Believer12
Chief Minister (5k+ posts)
عدالتوں کے بعض فیصلے اندھیری سرنگ میں روشنی کی ایک کرن ثابت ہونگے عمران کو کوسنے دینے والے تھک کر خاموش ہوتے جارہے ہیں لفافینز بھی دھیمے ہوچکے ہیں اور حکمرانوں کے بیٹے اور بیٹیاں بھی نظروں سے اوجھل ہیں انکے ٹویٹرز پر قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہوئی ہے ،
کوی چبھتا ہوا ہتک آمیز ٹویٹ مریم نواز کی طرف سے انصافینز کیلئے یا کوی دھمکی آمیز بیان حمزہ شہباز کے منہ سے ایک عرصے ہوا سننے کو نہیں ملا.....قدرے زنانہ انداز میں بولنے والا بلاول بھی جانے کس کونے کھدرے میں جا چھپا ہے اور واپڈا کا بھگوڑا میٹر ریڈر جو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے نواز شریف کے سامنے ڈھال بن کراپنی جان دینے کا دعوی کر چکا ہے
کافی دنوں سے گم صم ہے سنا ہے آغا وقار تھوک والی کار کے موجد کی طرح اب یہ نواز کو بھی چھوڑ گیا ہے سنا ہے کہ ماضی میں اسی طرح انہوں نے بھٹو کو بھی موت کی کوٹھڑی میں تنہا چھوڑ دیا تھا ایک اندھیری رات جب کچھ لوگ بھٹو کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جانے لگے تو یہ تمام لوگ مزے کی گہری نیند میں خراٹے بھر رہے تھے
ان سب سے ہٹ کر ایک بندہ ہے کہ تھکتا ہی نہیں تین مہینے سے دھرنا دیئے بیٹھا ہے دو خطابات روزانہ اور ان گنت میٹینگز جلسے جلوس اور احتجاج کی جان توڑ مصروفیات کے باوجود چٹان کی طرح قائم و دائم ورکرز کی قربانیوں پر افسردہ مگر ارادے میں پہلے سے بڑھ کر پختہ میڈیا تھک کر اسے چھوڑ گیا اور پھر واپس آگیا لیکن عمران خان کو کیا پرواہ
لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے
کچھ عجیب سا ماحول ہے جیسے آندھی سے پہلے ایک چیختی ہوئی خاموشی مجرموں کی آزادی ختم ہوتی جارہی ہے مولانا فضل الرحمن کا آزادی سے گھومنا پھرنا ،یورپ یاترا وغیرہ سب بند ہوچکا ہے کیونکہ ہر جگہ اسکی کرپشن آئینہ بن کر اسکے سامنے کھڑی ہوتی ہے
لندن میں ڈیزل گو کے نعرے ہوں یا امریکہ میں گو نواز گوکے بینرز زرداری لیگ کے نوخیز چئیرمین کا دھڑن تختہ صرف ایک سال میں ہو یا حمزہ شہباز کا قادری کے چودہ بندوں کے قتل میں نام آنے کے بعد منظر عام سے غائب ہوجانا لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے
اس سے پہلے کرپشن کے اس بحر تلاطم خیز میں ایک دو کمزور سی آوازیں حکمرانوں کے خلاف سنائی دیتی تھیں جنھیں کوی سنتا بھی نہیں تھا لیکن آج سب سے زیادہ کسی کو سنا جاتا ہے تو وہ ڈاکٹر شاہد مسعود ،روف کلاسرا ،اور مبشر لقمان ہیں جن کے ہاتھوں کرپشن کے خلاف ہر روز نئے سے نئے اسکینڈلز کھلتے جاتے ہیں
ان سب وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا رخ صحیح جانب ہے یہی ایک حوصلہ افزا بات ہے
کوی چبھتا ہوا ہتک آمیز ٹویٹ مریم نواز کی طرف سے انصافینز کیلئے یا کوی دھمکی آمیز بیان حمزہ شہباز کے منہ سے ایک عرصے ہوا سننے کو نہیں ملا.....قدرے زنانہ انداز میں بولنے والا بلاول بھی جانے کس کونے کھدرے میں جا چھپا ہے اور واپڈا کا بھگوڑا میٹر ریڈر جو اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے نواز شریف کے سامنے ڈھال بن کراپنی جان دینے کا دعوی کر چکا ہے
کافی دنوں سے گم صم ہے سنا ہے آغا وقار تھوک والی کار کے موجد کی طرح اب یہ نواز کو بھی چھوڑ گیا ہے سنا ہے کہ ماضی میں اسی طرح انہوں نے بھٹو کو بھی موت کی کوٹھڑی میں تنہا چھوڑ دیا تھا ایک اندھیری رات جب کچھ لوگ بھٹو کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جانے لگے تو یہ تمام لوگ مزے کی گہری نیند میں خراٹے بھر رہے تھے
ان سب سے ہٹ کر ایک بندہ ہے کہ تھکتا ہی نہیں تین مہینے سے دھرنا دیئے بیٹھا ہے دو خطابات روزانہ اور ان گنت میٹینگز جلسے جلوس اور احتجاج کی جان توڑ مصروفیات کے باوجود چٹان کی طرح قائم و دائم ورکرز کی قربانیوں پر افسردہ مگر ارادے میں پہلے سے بڑھ کر پختہ میڈیا تھک کر اسے چھوڑ گیا اور پھر واپس آگیا لیکن عمران خان کو کیا پرواہ
لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے
کچھ عجیب سا ماحول ہے جیسے آندھی سے پہلے ایک چیختی ہوئی خاموشی مجرموں کی آزادی ختم ہوتی جارہی ہے مولانا فضل الرحمن کا آزادی سے گھومنا پھرنا ،یورپ یاترا وغیرہ سب بند ہوچکا ہے کیونکہ ہر جگہ اسکی کرپشن آئینہ بن کر اسکے سامنے کھڑی ہوتی ہے
لندن میں ڈیزل گو کے نعرے ہوں یا امریکہ میں گو نواز گوکے بینرز زرداری لیگ کے نوخیز چئیرمین کا دھڑن تختہ صرف ایک سال میں ہو یا حمزہ شہباز کا قادری کے چودہ بندوں کے قتل میں نام آنے کے بعد منظر عام سے غائب ہوجانا لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے
اس سے پہلے کرپشن کے اس بحر تلاطم خیز میں ایک دو کمزور سی آوازیں حکمرانوں کے خلاف سنائی دیتی تھیں جنھیں کوی سنتا بھی نہیں تھا لیکن آج سب سے زیادہ کسی کو سنا جاتا ہے تو وہ ڈاکٹر شاہد مسعود ،روف کلاسرا ،اور مبشر لقمان ہیں جن کے ہاتھوں کرپشن کے خلاف ہر روز نئے سے نئے اسکینڈلز کھلتے جاتے ہیں
ان سب وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا رخ صحیح جانب ہے یہی ایک حوصلہ افزا بات ہے
Last edited: