اکاؤنٹ میں پڑے رہے یا وہ اپنی فصول خرچیوں پر ضائع کرے۔

اس لیے اگر ہم نے اپنے معاشرے کو بھتر بنانا ہیں تو ہمیں ہر اس اقدام کی مخلافت کرنی ہے جو دولت اور وسائل کو صرف ایک چند خاندانوں کے کنٹرول میں دکھتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے ہمارے معاشرے میں جھوٹ اور منافقت کی۔
 
Last edited by a moderator:

Nebula

Minister (2k+ posts)
There is so much to do. the society needs to evolve from the British Rule shadow. Muslim use to do a lot of education and every person worked hard to gain knowledge of both worlds but now in our Pakistani society, we have an extreme situation on both sides. First thing is to get back to Muhammad PBUH and his companion teaching and follow the Islam guidance basic sprit. we really need to start benefiting from the guidance of ALLAH that is the only simple solution. We are failing miserably to establish true justice. Qaid e Azam Muhammad Ali Jinnah is the founder of Pakistan May ALLAH bless him with a high reward Aameen. This is the time to stand up open your eyes, mouth, and hands and fight for freedom from this elite-hijacked system. we need people who go into parliament and make laws for common people. rectify legal problems and fix issues immediately. Imran Khan is good or bad come next but right now he is challenging this system at the cost of his own life. this is the time to stand with each other and fight like Muhammad Ali final punch.
 
اسلام علیکم
میں نے ایک دوسرے فورم میں پاکستانی معاشرے اور مغربی معاشرے میں جو بنیادی فرق ہے اس کو اجاگر کرنے کیلئے کچھ چیزیں بیان کی ۔
میں نے اپنے زندگی کے پہلے 19 سال پاکستان میں اور باقی 22 سال یورپ ملک میں گزارے ہے۔ ہم پاکستانیوں میں ایک غلط فہمی ہے کہ پاکستانی سوسائٹی کا بنیادی مسلہ منافقت اور جھوٹ ہے۔ اور مغربی ممالک اس لیے روسی یافتہ ہے کہ وہاں پر لوگ ایمان دار ہیں۔

حالانکہ یہ بلکل غلط ہے۔ دونوں معاشروں میں فرق لاقانونیت اور دولت،وسائل کی تقسیم برابر نہ ہونا ہے۔ پنجابی کی کہاوت ہے۔ جنا دے گھر دانے، آوناں دے کملے وی سیانے۔ اس کا مطلب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ غربت کسی بھی معاشرے میں کافی برائیوں کی جڑ ہے۔ پاکستان معاشرے کی یہ حالت، اس لیے نہیں ہے کہ ہم منافق اور جھوٹے ہیں۔ بلکہ غریبی کی وجہ سے لوگ مجبور ہو کر جھوٹ ۔منافقت چوری۔جسم فروشی پر مجبور ہوتے ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لالچ کی وجہ سے جھوٹ اور منافقت کا سہارا لیتے ہیں۔

مغربی معاشرے میں کسی بھی غریب سے غریب تر فیملی کو بھوک سے نہیں مرنا پڑتا ۔ ہر فیملی کو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسے حکومت مفت میں دیتی ہیں۔ 90 فیصد عوام میں جو امیر ترین بھی ہیں ان کی آمدنی 5.گماہ تک ہوتی ہے اس فیملی کے جو غریب ہوتی ہے۔
اگر کسی فرد کی آمدنی ایک حد سے اوپر جائے تو اس پر 50-65 فیصد۔ تک ٹیکس لگتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی زیادہ کمانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہوں تو پھر بھی کام کرنے کا فایدہ ہی نہیں ہوتا جب اس کی ایک بڑ اس کے حصہ ٹیکس میں گورنمنٹ کے پاس چلا جائے۔
اس سے معاشرے میں کافی برائیوں پر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اور کسی کو بھی وسائل کا ضیائع نہی کرنے دیا جاتا۔ اور جب امیر سے ٹیکس لےکر غریب کو دیا جاتا ہے تو اس کا ایک فائیدہ یہ بھی یہ ہوتا ہے کہ غریب ان پیسوں سے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہوئے وہی پیسے مقامی اکانومی میں خرچ کرتا ہے جس سے روزگار کے اور مواقع پیدا ہوتے ہیں بنسبت اس کے وہی پیسے کسی امیر کے بینک اکاؤنٹ میں پڑے رہے یا وہ اپنی فصول خرچیوں پر ضائع کرے۔

اس لیے اگر ہم نے اپنے معاشرے کو بھتر بنانا ہیں تو ہمیں ہر اس اقدام کی مخلافت کرنی ہے جو دولت اور وسائل کو صرف ایک چند خاندانوں کے کنٹرول میں دکھتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے ہمارے معاشرے میں جھوٹ اور منافقت کی۔








If it was possible I would have given it 10 likes!
 

Back
Top