[h=1]کراچی میں آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے ...Spartacus :)[/h]
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔
یہ ریمارکس جسٹس انور ظہیر جمالی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے دیے جس میں جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس عارف حسین خلجی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں
س کی سماعت کے دوران جاری کیے گئے احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری اس سماعت میں جمعرات کو عدالت میں موجود پولیس افسران سے سوال کیا گیا کہ سہراب گوٹھ میں آپریشن کب کیا گیا اور اس دوران کتنے افراد گرفتار کیے گئے؟ جس پر پولیس افسران نے عدالت کو بتایا کہ حال ہی میں سہراب گوٹھ میں کیے جانے والے آپریشن میں چند افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چند افراد کی گرفتاری سے معاملہ حل نہیں ہوگا، اس کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے
عدالت نے پولیس سے سوال کیا کہ اس کیس میں عدالتی حکم کو جاری کیے گئے تیرہ ماہ گزر چکے ہیں، اب تک کراچی میں کتنے قتل ہوئے، کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں اور کتنے چالان عدالت میں پیش کیے گئے؟
کراچی سے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق، عدالتی سوال پر پولیس نے ذرا توقف کے بعد اس بابت رپورٹ جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ اب تک چار سو افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔
عدالت نے پولیس افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جسے چاہیں ٹارگٹ کلنگ قرار دے دیتے ہیں اور جسے چاہیں حادثاتی موت بنا دیتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی کے حالات کے باعث نوے فیصد افراد نفسیاتی مریض ہو چکے ہیں چاہیں تو ڈاکٹر سے سروے کرالیں۔
[h=2]پے رول پر رہائی[/h]
عدالت نے سنہ دو ہزار تین میں اکیس ملزمان کو جیل سے پے رول پر رہا کرنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ انہیں کیسے چھوڑا گیا اور یہ اب تک دوبارہ جیل کیوں نہیں آئے۔؟
صوبائی محکمۂ داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ اُس وقت صوبے میں ارباب غلام رحیم وزیراعلٰی تھے اور ان کی منظوری سے اکیس ملزمان کو جیل سے پے رول پر رہا کیا گیا تھا۔
عدالت نے برہم ہوتے ہوئے استفسار کیا کہ جن مقدمات میں عدالت نے ضمانت مسترد کر دی انہیں آپ نے رہا کر دیا۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ یہ کیسی اندھیر نگری چوپٹ راج ہے؟
عدالت کو جمع کرائی گئی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہوئے جسٹس انور ظہیر جمالی نے سوال کیا کہ الیاس عرف چاچا کو پانچ افراد قتل کرنے پر گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا اور وہاں اُسے نیک سلوک (گُڈ کنڈکٹ) پر رہا کردیا گیا، کیوں؟
اس سوال پر سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح کے پاس اپنے دفاع میں کوئی جواب نہیں تھا اور انہوں نے کہا کہ جو ہوا غلط ہوا، اور یہ کیا گڈ کنڈکٹ ہوا۔ ان کے اس جواب پر عدالت نے کہا کہ یہ تو آپ بتائیں ہم کیا بتائیں۔
اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو امن و امان کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔
[h=2]مفرور ملزمان[/h]عدالت نے پولیس سے سوال کیا کہ وہ ساڑھے تین ہزار مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کیا کر رہی ہے؟ عدالت نے کہا کہ جس معاشرے میں سنگین جرائم میں ملوث افراد اور قاتل دندناتے پھر رہے ہوں وہاں لوگ اپنے بچوں کو گھروں سے باہر کیسے نکالیں؟
اس موقع پر کراچی کے پولیس سربراہ اقبال محمود نے کہا کہ وہ اپنی سی کوشش کر رہے ہیں جس پر عدالت نے ان پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ آپ امن و امان کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
[h=2]کراچی میں رینجرز[/h]
جسٹس خلجی عارف حسین نے سوال کیا کہ رینجرز کراچی میں کب سے تعینات ہیں؟ جس پر وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ سنہ انیس سو پچانوے سے۔ عدالت نے سوال کیا کہ رینجرز کو امن قائم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا تو سترہ سال کے بعد کیا نتیجہ نکلا؟
ایڈیشنل سیکرٹری وسیم احمد عدالت کے اس سوال پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور کہا کہ نتیجہ تو ملا لیکن اتنا اچھا نتیجہ نہیں ملا۔
عدالت نے تنخواہوں کا موازنہ کرنے کے بعد وسیم احمد سے کہا کہ رینجرز پولیس سے دُگنی تنخواہ لے رہے ہیں تو اس جانب توجہ دے کر پولیس کی کارکردگی بڑھانے کے لیے ان کی تنخواہوں میں اضافہ پر غور کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ رینجرز بارڈر کے لوگ ہیں انہیں شہر میں پھنسا دیا گیا ہے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت کا مقصد برا بھلا کہنا نہیں بلکہ توازن قائم کرنا ہے تاکہ حالات بہتر ہوں۔
اب تک کی کارروائی پر مختصر فیصلہ جلد متوقع ہے تاہم اس کیس کی اگلی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/11/121101_karachi_unrest_hearing_rwa.shtml
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ کراچی میں امن و امان قائم کرنے کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔
یہ ریمارکس جسٹس انور ظہیر جمالی کی قیادت میں پانچ رکنی بینچ نے دیے جس میں جسٹس سرمد جلال عثمانی، جسٹس عارف حسین خلجی، جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں
س کی سماعت کے دوران جاری کیے گئے احکامات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جاری اس سماعت میں جمعرات کو عدالت میں موجود پولیس افسران سے سوال کیا گیا کہ سہراب گوٹھ میں آپریشن کب کیا گیا اور اس دوران کتنے افراد گرفتار کیے گئے؟ جس پر پولیس افسران نے عدالت کو بتایا کہ حال ہی میں سہراب گوٹھ میں کیے جانے والے آپریشن میں چند افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی نے پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چند افراد کی گرفتاری سے معاملہ حل نہیں ہوگا، اس کے لیے آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے
عدالت نے پولیس سے سوال کیا کہ اس کیس میں عدالتی حکم کو جاری کیے گئے تیرہ ماہ گزر چکے ہیں، اب تک کراچی میں کتنے قتل ہوئے، کتنی ایف آئی آر درج ہوئیں اور کتنے چالان عدالت میں پیش کیے گئے؟
کراچی سے بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق، عدالتی سوال پر پولیس نے ذرا توقف کے بعد اس بابت رپورٹ جمع کرائی جس میں کہا گیا کہ اب تک چار سو افراد ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔
عدالت نے پولیس افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جسے چاہیں ٹارگٹ کلنگ قرار دے دیتے ہیں اور جسے چاہیں حادثاتی موت بنا دیتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی کے حالات کے باعث نوے فیصد افراد نفسیاتی مریض ہو چکے ہیں چاہیں تو ڈاکٹر سے سروے کرالیں۔
[h=2]پے رول پر رہائی[/h]
عدالت نے سنہ دو ہزار تین میں اکیس ملزمان کو جیل سے پے رول پر رہا کرنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ انہیں کیسے چھوڑا گیا اور یہ اب تک دوبارہ جیل کیوں نہیں آئے۔؟
صوبائی محکمۂ داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ اُس وقت صوبے میں ارباب غلام رحیم وزیراعلٰی تھے اور ان کی منظوری سے اکیس ملزمان کو جیل سے پے رول پر رہا کیا گیا تھا۔
عدالت نے برہم ہوتے ہوئے استفسار کیا کہ جن مقدمات میں عدالت نے ضمانت مسترد کر دی انہیں آپ نے رہا کر دیا۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ یہ کیسی اندھیر نگری چوپٹ راج ہے؟
عدالت کو جمع کرائی گئی رپورٹ کا مطالعہ کرتے ہوئے جسٹس انور ظہیر جمالی نے سوال کیا کہ الیاس عرف چاچا کو پانچ افراد قتل کرنے پر گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا اور وہاں اُسے نیک سلوک (گُڈ کنڈکٹ) پر رہا کردیا گیا، کیوں؟
اس سوال پر سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالفتاح کے پاس اپنے دفاع میں کوئی جواب نہیں تھا اور انہوں نے کہا کہ جو ہوا غلط ہوا، اور یہ کیا گڈ کنڈکٹ ہوا۔ ان کے اس جواب پر عدالت نے کہا کہ یہ تو آپ بتائیں ہم کیا بتائیں۔
اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو امن و امان کبھی قائم نہیں ہوسکتا۔
[h=2]مفرور ملزمان[/h]عدالت نے پولیس سے سوال کیا کہ وہ ساڑھے تین ہزار مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے کیا کر رہی ہے؟ عدالت نے کہا کہ جس معاشرے میں سنگین جرائم میں ملوث افراد اور قاتل دندناتے پھر رہے ہوں وہاں لوگ اپنے بچوں کو گھروں سے باہر کیسے نکالیں؟
اس موقع پر کراچی کے پولیس سربراہ اقبال محمود نے کہا کہ وہ اپنی سی کوشش کر رہے ہیں جس پر عدالت نے ان پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ صاف کیوں نہیں کہہ دیتے کہ آپ امن و امان کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
[h=2]کراچی میں رینجرز[/h]
جسٹس خلجی عارف حسین نے سوال کیا کہ رینجرز کراچی میں کب سے تعینات ہیں؟ جس پر وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ سنہ انیس سو پچانوے سے۔ عدالت نے سوال کیا کہ رینجرز کو امن قائم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا تو سترہ سال کے بعد کیا نتیجہ نکلا؟
ایڈیشنل سیکرٹری وسیم احمد عدالت کے اس سوال پر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور کہا کہ نتیجہ تو ملا لیکن اتنا اچھا نتیجہ نہیں ملا۔
عدالت نے تنخواہوں کا موازنہ کرنے کے بعد وسیم احمد سے کہا کہ رینجرز پولیس سے دُگنی تنخواہ لے رہے ہیں تو اس جانب توجہ دے کر پولیس کی کارکردگی بڑھانے کے لیے ان کی تنخواہوں میں اضافہ پر غور کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ رینجرز بارڈر کے لوگ ہیں انہیں شہر میں پھنسا دیا گیا ہے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت کا مقصد برا بھلا کہنا نہیں بلکہ توازن قائم کرنا ہے تاکہ حالات بہتر ہوں۔
اب تک کی کارروائی پر مختصر فیصلہ جلد متوقع ہے تاہم اس کیس کی اگلی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/11/121101_karachi_unrest_hearing_rwa.shtml