تبلیغی جماعت میں وسیع پیمانے پر وائرس پھوٹ پڑنے کی تصدیق ہو جانے کے بعد حکومت نے تبلیغی مرکز اور رائیونڈ شہر قرنطینہ قرار دے کر سیل کرنے کے بعد پولیس اور فوج تعینات کر دی ہے۔ پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا جب کسی شہر کو ہی قرنطینہ قرار دے دیا گیا ہو۔ حکومت دستیاب وسائل کے ساتھ کوشاں ہے کہ اس عفریت کا ہر طرح مقابلہ کرے لیکن اس موذی مرض کے سامنے چین جیسی عالمی طاقت، یورپ کے ترقی یافتہ ممالک اور امریکہ جیسی سپر پاورز بھی عوامی تعاون کے بغیر بے بس نظر آ رہی ہیں۔ بحیثیت ایک مہذب انسان، مسلمان اور پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ اس سلسلے میں سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔ اس سلسلے میں ہونے والے کسی سوشل میڈیا پراپیگنڈے کا شکار نہ ہوں بلکہ ایسا کرنے والوں کی اطلاع متعلقہ اداروں کی ہیلپ لائن پر دے کر اس جرم کے مرتکب افراد کا سافٹ وئیر فوری اپ ڈیٹ کروائیں۔
دو ہفتے پہلے رائیونڈ میں ہونے والے تبلیغی اجتماع سے نکلے لاکھوں تبلیغی کارندے ملک عزیز پاکستان کے چپے چپے پر وائرس لیکر پھیل چکے ہیں دیہاتوں، قصبوں اور چھوٹے بڑے شہروں کی ہر سائز کی مساجد، چھوٹی سے لیکر مرکزی اور جامع مساجد تک میں تبلیغی جماعت کے ارکان ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ پولیس عام شہریوں کو تو بے دریغ ڈنڈے مار مار کے واپس گھروں میں دھکیل دیتی ہے لیکن تبلیغی حضرات کی وضع قطع اور اس جماعت کے پر امن ہونے کے عمومی تاثر کی بنا پر انکے ساتھ سختی سے پیش آنے سے گریزاں ہے۔ اس حکومتی مجبوری کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ کرونا وائرس کے شکار تبلیغی کارکن برق رفتاری سے اسکے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سامنے نہیں آئے لیکن خدشہ ہے کہ تبلیغی جماعت نہ صرف اس وائرس کا خود سب سے بڑا شکار ہے بلکہ اسکے پھیلاو کا سب سے بڑا ذریعہ بھی بن چکی ہے۔
لہذا بحیثیت پاکستانی ہمارا فرض ہے کہ تبلیغی جماعت والوں سے جتنا ممکن ہو دوری اختیار کریں اور وہ مساجد اور مدارس جہاں یہ حضرات مورچہ زن ہیں اور وائرس سے لیس ہو کر تبلیغی مہم چلا رہے ہیں انتظامیہ کو ان مقامات کی نشاندہی کی جائے تاکہ ان مساجد و مدارس کو قرنطینہ قرار دے کر دیگر آبادیوں کو اس مہلک وائرس سے محفوظ رکھا جائے۔