فرشتہ کے اندوہناک سانحہ سے محض دو روز قبل راوپنڈی شہر میں ایک بنت حوا کو ناکے پہ معمور پولیس کی وردیوں میں ملبوس چار بھیڑیوں نے اغوا کیا اور جنسی ہوس مٹائی- اسم بامسمٰی فرشتہ اغوا ہوئی تو والدین واقارب نے اپنی تئیں ڈھونڈا، ناکام ہوۓ تو بالاخر ریاستی در یعنی تھانہ کھٹکھٹایا- اور یہیں سے مسئلہ شروع ہوا- وطن عزیز میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص یہ پولیس سٹیشن دراصل عقوبت خانے اور ٹارچر سیل ہیں- سیاسیے ہوں یا آمر، جس کا جتنا بس چلا اتنا ہی پولیس کو سرطان زدہ کیا اور اب نوبت یہ آن پہنچی کہ عوامی ٹیکس پر پلنےوالا یہ سب سے بڑا مافیا بن چکا، جن کی دست وبرد سے کوئی شہری محفوظ نہیں
عالم سنگدلی دیکھیے کہ ایک نوخیز کلی اغوا ہوئی، خاندان کرب سے گزر رہا اور پولیس مدد کرنا تو درکنار، زخموں پر نمک چھڑک رہی تھی- بنیادی رپورٹ یعنی ایف آئی آر درج کرنے کی بجاۓ یہ طعنہ دیا گیا کہ شاید اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ چلی گئی ہوگی- قہر خدا کا برسے ایسے ناسوروں پر کہ ایک دس سالہ بچی قیامت صغرٰی سے گزر رہی تھی اور یہ شیطان اس پر تہمت لگا رہے تھے- اطلاعات ہیں کہ رپورٹ کے لیے بھی پیسوں کا مطالبہ کیا گیا
دونوں واقعات پولیس کے تباہ حال نظام کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ " گورننس" کی ناکامی ہے- ملکی باشعور طبقہ نے تبدیلی کے نعرہ زنوں کو ووٹ دیا کہ وہ اس مکروہ نظام کا خاتمہ کرے- مگر حیف، صد حیف! کیا معلوم تھا کہ حکمران بن جانے سے انسان بےحس ہو جاتاہے- اپنے ضمیر، دماغ اور دل کو قفل لگا دیتا ہے
قوم سن لے اب اگر شنوائی چاہیے تو اپنے عزیز و اقرباء کو لے کر بیچ بازار آؤ، چہروں اور سینوں پر ہتھڑ لگاؤ- شاید ممکن ہے کہ حکومت و ریاست کو کچھ شرم کا احساس ہو وگرنہ ان کانوں میں روئی ٹھونس چکی- یہ عوامی مسائل سے غیر متعلق ہو چکے- ان کی بھلا سے کسی کی عزت پامال ہو یا کوئی جان سے جاۓ- اور ان کی شقی القلبی بلاوجہ نہیں کیونکہ ان کے بچے تو محفوظ ہیں- اول تو ان کے شہزادے وشہزادیاں اس راندہ درگاہ دھرتی پرنہیں، اور اگر یہاں ہیں بھی تو بڑی بڑی فصیلوں والے محلات میں جہاں دکھ درد نہ رنج الم
فرشتہ کا واقعہ پہلا ہے نہ آخری، دسیوں واقعات ہو رہے ہیں- اور پولیس کا رویہ ہر سانحہ میں کم وبیش ایسا ہی ہے- پولیس اصلاحات کا کہہ کر ووٹ لیا گیا تھا مگر وہ سب سراب ثابت ہوا- کیا یہ نظام بھی ٹھیک کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی امداد درکار ہے یا پھر سر پر امریکی تحکم کی چھڑی- آخر اتنی بے بسی کیوں؟
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
پس نوشت: فرشتہ کے سانحہ پر لسانی گروہ اپنا غلیظ منجن بیچنے سے باز رہے- فرشتہ کا باپ چاہے افغانی ہو یا پاکستانی- بچی اسی دھرتی پہ ظلم وزیادتی کا شکار ہوئی اور یہ قوم اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے انصاف دلاۓ-
عالم سنگدلی دیکھیے کہ ایک نوخیز کلی اغوا ہوئی، خاندان کرب سے گزر رہا اور پولیس مدد کرنا تو درکنار، زخموں پر نمک چھڑک رہی تھی- بنیادی رپورٹ یعنی ایف آئی آر درج کرنے کی بجاۓ یہ طعنہ دیا گیا کہ شاید اپنے کسی چاہنے والے کے ساتھ چلی گئی ہوگی- قہر خدا کا برسے ایسے ناسوروں پر کہ ایک دس سالہ بچی قیامت صغرٰی سے گزر رہی تھی اور یہ شیطان اس پر تہمت لگا رہے تھے- اطلاعات ہیں کہ رپورٹ کے لیے بھی پیسوں کا مطالبہ کیا گیا
دونوں واقعات پولیس کے تباہ حال نظام کی عکاسی کرتے ہیں جو کہ " گورننس" کی ناکامی ہے- ملکی باشعور طبقہ نے تبدیلی کے نعرہ زنوں کو ووٹ دیا کہ وہ اس مکروہ نظام کا خاتمہ کرے- مگر حیف، صد حیف! کیا معلوم تھا کہ حکمران بن جانے سے انسان بےحس ہو جاتاہے- اپنے ضمیر، دماغ اور دل کو قفل لگا دیتا ہے
قوم سن لے اب اگر شنوائی چاہیے تو اپنے عزیز و اقرباء کو لے کر بیچ بازار آؤ، چہروں اور سینوں پر ہتھڑ لگاؤ- شاید ممکن ہے کہ حکومت و ریاست کو کچھ شرم کا احساس ہو وگرنہ ان کانوں میں روئی ٹھونس چکی- یہ عوامی مسائل سے غیر متعلق ہو چکے- ان کی بھلا سے کسی کی عزت پامال ہو یا کوئی جان سے جاۓ- اور ان کی شقی القلبی بلاوجہ نہیں کیونکہ ان کے بچے تو محفوظ ہیں- اول تو ان کے شہزادے وشہزادیاں اس راندہ درگاہ دھرتی پرنہیں، اور اگر یہاں ہیں بھی تو بڑی بڑی فصیلوں والے محلات میں جہاں دکھ درد نہ رنج الم
فرشتہ کا واقعہ پہلا ہے نہ آخری، دسیوں واقعات ہو رہے ہیں- اور پولیس کا رویہ ہر سانحہ میں کم وبیش ایسا ہی ہے- پولیس اصلاحات کا کہہ کر ووٹ لیا گیا تھا مگر وہ سب سراب ثابت ہوا- کیا یہ نظام بھی ٹھیک کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی امداد درکار ہے یا پھر سر پر امریکی تحکم کی چھڑی- آخر اتنی بے بسی کیوں؟
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
پس نوشت: فرشتہ کے سانحہ پر لسانی گروہ اپنا غلیظ منجن بیچنے سے باز رہے- فرشتہ کا باپ چاہے افغانی ہو یا پاکستانی- بچی اسی دھرتی پہ ظلم وزیادتی کا شکار ہوئی اور یہ قوم اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے انصاف دلاۓ-