کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں

pkfighter

Councller (250+ posts)
کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں

5571ba6381399.jpg


جب میں تین دہائیوں پہلے اسلام آباد میں پیدا ہوا تھا، تو دار الحکومت ایسا بالکل بھی نہیں تھا، جیسا کہ آج ہے۔

نہ کافی شاپس تھیں، نہ ہی اشرافیہ اور سفارتکاروں کے لیے مخصوص علاقے تھے، اور نہ ہی ڈھیروں سیکٹر دار الحکومت کو تقسیم کرتے نظر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ سالوں پہلے تک ہی صرف کچھ ہی سڑکیں ڈبل ہوا کرتی تھیں، اور فاطمہ جناح پارک کی تعمیر سے بہت پہلے، آج جو سیکٹر زندگی کی گہما گہمی سے بھرپور ہیں، وہ زرعی زمینیں ہوا کرتی تھیں جہاں نسلوں سے قیام پذیر دیہاتی لوگ رہا کرتے تھے۔

لیکن اس وقت بھی اسلام آباد میں کچھ ایسا تھا، جس کی وجہ سے اس کا ایک زبردست اور غیر معمولی شہر بننا لازمی تھا۔
پھر اسلام آباد نے پھیلنا شروع کیا۔

یہ بات اب زیادہ حیران کن نہیں لگتی کہ گذشتہ چند سالوں میں ترقی اور فنڈز نے کس طرح شہر کی بڑھنے میں مدد کی ہے، اور سرکاری اہلکاروں اور ان کے خاندانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اب یہاں رہائش اختیار کر رہے ہیں۔

لیکن مسئلہ تب شروع ہوا جب زندگی کے اخراجات بڑھنے لگے، اور نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ شہر کے مضافاتی علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہوئے، جبکہ اونچے طبقے کے لوگ ملک بھر سے یہاں جمع ہونا شروع ہوئے۔

صرف کل تک اسلام آباد میں ترقی کے خواہشمند کسی بھی شہر کے لیے ضروری چیز موجود نہیں تھی: ایک ماس ٹرانزٹ سسٹم۔
لاکھوں لوگ جنہیں روز اپنے کاروبار اور دفاتر کے سلسلے میں راولپنڈی سے اسلام آباد آنا پڑتا ہے، انہیں پہلے اس شہر تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا، اور کبھی کبھی تو تین گھنٹے تک لگ جاتے تھے۔ سرکاری اہلکاروں میں زیادہ تعداد لوئر اسٹاف کی تھی۔

اسے تبدیل کرنے کے لیے کل راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پراجیکٹ کا افتتاح کیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس ترقی کی ایک سالہ طویل قیمت، یعنی مٹی، زیرِ تعمیر سڑکیں، دشوار متبادل راستے، اور طویل انتظار کی مشکلات کا خاتمہ ہوا۔
بھلے ہی تاخیر کے ساتھ، لیکن متنازع میٹرو بس اب مکمل ہوچکی تھی۔ شکر اور شک کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کل میں میٹرو بس آزمانے کے لیے گیا۔

55717dd05a3dc.jpg


55717dd053e9c.jpg


55717dd347835.jpg


55717dd0bcdfd.jpg


پہلے دن بس سروس معمول کے مطابق شروع نہیں ہوئی تھی، لہٰذا صرف کچھ ہی بسیں روٹ پر موجود تھیں، لیکن اس کے باوجود سیاستدانوں کے چلے جانے کے بعد میٹرو بس کے پلیٹ فارمز پرجوش عوام سے بھرے ہوئے نظر آئے۔
دس بجے کے قریب میں نے میٹرو بس سروس کی 'کچہری شاپ' پر اپنی گاڑی پارک کی، اور اسٹیشن کے داخلی دروازے کی طرف بڑھا۔

جب میں سیڑھیاں اتر کر نیچے پہنچا، تو ایک روشن راہداری، جس کا فرش پالش شدہ، اور گملوں سے سجا ہوا تھا، دیکھ کر میرا دل خوش ہوگیا۔ لیکن پھر میں نے یہ سوچا کہ یہ تو صرف پہلا دن ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر نیویارک سب وے کا ٹرمینل یاد آگیا، لیکن یہ ویسا کھچا کھچ بھرا ہوا نہیں تھا، اور نہ ہی اس میں وہ بو تھی جس کا عادی نیویارک کا ہر شہری ہے۔ اس کے بجائے یہ ایئر کنڈیشنڈ، کشادہ، اور خوبصورت تھا۔

55717dd0392ea.jpg


کچہری اسٹیشن میں نیچے جاتی سیڑھیاں

55717eb137737.jpg


کچہری اسٹیشن کا پلیٹ فارم۔

55717dd3a7296.jpg


لوگ ٹکٹ اور میٹرو کارڈ خرید رہے ہیں۔

میٹرو ٹرمینل کے اہلکار شاہد ستی مقامی افراد کی 130 روپے میں زندگی بھر کے لیے میٹرو کارڈ خریدنے کے بارے میں رہنمائی کر رہے تھے، جسے بعد میں مشین کے ذریعے ریچارج کیا جا سکتا ہے۔

راولپنڈی کے صدر سے اسلام آباد میں ایوانِ صدر کے سامنے پریڈ گراؤنڈ تک 20 منٹ کا سفر 20 روپے فی کس میں کیا جا سکے گا۔ شاہد ستی نے مجھے بتایا کہ ان ٹریکس پر 64 بسیں چلا کریں گی، اور انہیں امید ہے کہ یہ پراجیکٹ کامیاب ہو گا۔
بھلے ہی سواری مفت تھی (اور ممکنہ طور پر مزید چند دنوں کے لیے مفت رہے گی)، لیکن میں نے اپنا کارڈ خریدا، اس میں کچھ پیسے چارج کیے، اور پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ یہ ایک ایئر کنڈیشنڈ ہال تھا جس کے درمیان میں پانی کے کولر اور کرسیاں لگی تھیں۔ پلیٹ فارم میں شیشے کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے، اور یہ سڑک کے بیچوں بیچ ہے، چنانچہ آپ دونوں اطراف ٹریفک دیکھ سکتے ہیں۔

55717eae6d912.jpg


55717eafb03e2.jpg


ایک شخص میٹرو بس کا روٹ دیکھ رہا ہے۔

55717eafb51fb.jpg


55717eafb51fb.jpg


55717eb0c2bbd.jpg


بس کے آنے میں ایک منٹ رہ گیا ہے۔

راولپنڈی کے رہائشی عاطف، جو اسلام آباد کے جناح سپر میں کام کرتے ہیں، اپنے چند دوستوں کے ساتھ بس کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا منصوبہ ہے جس سے غریب لوگ کم پیسوں میں سفر کر سکیں گے۔ ان کے مطابق پہلے انہیں سفر پر روزانہ 100 روپے خرچ کرنے پڑتے تھے، لیکن اب یہ خرچ صرف 40 روپے روز ہوجائے گا۔

لیکن انہیں شرمندگی اٹھانی پڑی جب بس آئی، تو ان کا دوست فوراً اس میں سوار ہوگیا، جبکہ ان کے سوار ہونے سے پہلے ہی بس کے دروازے بند ہوچکے تھے۔

مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو یہ سیکھنے میں کچھ وقت لگے گا کہ بس رکنے پر پہلے لوگوں کو باہر آنے دینا چاہیے۔ اسی طرح میٹرو بس کے ڈرائیوروں کو بھی یہ سیکھنے میں وقت لگے گا کہ لوگوں کے باہر آتے ہی دروازے نہ بند کر دیے جائیں، جیسا کہ میرے ساتھ ایک بار ہوا۔

55717eae337d8.jpg


میں نے کچہری اسٹیشن سے کشمیر ہائی وے اسٹیشن، اور واپسی کا سفر کیا، کیونکہ بس ڈرائیور نے بس روک کر سب سے اترنے کے لیے کہہ دیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بس سروس پہلے دن مکمل طور پر فعال نہیں تھی، اور یہ صرف آزمائشی سفر تھا۔
آزمائش خامیوں سے پاک نہیں تھی۔ کبھی کبھی لوگوں کے اندر آنے کی خواہش کے باوجود پلیٹ فارم پر بس کا دروازہ بند رہتا۔ کبھی کبھی چلتی بس میں دروازہ کھول دیا جاتا۔ کبھی اگلا اسٹاپ آنے تک دروازہ کھلا ہی رہتا۔

بسیں ویسی پبلک بسیں نہیں ہیں جنہیں دیکھنے کے ہم عادی ہیں۔ اس کے بجائے یہ بیرونِ ملک کی بسوں جیسی لگتی ہیں جن میں مفت وائی فائی، روٹ کا میپ، خواتین کے لیے کشادہ جگہ، اور مسافروں کے لیے آرامدہ سیٹیں موجود ہیں۔ ان سب چیزوں نے مل کر میرا پہلا سفر یادگار بنایا۔
لیکن جیسا کہ ایک مسافر محمد عمران خان کا کہنا تھا کہ، "یہ سروس اچھی ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔"

5571822a9eaa7.jpg


اگلا حصہ خواتین کے لیے مخصوص ہے۔

5571822902949.jpg


لوگ صدر سے کچہری جا رہے ہیں۔

55718229ae01f.jpg


صدر پہنچنے میں کافی دیر ہے۔

5571822c6122c.jpg


لیکن دروازہ تو کھلا ہوا ہے ڈرائیور صاحب۔

55718228bd2c3.jpg


55718229eac61.jpg


دار الحکومت نے اپنے ابتدائی دنوں سے اب تک ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے پاس قائم یہ شہر نہ صرف پاکستان، بلکہ دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ہے۔ جس طرح نیو یارک کے شہری اپنے شہر کی عظمت پر فخر کر سکتے ہیں، اسی طرح اسلام آباد کے لوگ بھی اپنے شہر پر فخر محسوس کر سکتے ہیں۔

جس طرح یہاں کے رہنے والوں نے یہاں کے ایک منفرد کلچر کو جنم دیا ہے، اسی طرح ہر آنے والی حکومت نے اسلام آباد کو ایسا بنانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام آباد کا نام سنتے ہی ذہن میں صرف ایک لفظ آئے: خوبصورت۔
یہ اسلام آباد کا ایک اور طرہ امتیاز ہے۔
Source


 
Last edited by a moderator:

صحرائی

Chief Minister (5k+ posts)
پورا آرٹیکل پیسٹ کرو بھائی ، صرف یو آر ایل نظر آرہا ہے
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
باپ قرضہ لے لے کر بچوں کو کھلاتا رہا۔لوگ تعریفیں کرتے رہے۔ کیسا اچھا باپ ہے۔کتنا آرام اپنے بچوں کو دے رہا ہے۔ بینک سے قرض لے کر ایئر کنڈیشن گاڑی خریدی۔
اپنی تنخواہ کم ہے لیکن دوستوں رشتہ داروں سے قرض اُدھارلے کر بچوں کو مکڈونلڈ لے جاتا ہے کے ایف سی لے جاتا ہے۔ بچے بھی خوش تھے اور یار دوست بھی تعریف کر رہے ہیں۔

اچانک باپ گزر گیا۔ اب بچوں کو پتا چلا کہ سب کچھ تو قرضے پر چل رہا تھا۔ اب سارے مزے تو ختم ہوہی گئے۔ والد کے دوست اور بینک والے قرض کی واپسی کا تقاضہ بھی کر رہے ہیں۔
گاڑی بک گئی، بُرے دن آگئے۔
اب لوگ کہتے ہیں باپ نے جو کچھ کما کر دیا تھا۔ بچوں نے اپنی نا اہلی کی وجہ سے گنوا دیا۔

حکومت ائی ایم ایف سے قرضے لے کر کام چلا رہی ہے اور جو اپنے وسائل ہیں انہیں میٹرو بس جیسے پروجیکس پر لگا رہی ہے۔جس کی ضرورت اس وقت تک نہیں جب تک پاکستان بیرونی قرضے ختم نہ کرے۔یہاں حالت یہ ہے کہ حکومت کے پاس قرض کی واپسی تو کیا صرف قرض کا سود اُتارنے کے لیے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے۔ لیکن قوم کو میٹرو بس کا مکدونلڈ اور سگنل فری روٹ کا کے ایف سی کھلا رہی ہے۔قرضہ تو عوام نے ہی اُتارنا ہے۔

 

صحرائی

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی بیرونی قرضے ہر ملک لیتا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ بیرونی قرض امریکا پر ہے جو کہ ٹریلین ڈالرز میں ہے -

آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ اور آپشن کیا تھا ؟



آپ کی اکنامی بیٹھ چکی تھی ، زر مبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ، دہشت گردی میں ڈوبا ملک ، باہر کی کوئی انویسٹمنٹ نہ تھی


...................................
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی بیرونی قرضے ہر ملک لیتا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ بیرونی قرض امریکا پر ہے جو کہ ٹریلین ڈالرز میں ہے -

آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ اور آپشن کیا تھا ؟



آپ کی اکنامی بیٹھ چکی تھی ، زر مبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ، دہشت گردی میں ڈوبا ملک ، باہر کی کوئی انویسٹمنٹ نہ تھی

محترم آپ اپنی ترجیحات تو درست کریں۔جب اکانومی بیٹھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہوں(جس کا اعتراف آپ خود کر رہے ہیں) تو پھر حکومتیں میٹرو بسیں نہیں چلاتیں۔حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک دو سال میٹرو منصوبہ روک کر انرجی بحران ختم کرتیں۔ جو بقول شہباز صرف چھے مہینے میں ختم ہونا تھا۔ جب انرجی کرائسز ختم ہو انڈسٹری چلے،برآمدات کے نتیجے میں فارن ایکسچینج آئے تو پھر جو مرضی بنائیں، ایک چھوڑ دو دو میٹرو بنائیں۔
اگر ضرورت ہے تو بے شک آئی ایم ایف سے قرضہ لیں۔ لیکن یہ ضرورت کے لیے ہو عیاشی کے لیے نہ ہو۔
کس کی خواہش نہیں ہوگی کہ وہ 20 روپے میں ایئر کنڈیشن بس میں بیٹھ کر پورے اسلام آباد کا چکر نہ لگائے۔لیکن کس قیمت پر؟ یہ سوچنے والی بات ہے۔
 
Last edited:

صحرائی

Chief Minister (5k+ posts)
ترجیحات میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن میٹرو ایک بہترین پروجیکٹ ہے ، اس سے عوام کو سہولت ملی ، جابز پیدا ہوئی

آپ کو پتہ ہے میٹرو کے روٹ پر پانچ یونیورسٹیز ، کئی ہسپتال - کالجز اور سکولز تو بہت آتے ہے

میٹرو کا روٹ یونیورسٹیز ,
ہسپتال ، کالجز اور سکولوں کو دیکھ کر ترتیب دیا گا ، اگر شک ہو تو میں ساری تفصیل شیئر کر سکتا ہوں

باقی پنجاب کا تعلیمی بجٹ خیبر پختون خواہ سے چار پرسینٹ زیادہ ہے


محترم آپ اپنی ترجیحات تو درست کریں۔جب اکانومی بیٹھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہوں(جس کا اعتراف آپ خود کر رہے ہیں) تو پھر حکومتیں میٹرو بسیں نہیں چلاتیں۔حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک دو سال میٹرو منصوبہ روک کر انرجی بحران ختم کرتیں۔ جو بقول شہباز صرف چھے مہینے میں ختم ہونا تھا۔ جب انرجی کرائسز ختم ہو انڈسٹری چلے،برآمدات کے نتیجے میں فارن ایکسچینج آئے تو پھر جو مرضی بنائیں، ایک چھوڑ دو دو میٹرو بنائیں۔
 
Last edited:

crankthskunk

Chief Minister (5k+ posts)
@PK fighter, only retards would construct such lavish and expensive network to run few buses only 50+ buses with such huge construction costs and maintenance costs. For its maintenance costs; this is a white elephant to bleed the finances for years. These 50 or 100 or 2000 buses could have been run by dedicated bus lanes and strict adherence to traffic rules by fixing some CCTV cameras to punish those who transgress and drive on the bus lane. Low maintenance and easy solution for the transport problems. Instead of paying the Turk company through their noses, and piling up on public debt for future Pakistani generations, Low maintenance and cheaper network could easily set up.

I know, I am wasting my time, my comments are not meant for the retards.
Anyone in doubt, go and check already crumbling metro network in Lahore. The network would decay very quickly if proper maintenance is not carried out, which needs huge investment year in year out.

What a waste of public money, when same result i.e. quick and cheaper movement of passengers could be obtained with far lesser capital and maintenance costs. Long live the stupidity of Gaanjjjjjjjjjjjj brothers who are increasing the debt burden on Pakistan to unacceptable levels; in only two years they have more than doubled the loans taken by Zardari in all of his five years rule.
 
Last edited:

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
ترجیحات میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن میٹرو ایک بہترین پروجیکٹ ہے ، اس سے عوام کو سہولت ملی ، جابز پیدا ہوئی

آپ کو پتہ ہے میٹرو کے روٹ پر پانچ یونیورسٹیز ، کئی ہسپتال - کالجز اور سکولز تو بہت آتے ہے

میٹرو کا روٹ یونیورسٹیز ,
ہسپتال ، کالجز اور سکولوں کو دیکھ کر ترتیب دیا گا ، اگر شک ہو تو میں ساری تفصیل شیئر کر سکتا ہوں

باقی پنجاب کا تعلیمی بجٹ خیبر پختون خواہ سے چار پرسینٹ زیادہ ہے


بھائی ایس سہولت جو قرض لے کر حاصل کی جائے بالکل اچھی نہیں ہوتی۔
آپ پاکستان کے سارے سیکٹر چھوڑ کر صرف ٹرانسپورٹ کو بہتر کر کے پاکستان کو بہتر نہیں بنا سکتے۔جب تک پاکستان مقروض ہے اس وقت تک ہمیں گزارہ پالیسی پر چلنا ہوگا۔کیا ان لوگوں کو میٹرو کے سفر میں سبسڈی قومی خزانے پر بوجھ نہیں۔اگر یہ منصوبہ اس طرح بنایا جاتا کہ اس سے قومی خزانے کو رقم آتی تو پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے۔لیکن اس پر تو پاکستان کا سرمایہ ضائع ہو رہا ہے۔
جہاں تک سہولت کی بات ہے تو آپ اگر اپنے وسائل میں رہتے ہوئے سوزوکی مہران میں سفر کریں تو یہ اچھا ہے یا قرضہ لے لے کر مرسڈیز میں سفر کریں تو وہ اچھا ہے۔ مانا کہ آپ کو مرسڈیز میں زیادہ سہولر اور آرام ہے۔
بے شک کے پی کا تعلیمی بجٹ پنجاب سے کم ہے لیکن استعمال مناسب ہے۔
 

Altaf Lutfi

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی بیرونی قرضے ہر ملک لیتا ہے اور اس وقت سب سے زیادہ بیرونی قرض امریکا پر ہے جو کہ ٹریلین ڈالرز میں ہے -

آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے علاوہ اور آپشن کیا تھا ؟



آپ کی اکنامی بیٹھ چکی تھی ، زر مبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ، دہشت گردی میں ڈوبا ملک ، باہر کی کوئی انویسٹمنٹ نہ تھی

کبھی ھماری اس سلسلے میں بھی تو رھنمایؑی کرو کہ آخر پیسہ گیا کہاں ؟ قرضے تو دبادب لیے جا رھے تھے، ڈونرز کا تانتا الگ بندھا ھوا تھا
 

wadda.chaudhry

Senator (1k+ posts)

محترم آپ اپنی ترجیحات تو درست کریں۔جب اکانومی بیٹھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہوں(جس کا اعتراف آپ خود کر رہے ہیں) تو پھر حکومتیں میٹرو بسیں نہیں چلاتیں۔حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک دو سال میٹرو منصوبہ روک کر انرجی بحران ختم کرتیں۔ جو بقول شہباز صرف چھے مہینے میں ختم ہونا تھا۔ جب انرجی کرائسز ختم ہو انڈسٹری چلے،برآمدات کے نتیجے میں فارن ایکسچینج آئے تو پھر جو مرضی بنائیں، ایک چھوڑ دو دو میٹرو بنائیں۔
اگر ضرورت ہے تو بے شک آئی ایم ایف سے قرضہ لیں۔ لیکن یہ ضرورت کے لیے ہو عیاشی کے لیے نہ ہو۔
کس کی خواہش نہیں ہوگی کہ وہ 20 روپے میں ایئر کنڈیشن بس میں بیٹھ کر پورے اسلام آباد کا چکر نہ لگائے۔لیکن کس قیمت پر؟ یہ سوچنے والی بات ہے۔

Power projects are time bound, you cannot complete DAM in 2 years no matter how much money do you spend on it. So have little patience dear. InshAllah power will be fixed very soon.
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
Power projects are time bound, you cannot complete DAM in 2 years no matter how much money do you spend on it. So have little patience dear. InshAllah power will be fixed very soon.

شکریہ بھائی ! لیکن یہ بات آپ نون لیگ کے ان لوگوں کو بھی سمجھائیں ناں جو کہتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی نے کے پی میں ایک میگا واٹ بجلی پیدا کی ہے؟
 
ترجیحات میں بہتری کی گنجائش ہے لیکن میٹرو ایک بہترین پروجیکٹ ہے ، اس سے عوام کو سہولت ملی ، جابز پیدا ہوئی

آپ کو پتہ ہے میٹرو کے روٹ پر پانچ یونیورسٹیز ، کئی ہسپتال - کالجز اور سکولز تو بہت آتے ہے

میٹرو کا روٹ یونیورسٹیز ,
ہسپتال ، کالجز اور سکولوں کو دیکھ کر ترتیب دیا گا ، اگر شک ہو تو میں ساری تفصیل شیئر کر سکتا ہوں

باقی پنجاب کا تعلیمی بجٹ خیبر پختون خواہ سے چار پرسینٹ زیادہ ہے
Zada hony se kaya hota hei?????? Lagna toa iss saray budget ne fazool k kamo pe lag jana hei...Taleem pe zero......
 

wadda.chaudhry

Senator (1k+ posts)

شکریہ بھائی ! لیکن یہ بات آپ نون لیگ کے ان لوگوں کو بھی سمجھائیں ناں جو کہتے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی نے کے پی میں ایک میگا واٹ بجلی پیدا کی ہے؟

جی بلکل پختون خوا کو بھی کام کرنے دینا چایئے، بے جا اور لا حاصل تنقید سے کوئی فائدہ نہیں. نہ وفاق اور نہ ہی کوئی اور صوبہ ڈیم جیسے بڑے منصوبے ١-٢ سال میں مکمل کر سکتا ہے ..