Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات کرتا ہے؟ چیف جسٹس کا سوال
ابسلوٹلی ناٹ، وکیل علی ظفر کا جواب
ابسلوٹلی ناٹ تو آپ نے کسی اور کو کہا تھا،چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقے
الیکشن کمیشن سے پوچھا جائے کہ اپنے اختیارات کا استعمال کیوں نہیں کیا۔
بیرسٹر علی ظفر
“ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے، بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے، پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے”۔ چیف جسٹس کے ریمارکس
فیڈرل کنسولییڈیٹڈ فنڈ سے رقم کے اجرا پر بھی بحث، فاروق ایچ نائیک نے کہا یہاں سے فنڈ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد خرچ ہوتے ہیں
اگر اسمبلی تحلیل ہوجائے تو کیا فنڈز جاری ہی نہیں ہو سکیں گے، جسٹس منیب اختر
انتخابات کےلئے پورے بجٹ کی ضرورت نہیں،ہماری تنخواہوں سے 20 ارب لے لیں۔چیف جسٹس بندیال
وجوہات ٹھوس ہوں تو تب ہی الیکشن کمیشن تاریخ میں توسیع کیلئے صدر پاکستان سے رجوع کر سکتا ہے۔
سپریم کورٹ
جسٹس منیب اختر نے کہا مکمل اتفاق ہے کہ آئین میں ترمیم ہونی چاہیے، لیکن یہ ترمیم ہونے تک الیکشن کے انعقاد پر کیا ہو گا ؟؟
آئین میں ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں 232 ارکان چاہئیں۔۔۔ قومی اسمبلی میں اس وقت موجود ارکان 217 ہیں ۔۔۔ تو ترمیم کیسے ہو گی؟؟
سیکرٹری خزانہ نے کمال کر دی ہے کہتے ہیں کہ عام انتخابات کے لیے پیسے نہیں تو کیا پھر کوئی انتخاب نہیں ہو گا؟
جسٹس منیب اختر
الیکشن کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا اختیار ہی نہیں ہے اور یہ بات الیکشن کمیشن اسی عدالت میں کر چکا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن
دو ججز کے اختلافی نوٹ کو دیکھا جن کا اپنا نقطہء نظر ہے،
دو ججز کے اختلافی نوٹ کا موجودہ کیس سے براہ راست تعلق نہیں، چیف جسٹس عمر عطابندیال
کارروئی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی، سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کیلئے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا، جمہوریت کیلیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے، قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہوگا تو مسائل بڑھیں گے، چیف جسٹس
عدالت کا یکم مارچ کا فیصلہ اس وقت موجود ہے، انتخابات کا اعلان صدر مملکت کرچکے تھے، عدالت میں جو کارروائی ہوئی تھی وہ تاریخ مقرر کرنے کی نہیں بلکہ جو تاریخ مسترد کی گئی تھی اس پر تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
سپریم کورٹ کو دو ججز نے اس معاملے پر اپنی رائے دی،اب کہنا کہ فیصلہ کتنی اکثریت سے آیا،
سپریم کورٹ کے فیصلے ہر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے، بینچ سے متعلق اعتراضات کی بجائے قانونی نکات پر بات کریں،عدالت ارٹیکل 184(3) کے تحت کاروائی آگے بڑھا رہی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
قانون نے صدر مملکت کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال
سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی،
کارروئی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے
چیف جسٹس عمر عطا بندیال
عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی،عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے،یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے، اٹارنی جنرل
جمہوریت کیلیے قانون کی حکمرانی لازمی ہے قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی، چیف جسٹس
ملک میں اس وقت انار کی اور فاشزم ہے، فاروق نائیک
اس میں کوئی شک نہیں آئین میں ہے کہ 90 دنوں میں الیکشن ہونا ہیں، جسٹس جمال مندوخیل
اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے، جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں،چیف جسٹس
تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں،چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ
ملک کی معاشی صورتحال سب کے سامنے ہے،
لوگ آٹے کے حصول کیلئے لمبی لائنوں میں لگے ہیں، موجودہ صورتحال میں تمام فریقین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس بندیال
رول اف لاء اور جمہوریت کی مضبوطی بنیادی چیزیں ہیں،اس وقت معاشرے میں انتشار ہے، ڈائیلاگ کا راستہ بند ہوچکا ہے، اس صورتحال میں الیکشن ہی پرف جانے کے کیا نتائج ہوں گے،
ہمیں حقائق کا بھی جایزہ لینا ہوگا، چیف جسٹس
آج سپریم کورٹ میں دو ججز کے فیصلہ دینے کا معاملہ اٹارنی جنرل نے اٹھایا تو فیصلہ دینے والے جج جسٹس جمال مندوخیل نے کہا یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے،یہ بتا دیں کہ کیا آئین نوے روز میں انتخابات کرانے کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں؟
اٹارنی جنرل کیجانب سےجسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا تو جسٹس جمال خان بولےآپ اس معاملے کو رہنے دیں۔وہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، جس پر چیف جسٹس بندیال نے اوپن کورٹ میں جسٹس مندوخیل کا شکریہ ادا کیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے از خود نوٹس فیصلے میں تفریق کو سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ قرار دیدیا
"شکریہ جج صاحب،چیف جسٹس آف پاکستان"
میں اپنے ساتھی جج صاحب کا انتہائی مشکور ہوں۔فاضل جج صاحب نے دو ٹوک انداز میں وضاحت کر دی ہے،شکریہ جج صاحب۔ چیف جسٹس
سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے،اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے،چیف جسٹس پاکستان
اٹارنی جنرل نے انتخابات کیس کے لیے فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کردی، اور ساتھ ہی PTI کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض کردیا۔
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/Ku7FuxY.jpg
Last edited: