کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں
جب میں تین دہائیوں پہلے اسلام آباد میں پیدا ہوا تھا، تو دار الحکومت ایسا بالکل بھی نہیں تھا، جیسا کہ آج ہے۔
نہ کافی شاپس تھیں، نہ ہی اشرافیہ اور سفارتکاروں کے لیے مخصوص علاقے تھے، اور نہ ہی ڈھیروں سیکٹر دار الحکومت کو تقسیم کرتے نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سالوں پہلے تک ہی صرف کچھ ہی سڑکیں ڈبل ہوا کرتی تھیں، اور فاطمہ جناح پارک کی تعمیر سے بہت پہلے، آج جو سیکٹر زندگی کی گہما گہمی سے بھرپور ہیں، وہ زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں جہاں نسلوں سے قیام پذیر دیہاتی لوگ رہا کرتے تھے۔
لیکن اس وقت بھی اسلام آباد میں کچھ ایسا تھا، جس کی وجہ سے اس کا ایک زبردست اور غیر معمولی شہر بننا لازمی تھا۔
پھر اسلام آباد نے پھیلنا شروع کیا۔
یہ بات اب زیادہ حیران کن نہیں لگتی کہ گذشتہ چند سالوں میں ترقی اور فنڈز نے کس طرح شہر کی بڑھنے میں مدد کی ہے، اور سرکاری اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اب یہاں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔
لیکن مسئلہ تب شروع ہوا جب زندگی کے اخراجات بڑھنے لگے، اور نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ شہر کے مضافاتی علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوئے، جبکہ اونچے طبقے کے لوگ ملک بھر سے یہاں جمع ہونا شروع ہوئے۔
صرف کل تک اسلام آباد میں ترقی کے خواہشمند کسی بھی شہر کے لیے ضروری چیز موجود نہیں تھی: ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم۔
لاکھوں لوگ جنہیں روز اپنے کاروبار اور دفاتر کے سلسلے میں راولپنڈی سے اسلام آباد آنا پڑتا ہے، انہیں پہلے اس شہر تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا، اور کبھی کبھی تو تین گھنٹے تک لگ جاتے تھے۔ سرکاری اہلکاروں میں زیادہ تعداد لوئر اسٹاف کی تھی۔
اسے تبدیل کرنے کے لیے کل راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس ترقی کی ایک سالہ طویل قیمت، یعنی مٹی، زیرِ تعمیر سڑکیں، دشوار متبادل راستے، اور طویل انتظار کی مشکلات کا خاتمہ ہوا۔
بھلے ہی تاخیر کے ساتھ، لیکن متنازع میٹرو بس اب مکمل ہوچکی تھی۔ شکر اور شک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کل میں میٹرو بس آزمانے کے لیے گیا۔
پہلے دن بس سروس معمول کے مطابق شروع نہیں ہوئی تھی، لہٰذا صرف کچھ ہی بسیں روٹ پر موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود سیاستدانوں کے چلے جانے کے بعد میٹرو بس کے پلیٹ فارمز پرجوش عوام سے بھرے ہوئے نظر آئے۔
دس بجے کے قریب میں نے میٹرو بس سروس کی 'کچہری شاپ' پر اپنی گاڑی پارک کی، اور اسٹیشن کے داخلی دروازے کی طرف بڑھا۔
جب میں سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچا، تو ایک روشن راہداری، جس کا فرش پالش شدہ، اور گملوں سے سجا ہوا تھا، دیکھ کر میرا دل خوش ہوگیا۔ لیکن پھر میں نے یہ سوچا کہ یہ تو صرف پہلا دن ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر نیویارک سب وے کا ٹرمینل یاد آگیا، لیکن یہ ویسا کھچا کھچ بھرا ہوا نہیں تھا، اور نہ ہی اس میں وہ بو تھی جس کا عادی نیویارک کا ہر شہری ہے۔ اس کے بجائے یہ ایئر کنڈیشنڈ، کشادہ، اور خوبصورت تھا۔
کچہری اسٹیشن میں نیچے جاتی سیڑھیاں
کچہری اسٹیشن کا پلیٹ فارم۔
لوگ ٹکٹ اور میٹرو کارڈ خرید رہے ہیں۔
میٹرو ٹرمینل کے اہلکار شاہد ستی مقامی افراد کی 130 روپے میں زندگی بھر کے لیے میٹرو کارڈ خریدنے کے بارے میں رہنمائی کر رہے تھے، جسے بعد میں مشین کے ذریعے ریچارج کیا جا سکتا ہے۔
راولپنڈی کے صدر سے اسلام آباد میں ایوانِ صدر کے سامنے پریڈ گراؤنڈ تک 20 منٹ کا سفر 20 روپے فی کس میں کیا جا سکے گا۔ شاہد ستی نے مجھے بتایا کہ ان ٹریکس پر 64 بسیں چلا کریں گی، اور انہیں امید ہے کہ یہ پراجیکٹ کامیاب ہو گا۔
بھلے ہی سواری مفت تھی (اور ممکنہ طور پر مزید چند دنوں کے لیے مفت رہے گی)، لیکن میں نے اپنا کارڈ خریدا، اس میں کچھ پیسے چارج کیے، اور پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ یہ ایک ایئر کنڈیشنڈ ہال تھا جس کے درمیان میں پانی کے کولر اور کرسیاں لگی تھیں۔ پلیٹ فارم میں شیشے کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے، اور یہ سڑک کے بیچوں بیچ ہے، چنانچہ آپ دونوں اطراف ٹریفک دیکھ سکتے ہیں۔
ایک شخص میٹرو بس کا روٹ دیکھ رہا ہے۔
بس کے آنے میں ایک منٹ رہ گیا ہے۔
راولپنڈی کے رہائشی عاطف، جو اسلام آباد کے جناح سپر میں کام کرتے ہیں، اپنے چند دوستوں کے ساتھ بس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا منصوبہ ہے جس سے غریب لوگ کم پیسوں میں سفر کر سکیں گے۔ ان کے مطابق پہلے انہیں سفر پر روزانہ 100 روپے خرچ کرنے پڑتے تھے، لیکن اب یہ خرچ صرف 40 روپے روز ہوجائے گا۔
لیکن انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی جب بس آئی، تو ان کا دوست فوراً اس میں سوار ہوگیا، جبکہ ان کے سوار ہونے سے پہلے ہی بس کے دروازے بند ہوچکے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو یہ سیکھنے میں کچھ وقت لگے گا کہ بس رکنے پر پہلے لوگوں کو باہر آنے دینا چاہیے۔ اسی طرح میٹرو بس کے ڈرائیوروں کو بھی یہ سیکھنے میں وقت لگے گا کہ لوگوں کے باہر آتے ہی دروازے نہ بند کر دیے جائیں، جیسا کہ میرے ساتھ ایک بار ہوا۔
میں نے کچہری اسٹیشن سے کشمیر ہائی وے اسٹیشن، اور واپسی کا سفر کیا، کیونکہ بس ڈرائیور نے بس روک کر سب سے اترنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بس سروس پہلے دن مکمل طور پر فعال نہیں تھی، اور یہ صرف آزمائشی سفر تھا۔
آزمائش خامیوں سے پاک نہیں تھی۔ کبھی کبھی لوگوں کے اندر آنے کی خواہش کے باوجود پلیٹ فارم پر بس کا دروازہ بند رہتا۔ کبھی کبھی چلتی بس میں دروازہ کھول دیا جاتا۔ کبھی اگلا اسٹاپ آنے تک دروازہ کھلا ہی رہتا۔
بسیں ویسی پبلک بسیں نہیں ہیں جنہیں دیکھنے کے ہم عادی ہیں۔ اس کے بجائے یہ بیرونِ ملک کی بسوں جیسی لگتی ہیں جن میں مفت وائی فائی، روٹ کا میپ، خواتین کے لیے کشادہ جگہ، اور مسافروں کے لیے آرامدہ سیٹیں موجود ہیں۔ ان سب چیزوں نے مل کر میرا پہلا سفر یادگار بنایا۔
لیکن جیسا کہ ایک مسافر محمد عمران خان کا کہنا تھا کہ، "یہ سروس اچھی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔"
اگلا حصہ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔
لوگ صدر سے کچہری جا رہے ہیں۔
صدر پہنچنے میں کافی دیر ہے۔
لیکن دروازہ تو کھلا ہوا ہے ڈرائیور صاحب۔
دار الحکومت نے اپنے ابتدائی دنوں سے اب تک ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے پاس قائم یہ شہر نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ہے۔ جس طرح نیو یارک کے شہری اپنے شہر کی عظمت پر فخر کر سکتے ہیں، اسی طرح اسلام آباد کے لوگ بھی اپنے شہر پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔
جس طرح یہاں کے رہنے والوں نے یہاں کے ایک منفرد کلچر کو جنم دیا ہے، اسی طرح ہر آنے والی حکومت نے اسلام آباد کو ایسا بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام آباد کا نام سنتے ہی ذہن میں صرف ایک لفظ آئے: خوبصورت۔
یہ اسلام آباد کا ایک اور طرہ امتیاز ہے۔
Source
جب میں تین دہائیوں پہلے اسلام آباد میں پیدا ہوا تھا، تو دار الحکومت ایسا بالکل بھی نہیں تھا، جیسا کہ آج ہے۔
نہ کافی شاپس تھیں، نہ ہی اشرافیہ اور سفارتکاروں کے لیے مخصوص علاقے تھے، اور نہ ہی ڈھیروں سیکٹر دار الحکومت کو تقسیم کرتے نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سالوں پہلے تک ہی صرف کچھ ہی سڑکیں ڈبل ہوا کرتی تھیں، اور فاطمہ جناح پارک کی تعمیر سے بہت پہلے، آج جو سیکٹر زندگی کی گہما گہمی سے بھرپور ہیں، وہ زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں جہاں نسلوں سے قیام پذیر دیہاتی لوگ رہا کرتے تھے۔
لیکن اس وقت بھی اسلام آباد میں کچھ ایسا تھا، جس کی وجہ سے اس کا ایک زبردست اور غیر معمولی شہر بننا لازمی تھا۔
پھر اسلام آباد نے پھیلنا شروع کیا۔
یہ بات اب زیادہ حیران کن نہیں لگتی کہ گذشتہ چند سالوں میں ترقی اور فنڈز نے کس طرح شہر کی بڑھنے میں مدد کی ہے، اور سرکاری اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اب یہاں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔
لیکن مسئلہ تب شروع ہوا جب زندگی کے اخراجات بڑھنے لگے، اور نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ شہر کے مضافاتی علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوئے، جبکہ اونچے طبقے کے لوگ ملک بھر سے یہاں جمع ہونا شروع ہوئے۔
صرف کل تک اسلام آباد میں ترقی کے خواہشمند کسی بھی شہر کے لیے ضروری چیز موجود نہیں تھی: ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم۔
لاکھوں لوگ جنہیں روز اپنے کاروبار اور دفاتر کے سلسلے میں راولپنڈی سے اسلام آباد آنا پڑتا ہے، انہیں پہلے اس شہر تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا، اور کبھی کبھی تو تین گھنٹے تک لگ جاتے تھے۔ سرکاری اہلکاروں میں زیادہ تعداد لوئر اسٹاف کی تھی۔
اسے تبدیل کرنے کے لیے کل راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس ترقی کی ایک سالہ طویل قیمت، یعنی مٹی، زیرِ تعمیر سڑکیں، دشوار متبادل راستے، اور طویل انتظار کی مشکلات کا خاتمہ ہوا۔
بھلے ہی تاخیر کے ساتھ، لیکن متنازع میٹرو بس اب مکمل ہوچکی تھی۔ شکر اور شک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کل میں میٹرو بس آزمانے کے لیے گیا۔
پہلے دن بس سروس معمول کے مطابق شروع نہیں ہوئی تھی، لہٰذا صرف کچھ ہی بسیں روٹ پر موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود سیاستدانوں کے چلے جانے کے بعد میٹرو بس کے پلیٹ فارمز پرجوش عوام سے بھرے ہوئے نظر آئے۔
دس بجے کے قریب میں نے میٹرو بس سروس کی 'کچہری شاپ' پر اپنی گاڑی پارک کی، اور اسٹیشن کے داخلی دروازے کی طرف بڑھا۔
جب میں سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچا، تو ایک روشن راہداری، جس کا فرش پالش شدہ، اور گملوں سے سجا ہوا تھا، دیکھ کر میرا دل خوش ہوگیا۔ لیکن پھر میں نے یہ سوچا کہ یہ تو صرف پہلا دن ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر نیویارک سب وے کا ٹرمینل یاد آگیا، لیکن یہ ویسا کھچا کھچ بھرا ہوا نہیں تھا، اور نہ ہی اس میں وہ بو تھی جس کا عادی نیویارک کا ہر شہری ہے۔ اس کے بجائے یہ ایئر کنڈیشنڈ، کشادہ، اور خوبصورت تھا۔
کچہری اسٹیشن میں نیچے جاتی سیڑھیاں
کچہری اسٹیشن کا پلیٹ فارم۔
لوگ ٹکٹ اور میٹرو کارڈ خرید رہے ہیں۔
میٹرو ٹرمینل کے اہلکار شاہد ستی مقامی افراد کی 130 روپے میں زندگی بھر کے لیے میٹرو کارڈ خریدنے کے بارے میں رہنمائی کر رہے تھے، جسے بعد میں مشین کے ذریعے ریچارج کیا جا سکتا ہے۔
راولپنڈی کے صدر سے اسلام آباد میں ایوانِ صدر کے سامنے پریڈ گراؤنڈ تک 20 منٹ کا سفر 20 روپے فی کس میں کیا جا سکے گا۔ شاہد ستی نے مجھے بتایا کہ ان ٹریکس پر 64 بسیں چلا کریں گی، اور انہیں امید ہے کہ یہ پراجیکٹ کامیاب ہو گا۔
بھلے ہی سواری مفت تھی (اور ممکنہ طور پر مزید چند دنوں کے لیے مفت رہے گی)، لیکن میں نے اپنا کارڈ خریدا، اس میں کچھ پیسے چارج کیے، اور پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ یہ ایک ایئر کنڈیشنڈ ہال تھا جس کے درمیان میں پانی کے کولر اور کرسیاں لگی تھیں۔ پلیٹ فارم میں شیشے کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے، اور یہ سڑک کے بیچوں بیچ ہے، چنانچہ آپ دونوں اطراف ٹریفک دیکھ سکتے ہیں۔
ایک شخص میٹرو بس کا روٹ دیکھ رہا ہے۔
بس کے آنے میں ایک منٹ رہ گیا ہے۔
راولپنڈی کے رہائشی عاطف، جو اسلام آباد کے جناح سپر میں کام کرتے ہیں، اپنے چند دوستوں کے ساتھ بس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا منصوبہ ہے جس سے غریب لوگ کم پیسوں میں سفر کر سکیں گے۔ ان کے مطابق پہلے انہیں سفر پر روزانہ 100 روپے خرچ کرنے پڑتے تھے، لیکن اب یہ خرچ صرف 40 روپے روز ہوجائے گا۔
لیکن انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی جب بس آئی، تو ان کا دوست فوراً اس میں سوار ہوگیا، جبکہ ان کے سوار ہونے سے پہلے ہی بس کے دروازے بند ہوچکے تھے۔
مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو یہ سیکھنے میں کچھ وقت لگے گا کہ بس رکنے پر پہلے لوگوں کو باہر آنے دینا چاہیے۔ اسی طرح میٹرو بس کے ڈرائیوروں کو بھی یہ سیکھنے میں وقت لگے گا کہ لوگوں کے باہر آتے ہی دروازے نہ بند کر دیے جائیں، جیسا کہ میرے ساتھ ایک بار ہوا۔
میں نے کچہری اسٹیشن سے کشمیر ہائی وے اسٹیشن، اور واپسی کا سفر کیا، کیونکہ بس ڈرائیور نے بس روک کر سب سے اترنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بس سروس پہلے دن مکمل طور پر فعال نہیں تھی، اور یہ صرف آزمائشی سفر تھا۔
آزمائش خامیوں سے پاک نہیں تھی۔ کبھی کبھی لوگوں کے اندر آنے کی خواہش کے باوجود پلیٹ فارم پر بس کا دروازہ بند رہتا۔ کبھی کبھی چلتی بس میں دروازہ کھول دیا جاتا۔ کبھی اگلا اسٹاپ آنے تک دروازہ کھلا ہی رہتا۔
بسیں ویسی پبلک بسیں نہیں ہیں جنہیں دیکھنے کے ہم عادی ہیں۔ اس کے بجائے یہ بیرونِ ملک کی بسوں جیسی لگتی ہیں جن میں مفت وائی فائی، روٹ کا میپ، خواتین کے لیے کشادہ جگہ، اور مسافروں کے لیے آرامدہ سیٹیں موجود ہیں۔ ان سب چیزوں نے مل کر میرا پہلا سفر یادگار بنایا۔
لیکن جیسا کہ ایک مسافر محمد عمران خان کا کہنا تھا کہ، "یہ سروس اچھی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔"
اگلا حصہ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔
لوگ صدر سے کچہری جا رہے ہیں۔
صدر پہنچنے میں کافی دیر ہے۔
لیکن دروازہ تو کھلا ہوا ہے ڈرائیور صاحب۔
دار الحکومت نے اپنے ابتدائی دنوں سے اب تک ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے پاس قائم یہ شہر نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ہے۔ جس طرح نیو یارک کے شہری اپنے شہر کی عظمت پر فخر کر سکتے ہیں، اسی طرح اسلام آباد کے لوگ بھی اپنے شہر پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔
جس طرح یہاں کے رہنے والوں نے یہاں کے ایک منفرد کلچر کو جنم دیا ہے، اسی طرح ہر آنے والی حکومت نے اسلام آباد کو ایسا بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام آباد کا نام سنتے ہی ذہن میں صرف ایک لفظ آئے: خوبصورت۔
یہ اسلام آباد کا ایک اور طرہ امتیاز ہے۔
Source