کوہستان:سیلاب متاثرین بے سرو سامان،مشکل راستوں سے پیدل نقل مکانی پر مجبور

kohistan-flood-pak-kr.jpg


ملک بھر میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں، سیلاب متاثرین کی مشکلات کم تاحال کم نہ ہوسکیں، سیلاب متاثرین کی امداد کے دعوے بھی دھرے رہ گئے، دیر بالاہ کے ضلع لوئر کوہستان سے سیلاب متاثرین امداد نہ ملنے پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں،کوہستان کے مختلف علاقوں کا بنیادی ڈھانچہ بھی ختم ہو گیا،کوہستان کے سیلاب متاثرہ شخص ٹکا خان نے دکھ بھری کہانی سنادی۔

ٹکا خان کا کہنا ہے کہ ہمارا گھر سیلاب کی نذر ہوگیا، سب کچھ تباہ ہوگیا، یہاں گزارا مشکل ہوگیا ہے، کراچی جانے پر مجبور ہیں، بہت مشکلات ہیں گزارا کیسے کریں کچھ سمجھ نہیں آرہا،لوئر کوہستان کی تحصیل رانولیا سمیت مختلف علاقوں میں سب کچھ سیلاب بہا لیا گیا، نہ خوراک ہے نہ ادویات متاثرین کیلیے ایک ایک لمحہ مشکل ہورہا ہے،رانولیا کے مکین نقل مکانی کر رہے ہیں۔


رانولیا کے متاثرہ شخص محمد اسحاق کا کہنا ہے کہ مشکل ہے کہ اس علاقے کی تباہ حال سڑکیں دو سال میں بھی بن جائے، اس لئے اس صورتحال میں نقل مکانی بہتر ہے،ایک متاثرہ شخص نے بتایا کہ صبح چھ بجے نکلے تھے، پیدل سفر کررہے ہیں،دشوار راستے ہیں۔

متاثرہ شخص نے بتایا کہ دس بارہ بچے ساتھ ہیں، راستہ مشکل ہے، کراچی جانے کا ارادہ ہے، علاقے کا سارا نظام تباہ ہوچکا ہے، کہیں بھی ریلیف نظر نہیں آرہا،اسی فیصد لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں، باقی بیس فیصد بھی نکل رہے ہیں۔

کچھ متاثرین سوات ہجرت کرکے جارہے ہیں، نور محمد کہتے ہیں سیلاب نے سب کچھ تباہ کردیا ہے،اسپتالوں میں مریضوں کیلیے ادویات نہیں کوئی سہولت نہیں، نہ کھانے کو کچھ ہے،مریض کو کندھے پر اٹھا کر اسپتال لے جاتے ہیں،زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے۔

محمد شاہ نے بتایا رانولیا بستی تباہ ہوچکی ہے،اب سوات کے مانسہرہ، بٹ گرام دیگر مقامات پر جارہے ہیں،ایک گھرانے میں سو سے زائد لوگ ہیں،یہاں رہنے کیلیے کوئی جگہ نہیں، بارش کا موسم ہے،بستر بھی نہیں ہے،گزارا مشکل ہورہا ہے،نہ شیلٹر ملے، نہ ٹینٹ، نہ خوراک نہ ادویات ہر شے کے لئے ترس رہے ہیں۔

محمد شاہ نے بتایا ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر گیا، اب تک روڈ بحال نہیں ہوئے، حکومتی یا ڈسٹرکٹ کا کوئی نمائندہ نہیں آیا، ہمارے خاندان کے پانچ افراد سیلاب میں بہہ چکے کوئی پوچھنے تک نہیں آیا۔

عالمی ادارہ صحت کے نمائندے محمد سعید نے بتایا کہ یہاں سے متاثرین آٹا اور دیگر امدادی سامان لے کر جاتے ہیں،سات سے آٹھ گھنٹے میں واپس پہنچتے ہیں تو ظاہر ہے غریب کیلیے وہاں رہنا بہت ہی مشکل ہے، اسی وجہ سے متاثرین مجبوراً نقل مکانی کررہے ہیں۔

محمد سعید بتایا کہ یہاں چھ یوسیز تباہ ہوچکی ہیں،بارہ سو خاندان ان تباہ حال یوسیز سے شانگلہ، سوات اور دوسرے مقامات پر جاچکے ہیں،زیادہ تر لوگ وہاں کرائے کے مکانوں میں رہ رہے ہیں،مزید خاندان بھی نقل مکانی کرجائیں گے،دیر بالا سے واٹر سپلائی مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے،چھالیس ہزار کی آبادی ہے،یہ لوگ بھی شاید ہجرت پر مجبورہوجائیں۔

ڈپٹی کمشنر لوئر کوہستان شکیل احمد نے بتایا کہ دوہزار دس میں سیلاب آیا تو انہوں نے اپنے گھر بنوائے، دوہزار سولہ میں سیلاب آیا پھر گھر بنوائے، دوہزار بیس میں آیا پھر گھر بنوائے، اب انسانی ہمت جواب دے گئی ہے،اس علاقے کے روڈ کا مستقل حل نکالنا بہت ضروری ہے،کم درجے کا سیلاب بھی علاقے کے روڈ تباہ کررہا ہے،اس لئے کوشش ہے کہ روڈ پہاڑ کے اوپر سے بنائے جائیں۔

سماجی کارکن ملک اسد خان نے کا کہنا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کام کررہی ہے،مشینیں لگائی ہیں،لیکن تباہی کے بعد بحالی کیلیے یہ ناکافی ہے،اگر اسی طرح کام جاری رہا تو پچاس فیصد لوگ یہاں سے ہجرت کرجائیں گے،کیونکہ برفباری ہوگی تو مسائل بڑھ جائیں گے۔